0
Tuesday 6 Sep 2016 08:31

6 ستمبر اور قائد و اقبال کا پاکستان

6 ستمبر اور قائد و اقبال کا پاکستان
تحریر: ارشاد حسین ناصر

آج 6 ستمبر کا دن ہے، جو پاکستانیوں کیلئے یوم دفاع کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی بالعموم اور ارض وطن میں بسنے والے فرزندان پاک وطن بالخصوص اسے ملی جوش و جذبے اور شاندار طریقے سے مناتے ہیں۔ اس روز جنگ ستمبر کے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، وہ شہداء جنہوں نے اس پاک سرزمین کی حفاظت کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور جانوں پر کھیل کر اس پاک وطن کو اپنے ازلی دشمن ہندوستان کے ناپاک قدموں سے بچایا۔ وہ شہداء جنہوں نے عہد وفا نبھایا، وہ شہداء جنہوں نے اپنے خون سے اس ملک کی تقدیر لکھی۔ جنہوں نے اپنے آج کو قربان کرکے ہمارے کل کو محفوظ بنایا۔ ہم انہیں اکاون برس ہونے پر آج خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، ان کی قربانیوں کو یاد کر رہے ہیں اور اس عزم کو دہرا رہے ہیں کہ ملک پر آنے والی کسی بھی آفت و مصیبت یا امتحان میں اپنا تن، من اور دھن کو قربان کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ ستمبر 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو پورا پاکستان سینہ سپر ہو کر سامنے آگیا تھا، ایک قوم تھی جو دشمن کے ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کو تیار تھی، اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی فوج اور وسائل رکھنے والے دشمن کا مقابلہ بلا شبہ ایک قوم کیساتھ تھا، یہی وجہ تھی کہ ہم اس امتحان میں سرخرو ہوئے اور بھارت کو اپنے مقاصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے اس دفاع میں صرف افواج پاکستان ہی محاذ پر نہیں تھیں، ہر شعبہ اور طبقہ کے لوگ اپنے اپنے محاذ پر سرگرم عمل تھے، حتٰی فنکار اور گلوکار بھی قومی و جنگی ترانوں کے ذریعے جوش و جذبہ بڑھانے اور عزم کو پختہ بنانے میں اپنا کردار بھرپور طرح سے ادا کر رہے تھے۔

میں اس دور اور آج کے دور کو دیکھتا ہوں تو بہت تعجب ہوتا ہے، میدان جنگ میں شکست کھانے والے دشمن نے ہمیں آج کس طرح بانٹ دیا ہے اور قوم کو ٹکڑوں میں منقسم کر دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ آج بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والے، اسے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے بنانے والے نام نہاد قوم پرست اور مذہبی جغادری کھلے عام ملک کے چپے چپے میں اپنا نیٹ ورک بنائے ہوئے ہیں، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ان کی سرگرمیاں روکنے کی کسی میں جرات نہیں، ان حالات میں سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ اس وقت ملک کو بیرونی خطرات درپیش ہیں یا اندرونی طور پر ملک کا بیڑہ غرق کرنے والوں سے ملک بچانا ہے۔؟ یہ ایک اہم سوال ہے، جس کا آج کی پاکستانی قوم اور ارباب اختیار کو سامنا ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری سرحدیں جن ممالک سے ملتی ہیں، ان کو ہم پر اعتماد نہیں رہا، وہ ہم سے خطرات محسوس کرتے ہیں اور اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کا الزام ہم پر لگاتے ہیں، یہ بھی الزام ہے کہ دہشت گرد ان کے ملک میں بھیجے جا رہے ہیں، جبکہ ہمی بھی ان سے ایسی ہی شکایات ہیں اور پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری افغانستان میں بیٹھے دہشت گردوں پر عائد کی جاتی ہے، وہ دہشت گرد جنہیں حکومت افغان اور ہندوستان کے خفیہ اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔

اس وقت پاکستان بدترین صورتحال سے گذر رہا ہے، ایک طرف ہندوستان جو ازلی دشمن ہے، جس کا کام ہی پاکستان کو توڑنا اور اسے دنیا بھر میں رسوا کرنا ہے۔ دوسری سرحد افغانستان سے ملتی ہے، جہاں ہندوستان کا واضح انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے اور اس نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان کے گلی کوچوں اور مساجد و مراکز اور محافل و مزاروں پر دہشت گردی کی سینکڑوں وارداتیں ہوچکی ہیں اور بے گناہوں کا خون بہایا جا چکا ہے۔ وہ جنگ جو 1965ء میں ہم نے جذبہ و عزم سے جیت لی تھی، آج وہی جنگ داخلی دفاع کی خامیوں اور کمزوریوں کے باعث ہاری جا رہی ہے۔ آج اس پاک وطن میں اس کی بنیادوں میں لہو بھرنے والوں کی اولادیں اور بانی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے، انہیں شہر شہر اور قصبہ قصبہ میں بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے، نیشنل ایکشن پلان کی رو سے جن تکفیریوں اور ملک دشمنوں نے اس ملک کے خلاف مسلح بغاوت کر رکھی ہے، ان کا قلعہ قمع کرنا سکیورٹی اداروں اور تخت نشین حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے، مگر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حکمران تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں، ان کے حقوق پائمال کئے جا رہے ہیں، انہیں اقلیت میں بدلا جا رہا ہے، حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

