0
Monday 5 Sep 2016 19:49

پاک چین اتحاد کے خلاف امریکہ بھارت اسٹریٹجک تعلقات

پاک چین اتحاد کے خلاف امریکہ بھارت اسٹریٹجک تعلقات
تحریر: علی کاووسی نژاد

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا دورہ بھارت اور بھارتی وزیر خارجہ سوشما سورج کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اسٹریٹجک میٹنگ میں شرکت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ 2014ء میں امریکی صدر براک اوباما کے دورہ بھارت کے بعد واشنگٹن کا نئی دہلی کی جانب جھکاو بہت شدید ہو گیا ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور فوجی تعلقات اور تعاون بھی نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ تعلقات اس وقت نئے مرحلے میں داخل ہوئے جب امریکی صدر براک اوباما نے دورہ بھارت کے دوران امریکہ اور بھارت کے تعلقات کو "صدی کے تعلقات" قرار دیا۔ امریکہ اس نتیجے تک پہنچ چکا ہے کہ بھارت خطے کا وہ واحد ملک ہے جو براعظم ایشیا میں چین کی انتہائی تیزی سے ترقی کرتی ہوئے معیشت اور تجارت کو لگام سے سکتا ہے اور عالمی منڈی میں چین کے داخلے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ واشنگٹن ہر گز عالمی سطح پر چین کے اقتصادی غلبے کو برداشت نہیں کر سکتا۔

دوسری طرف امریکہ بھارت سے اپنے تعلقات کو فروغ دے کر اس ملک میں روس کے اثرورسوخ کو کم از کم سطح پر لانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ روس کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو سابق سوویت یونین کے زمانے سے بھارت سے اسٹریٹجک تعاون کر رہا ہے اور بھارت اب تک اپنی ضرورت کے اسلحہ کا بڑا حصہ روس اور اسرائیل سے حاصل کرتا آیا ہے۔ واشنگٹن جو ماسکو اور نئی دہلی کے قریبی تعلقات سے خوفزدہ ہے طے شدہ منصوبے کے تحت خطے کی دو بڑی مشرقی اور مغربی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ امریکی حکام بھارت کو اپنے لئے اہم اور اسٹریٹجک اتحادی تصور کرتے ہیں لہذا اس ملک سے تجارتی اور اسٹریٹجک تعلقات کی سطح بڑھانے کے علاوہ خطے کی معیشت اپنے ہاتھ میں رکھنے اور چین کے اقتصادی اثرورسوخ کو روکنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ چین امریکہ جیسی عالمی طاقت کو دو پہلووں سے دباو کا شکار کر سکتا ہے۔ ایک اقتصادی پہلو سے اور دوسرا فوجی پہلو سے۔ لیکن اس وقت چین نے خود کو ہر قسم کے فوجی ٹکراو اور علاقائی تنازعات سے دور کر رکھا ہے اور اپنی تمام تر توانائیاں اقتصادی طاقت کے فروغ پر مرکوز کر رکھی ہیں۔

پاکستان خطے میں چین کا اہم اقتصادی اور علاقائی اتحادی شمار ہوتا ہے جسے نہ صرف چین کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کاشغر سے گوادر تک 3 ہزار کلومیٹر طولانی اقتصادی راہداری پر مبنی منصوبے کے ذریعے پاکستان اپنی گوادر پورٹ کے ذریعے چین کی مصنوعات وسطی ایشیائی خطے تک ٹرانزٹ کر سکتا ہے جہاں سے یہ مصنوعات یورپی ممالک کو بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔ اس منصوبے میں کاشغر سے گوادر تک اقتصادی راہداری کی سیکورٹی ایک انتہائی اہم ایشو ہے۔ پاکستان جس کا زیادہ تر بھروسہ اپنی مسلح افواج کی فوجی طاقت پر ہے اپنی فوج کی مدد سے اور ضرورت پڑنے پر چین کی تربیت یافتہ مسلح افواج کے ذریعے اس راہداری کی سیکورٹی یقینی بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس بارے میں طالبان اور پاکستان اور افغانستان میں موجود دیگر مسلح دہشت گرد گروہوں کی طاقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ چین نے ان گروہوں سے مقابلے کیلئے بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جس کا ایک نمونہ کوآرٹیٹ افغانستان امن مذاکرات میں چین کی موجودگی ہے۔ دوسری طرف چین نے طالبان سے بھی تعلقات استوار کر رکھے ہیں جیسا کہ گذشتہ ماہ طالبان کے ایک وفد نے بیجنگ کا دورہ کیا اور افغانستان سے امریکی مسلح افواج کے مکمل انخلاء کیلئے چین سے تعاون کی اپیل کی ہے۔ چین نے طالبان سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے اور ضرورت پڑنے پر افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے خلاف طالبان کی طاقت استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ امریکہ نے بھی چین اور ہمسایہ مملک کے درمیان متنازعہ پانیوں میں اپنی فوجی مداخلت بڑھا رکھی ہے۔ اسی طرح امریکہ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبے کو جامہ عمل پہنانے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے جس سے اس کا مقصد چین کو وسطی ایشیائی خطے تک رسائی سے روکنا ہے۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران بھارت چین کو کئی بار خبردار کر چکا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو شامل کرنا غیرقانونی اقدام ہے اور یہ خطہ درحقیقت بھارت کا حصہ شمار ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران بھارت اور امریکہ کی خارجہ پالیسیاں ایکدوسرے سے قریب آئی ہیں۔ واشنگٹن نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی رکنیت کی حمایت کر رہا ہے۔ دوسری طرف ترکی، چین اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی رکنیت کے مخالف ہیں۔ اس مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس گروپ میں بھارت کی رکنیت کے باعث خطے میں فوجی اور جوہری توازن خراب ہو جائے گا جس کے نتیجے میں برصغیر پاک و ہند میں جوہری جنگ کے خطرات بڑھ جائیں گے جبکہ اس کا ایک اور نتیجہ پاکستان کی گوشہ گیری کی صورت میں بھی ظاہر ہو گا۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی جانب سے بھارت سے تعلقات میں فروغ کی کوششوں میں حال ہی میں مزید شدت آ گئی ہے اور حتی امریکہ نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی رکنیت کی حمایت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان سے امریکہ کا رویہ غیردوستانہ ہو چکا ہے۔ امریکی کانگریس نے 8 ایف 16 جنگی طیارے پاکستان کو بیچنے سے منع کر دیا ہے جبکہ امریکی حکومت نے پاکستان کو دی جانے والی فوجی اور مالی امداد بھی روک دی ہے۔ امریکہ اپنے ان اقدامات کی وجہ بیان کرتے ہوئے بھارت کی ریاست پنجاب میں واقع پٹھان کوٹ فوجی ہوائی اڈے پر جنوری 2015ء میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی جانب اشارہ کرتا ہے اور یہ الزام عائد کرتا ہے کہ ان حملوں میں پاکستان کی تنظیم "جیش محمد" ملوث ہے جس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر ہیں۔ دوسری طرف طالبان پاکستان سے وابستہ حقانی نیٹ ورک نے پاکستان اور افغانستان کے فوجی اور غیرفوجی مراکز کے خلاف اپنی کاروائیاں تیز کر دی ہیں۔ حال ہی میں اس نیٹ ورک نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک حساس ادارے کے دفتر پر حملہ کیا جس میں بڑی تعداد میں افغان سیکورٹی اہلکار اور عام افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ اس حملے پر افغان صدر اشرف غنی نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور حکومت پاکستان کو خبردار کیا کہ اگر وہ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر کاروائی نہیں کرتا تو اقوام متحدہ میں اس کے خلاف شکایت کی جائے گی۔ افغان صدر کی اس وارننگ کے بعد واشنگٹن نے بھی پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے کاروائیاں جاری رہنے کی صورت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی فوجی اور مالی امداد روک دی جائے گی۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات مین ایک بڑی خلیج حائل ہو چکی ہے اور امریکہ پاکستان سے مزید فوجی اور اسٹریٹجک تعاون جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے دورہ بھارت کے دوران اعلان کیا ہے کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے امریکہ، بھارت اور افغانستان کے درمیان سہ طرفہ میٹنگ منعقد کی گئی ہے۔ جان کیری نے ان مذاکرات میں پاکستان کی موجودگی کے بارے میں کچھ نہ کہا اور اعلان کیا کہ اسلام آباد دیگر ممالک کی طرح دہشت گردی سے مقابلہ کرے۔ نیویارک مذاکرات میں پاکستان کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ خطے میں اپنے اتحادی ملک پاکستان پر اعتماد کھو بیٹھا ہے اور مستقبل قریب میں پاکستان سے اپنے تعلقات میں بہتری کی امید بھی نہیں رکھتا۔

ہم مستقبل قریب میں دو قسم کے علاقائی اتحادوں کا مشاہدہ کریں گے۔ ایک اتحاد امریکہ، بھارت اور افغانستان جبکہ دوسرا اتحاد چین، ترکی اور پاکستان کی مرکزیت میں معرض وجود میں آئے گا۔ اس درمیان روس کی کوشش ہو گی کہ اسٹریٹجک تعاون کے پیش نظر بھارت سے زیادہ تعلقات قائم رکھے جبکہ کم تر سطح پر پاکستان سے بھی اقتصادی میدان میں تعلقات استوار رکھے۔ چین اور پاکستان کے درمیان اتحاد کا نتیجہ مستقبل میں کاشغر سے گوادر تک اقتصادی راہداری کی صورت میں ظاہر ہو گا جس کا رابطہ ایران کی بندرگاہ چابہار سے بھی ہو گا۔ لہذا اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے ایک ہی وقت میں بے طرفی کی بنیاد پر بھارت اور پاکستان دونوں سے تعاون کے مواقع میسر ہو جائیں گے۔

اس وقت نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی رکنیت ایک ایسا ایشو ہے جس پر امریکہ نے اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور اوباما حکومت نے اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے۔ لیکن اس اہم نکتے کی جانب توجہ بھی ضروری ہے کہ چین کی رضامندی کے بغیر این سی جی میں بھارت کی رکنیت کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ اگر بھارت اور پاکستان این پی ٹی معاہدے پر دستخط کر دیں تو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھی ان کی رکنیت ممکن ہو سکے گی۔ خطے میں پاکستان اور چین کو کنٹرول کرنے کیلئے امریکہ کی جانب سے بھارت کی جانب جھکاو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 565221
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش