2
0
Tuesday 6 Sep 2016 13:46

مسئلہ کوئٹہ و تفتان۔۔۔ ستم کی شب کو زوال ہے

مسئلہ کوئٹہ و تفتان۔۔۔ ستم کی شب کو زوال ہے
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


کمروں میں ہر طرف گندگی کی سڑاند تھی، اے کاش میں پاکستان ہاوس کے گندے کمروں اور بستروں کی تصاویر بنا کر لاتا، یہ کہہ کر زائر نے میری طرف دیکھا اور بولا جو جتنا مجبور ہوتا ہے، اس سے اتنی زیادہ رشوت وصول کی جاتی ہے۔ لوگوں کو کانوائے کے نام پر محصور کیا جاتا ہے، تاکہ ان کے ویزے کی مدت کم ہوتی جائے اور وہ مٹھی گرم کرنے کے بارے میں سوچیں، راستے میں گھنٹوں چیک پوسٹوں پر لوگوں کو بیوی بچوں سمیت بٹھایا جاتا ہے، تاکہ مجبور ہوکر کچھ نہ کچھ دیں، پاکستان ہاوس کے تعفن میں حبسِ بے جا میں رکھا جاتا ہے، تاکہ ان سے جو رقم نچوڑی جاسکتی ہی نچوڑی جائے، کرایہ جتنا زیادہ کوئی وصول کرسکتا ہے، وہ کرلیتا ہے کہ یہ موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے، علاقے کے ڈی سی کا لیٹر مانگا جاتا ہے، تاکہ ہراسان کرکے پانچ سو یا ہزار روپیہ کمایا جائے۔۔۔

انسان کہیں شکایت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا، اُف کرے تو ڈانٹ پڑتی ہے، ہائے دہائی کرے تو بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے، جو لوگ کانوائے کے بغیر آتے ہیں، ان سے پوچھیں کہ ایف سی والوں کا کیا رویہ ہے؟ وہ سکیورٹی ریکارڈ کے نام پر اپنے شخصی موبائل سے مستورات کی تصاویر بناتے ہیں۔۔۔ پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو لوگ اس روٹ پر کبھی زمینی سفر ہی نہیں کرتے، وہ ان مسائل کی تردید کرنے لگ جاتے ہیں۔ بعض لوریاں سنانے لگتے ہیں اور بعض “مٹی پاو اور جہاز سے آو“ کا نسخہ بتاتے ہیں۔ ایک زائر کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں ہر جگہ طبقاتی کشمکش چل رہی ہے، ہر مذہب، مسلک، مکتب اور پارٹی میں ایک اشرافی طبقہ موجود ہے، وہ طبقہ نچلے طبقے کے مسائل کو لمس ہی نہیں کرتا، وہ زمینی سفر کی صعوبتوں، غربت میں زیارت کی لذّت اور خالی ہاتھ حج و عمرے کے ذائقے کو چکھتا ہی نہیں۔۔۔ اسے پتہ ہی نہیں کہ کانوائے کے نام پر محصور ہو جانا یعنی کیا۔۔۔؟ اسے معلوم ہی نہیں کہ کرایوں کا بڑھ جانا یعنی کیا؟ وہ اس کرب سے گزرا ہی نہیں کہ بیوی بچوں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر میجر صاحب کا انتظار کرنا یعنی کیا؟ اسے یہ زخم لگا ہی نہیں کہ ایف سی کے اہلکاروں کا شخصی موبائلوں سے تصاویر بنانا یعنی کیا۔؟

قارئین کرام! بات شیعہ کانفرنس کی نہیں، بات چیک اینڈ بلینس کی ہے، بات ایف سی اہلکاروں کی نہیں، بات شہریوں کے حقوق کی ہے، بات پاکستان ہاوس کی نہیں، بات آئین کی بالادستی کی ہے، بات ہزارہ برادری کی نہیں، بات اصولوں کی ہے۔ جو قانون شہریوں کو تحفظ نہ دے سکے، جو فوج بھتہ خوروں پر ہاتھ نہ دال سکے، جو پولیس شہریوں کی شکایات کا نوٹس نہ لے اور جو خفیہ ادارے کرپٹ عناصر کی لوٹ مار سے بروقت باخبر نہ ہوسکیں۔۔۔ وہ کس درد کی دوا ہیں۔؟؟؟ اس مسئلے کا فوری حل یہی ہے کہ آرمی کی زیرِ نگرانی شکایت سیل قائم کیا جائے اور خفیہ اداروں کے اہلکار زائرین کے روپ میں بھتہ خوروں اور رشوت خوروں کا تعاقب کریں۔ پاکستان کی آرمی اور خفیہ ایجنسیوں کا لوہا دنیا مانتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ ادارے کوئٹہ و تفتان کے مسئلے میں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور یہ مسئلہ حل نہ ہو۔ ابھی محرم و صفر کی وجہ سے زائرین کی تعداد میں کئی گنا زیادہ اضافہ یقینی ہے، لہذا مذکورہ اداروں کو بھی اپنی فعالیت کو یقینی بناتے ہوئے کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنا چاہیے۔

آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہر شخص اپنے ملک و ملت سے فطری طور پر محبت کرتا ہے، ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان کو سنوارنا، اہل پاکستان کی مشکلات کا احساس کرنا اور مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانا ایک فطری امر  ہے۔ آیئے پاکستان کو بدنما بنانے والوں، پاکستان کا امیج خراب کرنے والوں اور پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ ایک خوبصورت ، پرامن اور خوشحال پاکستان ہی ہم سب کا خواب ہے۔ ہمارے اجداد نے پاکستان بنایا تھا، اسے سنوارنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے نام سے ہمارے اجداد کی آنکھوں میں جو نور چمکتا تھا، اس نور کو ہمیشہ سلامت رہنا چاہیے۔
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی
میری آنکھ میں ابھی نُور ہے
میرے بازؤں پہ نگاہ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو غرور تھا وہ غرور ہے
ابھی رزمگاہ کے درمیاں
ہے میرا نشان کُھلا ہُوا
ابھی تازہ دم ہے میرا فرس
نئے معرکوں پہ تُلا ہُوا
مجھے دیکھ قبضہِ تیغ پر
ابھی میرے کف کی گرفت ہے
بڑا منتقم ہے میرا لہو ۔۔۔
یہ میرے نسب کی سرشت ہے
میں اسی قبیلے کا فرد ہُوں
جو حریفِ سیلِ بلا رہا
اُسے مرگزار کا خوف کیا
جو کفن بدوش سدا رہا
وہ جو دشتِ جاں کو چمن کرے
یہ شرف تو میرے لہو کا ہے
مجھے زندگی سے عزیز تر ہے
یہ جو کھیل تیغ و گُلو کا ہے
سو میرے غنیم نہ بُھول تُو
کہ ستم کی شب کو زوال ہے
تيرا جور و ظلم بلا سہی۔۔۔۔۔۔
میرا حوصلہ بھی کمال ہے
تجھے مان جوش و گُرز پر
مجھے ناز زخمِ بدن پہ ہے
یہی نامہ بر ہے بہار کا۔۔۔۔
جو گلاب میرے کفن پہ ہے
خبر کا کوڈ : 565633
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Romania
حکومت بھی تب مسائل حل کرنے میں دلچسبی لیتی ہے جب عوامی دباو ہو۔
ہمارے بزرگان عوامی دباو کو اپنے حق میں تو استعمال کرتے ہیں لیکن عوام کے حق میں نہیں۔
عمامے کے مسئلے پہ تحقیقات اور پتہ نہیں کیا کچھ ہوا، لیکن اس مسئلے میں صرف دلاسے دیئے جاتے ہیں۔
اس مسئلے میں کوئی ہڑتال اور احتجاج دیکھنے میں نہیں آتا۔
جب تک عوام اپنی طاقت کو نہیں پہچانیں گے، ان کی طاقت سے سوئے استفادہ ہوتا رہے گا۔
عمران خان
Pakistan
اللہ رب العزت آپ کے قلم میں مزید تاثیر عطا کرے
محسوس یوں ہوتا ہے کہ زائرین کیلئے اس روٹ پر مشکلات پیدا کرنا شائد پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔
محرم الحرام کی آمد آمد ہے، لاکھوں کی تعداد میں زائر تو صرف پاکستان سے جائنگے،
جن میں سے زیادہ تعداد بسوں کے ذریعے جائے گی،
مگر خوش نصیب ہی ہونگے وہ جو کربلائے معلیٰ تک پہنچیں گے، بیشتر تو ایسے ہوتے ہیں، جن کے ویزے کی مدت
اتنی باقی رہ جاتی ہے کہ انہیں ایران سے ہی واپس آنا پڑے۔
آپ نے متعدد کالم اس عنوان سے رقم کئے، آپ کے نزدیک اس کا قابل عمل حل کیا ہے۔۔؟
ہماری پیشکش