قائد اعظم کا پاکستان آج بدترین تعصب زدہ ہے، اس تعصب کے باعث اس کی سلامتی کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہیں، یہ دیمک کی طرح اس ملک کو چاٹ رہا ہے، پاکستان کا دفاع اسی صورت ممکن ہے، جب یہ تعصب و تنگ نظری دفن ہو جائے۔ ہمارے ملک کے دشمنوں نے گذشتہ کچھ عرصہ میں جتنے بھی حملے کئے، ان میں وہ حملے جن میں افواج پاکستان اور فورسز کو نشانہ بنایا گیا، ان میں باہر کے لوگوں سے زیادہ اندرونی لوگ زیادہ تھے اور انہی کی مدد اور تعاون کے باعث ہی یہ تخریب کاری روبہ عمل ہوئی، اس میں آپ اے پی ایس پشاور، کراچی میں نیول بیس اور ایئر پورٹ پر حملے، کوئٹہ میں ایئر پورٹ پر حملہ اور لاہور، ملتان، فیصل آباد، سکھر، کوئٹہ وغیرہ میں ہونے والے اہم دفاعی مراکز پر حملہ کرنے والے ملزمان ان اداروں سے وابستہ ایسے افراد تھے، جن کو ان اداروں کی اہمیت کا بخوبی علم تھا، جبکہ ان میں سے اکثر حملوں میں جراتمندی سے مقابلہ کرنے والے یا قربانیاں پیش کرنے والے اس ملک کے سپوت اہل تشیع تھے، اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ہم ملک کے باوفا بیٹے ہیں۔ ہمیں ان جاہل، تخریب کار، ملک دشمنوں کے ساتھ نہیں ملایا جائے، جن کی رگوں میں پاکستان دشمنی کا خون دوڑتا ہے، ان کا وطن کے مدافعوان سے کیا واسطہ۔؟

پاکستان کے یوم دفاع کے دن ارباب اختیار اور مقتدر قوتوں کو یاد کروانا ضروری ہے کہ اس کے داخلی دفاع، رشد، ترقی اور پیش رفت کے دشمنوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو نعرے بلند کئے گئے، انہیں کسی بھی طور فراموش نہ کیا جائے، اگر ان شعار کو بھلا دیا گیا، اگر اس عزم کو فراموش کر دیا گیا اور ملک دشمنوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا تو پھر یہ یوم دفاع منانے کی ضرورت نہیں ہے، پھر افواج پاکستان اور سکیورٹی اداروں میں خدمات سرانجام دینے والے ملک کے بیٹوں کی قربانیوں کی ضرورت نہیں ہے، پھر ملک ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے، جو اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں اور آپ اپنے انجام کا انتظار کریں، ملک کا دفاع کیسے کرنا ہے، اس کا سبق اگر آج ہمیں مل سکتا ہے تو وہ اہل عراق اور اہل شام سے سیکھیں، جنہوں نے نوے نوے ملکوں کے لائے گئے دہشت گردوں سے اپنے ملک کو بچایا، پوری قوم نے حکمت، دانائی، شجاعت، یکجہتی اور اپنی اقدار کیساتھ کھڑے ہو کر ان کا مقابلہ کیا اور انہیں بدترین نقصان پہنچایا اور ان کے ہاتھوں میں جانے والے ملک کے چپے چپے پر اپنے وطن کا پرچم لہرایا۔

ہم بطور مکتب تشیع اس ملک میں اپنے حقوق، جو اس ملک کے بنیان گذار اور بانی نے بارہا اپنی تقاریر میں عوام و خواص پر واضح کئے، ان کے حصول میں آج تک ناکام ہیں۔ ان حقوق سے محروم ہیں، گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی ترین حقوق بھی حاصل نہیں، وہ اڑسٹھ برسوں سے شناخت کے طالب ہیں، ہم اپنی مذہبی آزادی اور حقوق کی بازیابی کیلئے سرگرداں ہیں، مگر تکفیری جو اس ملک و ملت اور سرزمین کے ازلی دشمن ہیں، اس ملک پر روز بروز قابض ہوتے جا رہے ہیں، ان کی کھلے عام سرگرمیاں دفاع پاکستان کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر سوالیہ نشان ہیں، اگر اس ملک کے دفاع کو مضبوط کرنا ہے تو تمام مذہبی اقلیتوں اور مکاتیب فکر کو قائد و علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر اور فرامین کے مطابق زندگی گذارنے کی آزادی دی جائے، ورنہ یوم دفاع تو منائے ہی جاتے رہینگے، شائد اس وقت بھی جب ملک بھی نہ رہا، یہ یوم دفاع منایا ہی جائے، آج اہل کشمیر بھی تو سارے ایام مناتے ہیں، اہل فلسطین بھی تو سارے ایام مناتے ہیں، ہم بھی ایسے ہی (خدانخواستہ) دن مناتے نظر آئینگے، جب تکفیری اسیطرح بے لگام رہینگے اور قائد و اقبال کا پاکستان کہیں گم ہو جائے گا۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 565656
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش