QR CodeQR Code

جمہوریت کی شاہراہ پر بحرین کا تیز سفر

8 Sep 2016 16:30

اسلام ٹائمز: بحرین کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مگرمچھ کے آنسو نہیں چاہئیں۔ بحرین کو امریکہ سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے مستقل اراکین سے کھوکھلے بیانات نہیں چاہئیں, بلکہ انہیں بحرین کے پیدائشی شہری ہونے کی بنیاد پر ان کے ناقابل تنسیخ حقوق چاہئیں۔ باعزت پہلے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی گذارنے کا حق، اپنے ملک کے فیصلوں میں اس کی شرکت کا حق، باعزت روزگار کا حق۔ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے مستقل اراکین ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے بحرین کی حکومت سے یہ مطالبہ کریں گے کہ وہ بحرینی شہریوں کے شہری، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی حقوق کی پاسداری کرے۔ ورنہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ہفتم کے تحت اس کو فوجی کارروائی کے ذریعے ہٹا دیا جائے گا۔


تحریر: عرفان علی

خلیج فارس کی جزیرہ نما چھوٹی سی ریاست بحرین کی چھوٹی سی موروثی بادشاہت امریکہ و اسرائیل کے مفاد میں اپنے قد سے بڑے کام کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ آل خلیفہ کی مطلق العنان حکومت شروع سے ہی جمہوریت سے محروم رہی ہے۔ یعنی اس چھوٹی سی بادشاہت نے اس چھوٹی سی ریاست کی بنیادوں میں جمہوریت کو شامل ہی نہیں رکھا یا یوں کہیں کہ اس چھوٹی سی سیٹلائٹ ریاست کو دنیا کے نقشے پر پیش کرتے وقت برطانوی سامراج نے یہ طے کر رکھا تھا کہ آل خلیفہ ہی یہاں ملکہ برطانیہ کی طرح تاج و تخت کے مالک ہوں۔ بعد ازاں امریکی سامراج کو اپنے بحری بیڑے کے لئے آل خلیفہ کی چھوٹی سی بادشاہت میں ایک وفادار اتحادی نظر آیا۔ یوں امریکہ و برطانیہ کے سامراجی مفادات کے تحت جمہوریت بحرین کے لئے ایک شجر ممنوعہ قرار پائی۔ بحرین کے غیرت مند عوام پر مشتمل اکثریت کے مزاج میں سامراج سے نفرت تھی اور انہیں اپنے فیصلوں میں من حیث القوم آزادی و خود مختاری چاہئے تھی، اسی لئے وہ ایک پرامن جمہوری تحریک پر متفق ہوئی۔ پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو بحرین ایک ضلع سطح کی بادشاہت ہے اور پس پردہ اس کی ڈوری ہلانے والے امریکی و برطانوی حکمران ہیں۔ بحرین کے عوام کی وجہ سے وہ مجبور ہوئے کہ ایک نمائشی اور کھوکھلی پارلیمنٹ قائم کی جائے، تاکہ پرامن جمہوری تحریک کسی متشدد عوامی انقلاب میں تبدیل نہ ہوجائے۔

ایک طویل مدت تک اس کھوکھلی و نمائشی پارلیمنٹ میں رہنے کے بعد بحرین کے جمہوریت پسند اس نتیجے پر پہنچے کہ بادشاہی آئین کے ہوتے ہوئے ان کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ کی نہیں، لہٰذا بحرین میں سیاسی و جمہوری اصلاحات کے لئے اس کے آئین میں تبدیلی کی جائے اور ملک کو عوامی نمائندوں کے ذریعے چلایا جائے۔ فروری 2011ء میں جب وہ اپنی جمہوری تحریک کے ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے اور پرل اسکوائر کو انہوں نے مصر کے تحریر اسکوائر کی طرح پرامن عوامی انقلاب کا مرکز بنا دیا تو بحرین کی بادشاہت صغریٰ نے تکبر کبریٰ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بذریعہ طاقت کچلا اور سعودی عرب کی بڑی بادشاہت اور دیگر شیوخ نے اپنے فوجی ٹینک بحرین بھیجے، تاکہ عوامی جدوجہد کو کچلا جاسکے۔ یہاں پرامن جمہوری تحریک کا مقابلہ مہلک ہتھیاروں سے کیا گیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ بحرین کی غیر نمائندہ امریکی و برطانوی پٹھو بادشاہت صغریٰ نے نہتے شہریوں پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگاکر انہیں قید کر دیا، ان پر غیر انسانی تشدد کیا۔ لیکن اس نئے مرحلے سے بہت پہلے آل خلیفہ کی بادشاہت صغریٰ نے بحرین کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے دنیا بھر سے لوگوں کو جمع کرکے انہیں اہم اور حساس اداروں میں نوکریاں بھی دیں اور بحرین کی شہریت بھی دے دی۔

لیکن جمہوری اسلامی تحریک کے قائدین اور حامیوں کو جو کہ فرزند زمین ہیں، ان کو ان کے پیدائشی حق یعنی بحرینی شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آیت اللہ العظمٰی شیخ عیسٰی قاسم بحرین کی غیرت و حمیت کی علامت ایک بزرگ عالم دین ہیں، وہ ایک مرجع تقلید کی سطح کے عالم ہیں، لیکن آل خلیفہ کی بدمست حکومت نے ان کے گھر پر بھی حملے کروائے اور ان کی شہریت بھی منسوخ کر دی۔ بحرین کی جمہوری اسلامی تحریک کی علامت الوفاق نامی سیاسی پلیٹ فارم پر پابندی لگا دی اور اس کے سربراہ جناب شیخ علی سلمان کو بھی بلاجواز قیدی بنا دیا گیا ہے۔ ان گنت علمائے دین اور ان کے ہزاروں حامی جیلوں میں قید کر دیئے گئے ہیں اور ان پر غیر انسانی تشدد کیا جا رہا ہے۔ سوائے ایران یا کسی حد تک عراق و شام کی حکومتوں کے کوئی حکمران بحرین کے مظلوم و مستضعف عوام کی حمایت میں صدائے احتجاج بلند نہیں کر رہا۔ دنیا کے جمہوریت اور اسلام پسند حلقوں نے بحرین کے معاملے میں خاموشی اختیار کر لی ہے۔ کبھی کبھار امریکہ یا برطانیہ کی کسی حقوق انسانی کی تنظیم کو یاد آجاتا ہے تو سیکولر افراد کی حمایت میں کوئی بیان آجاتا ہے۔

بحرین کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مگرمچھ کے آنسو نہیں چاہئیں۔ بحرین کو امریکہ سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے مستقل اراکین سے کھوکھلے بیانات نہیں چاہئیں, بلکہ انہیں بحرین کے پیدائشی شہری ہونے کی بنیاد پر ان کے ناقابل تنسیخ حقوق چاہئیں۔ باعزت پہلے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی گذارنے کا حق، اپنے ملک کے فیصلوں میں اس کی شرکت کا حق، باعزت روزگار کا حق۔ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے مستقل اراکین ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے بحرین کی حکومت سے یہ مطالبہ کریں گے کہ وہ بحرینی شہریوں کے شہری، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی حقوق کی پاسداری کرے۔ ورنہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ہفتم کے تحت اس کو فوجی کارروائی کے ذریعے ہٹا دیا جائے گا۔ لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے مستقل اراکین خود جمہوریت سے کہاں مخلص ہیں؟ بحرین میں امریکہ کی اتحادی بادشاہت صغریٰ سیاسی مخالفین سے انتقام لے رہی ہے۔ ان پر کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ لیکن امریکہ و یورپی ممالک آل خلیفہ کو مہلک اسلحہ بیچ رہے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ نے بحرین کے لئے 50 لاکھ امریکی ڈالر مالیت کی فوجی امداد کی سفارش کی ہے اور امریکی کانگریس میں بحرین کو اسلحے کی فروخت پر کچھ پابندیوں سے متعلق بل کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

بحرین کی انسانیت دشمن بادشاہت صغریٰ نے اپنے فرعونی چہرے کو چھپانے کے لئے اور اسے امریکی عوام کے سامنے اچھا بنانے کے لئے تعلقات عامہ کی امریکی کمپنیوں کو سال 2015ء میں 8 لاکھ 55 ہزار امریکی ڈالر ادا کرکے اپنے حق میں یہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس رقم کی ادائیگی سے بحرین کی آل خلیفہ حکومت نے امریکی وزارت خارجہ کی دہشت گردی سے متعلق سالانہ رپورٹ میں پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے سیاسی مخالفین کو جو بحرین کے جدی پشتی شہری ہیں، انہیں ایران کا تربیت یافتہ دہشت گرد بنوا ڈالا۔ معلوم ہوا کہ پیسہ بولتا ہے! امریکی حکمران شخصیات نے تعلقات عامہ کی کمپنیوں کے ذریعے بحرین کے شیوخ سے نہ معلوم کتنا حصہ وصول کیا کہ انہوں نے بحرین کی قومی مفاہمت نہ ہونے کا ذمے دار بھی پر حزب اختلاف کی پرامن سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو قرار دے دیا۔

امریکہ کا دوغلا پن یہ ہے کہ ایک جانب کہتا ہے کہ الوفاق کو تحلیل کرنا غلط عمل ہے اور دوسری جانب الوفاق پر الزام عائد کرتا ہے کہ انہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کرکے قومی مفاہمت کے عمل کو ناکام کیا۔ حالانکہ الوفاق اور اس کی دیگر اتحادی جماعتوں نے واضح کر دیا تھا کہ ایک بے اختیار پارلیمنٹ کے بے اختیار اراکین بننے سے آل خلیفہ کی آمر و مطلق العنان بادشاہت صغریٰ خود کو جمہوریت اور اصلاحات کا چیمپیئن ظاہر کرتی اور اس طرح دنیا کی نظر میں اچھی بن جاتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بحرین کی پارلیمنٹ میں آل خلیفہ اپنے من پسندوں کو لے کر آتے ہیں، الیکشن میں انہیں جتواتے ہیں اور بحرین کے شیعہ و سنی عوام کے حقیقی نمائندوں کے راستے بلاک کر دیئے جاتے ہیں۔ آل خلیفہ پر تنقید کی، ان کی پالیسی سے اختلاف کی بحرین میں نہ صرف یہ کہ اجازت ہی نہیں بلکہ سیاسی مخالفین اور نقادوں کے لئے سزائیں مقرر ہیں۔ کسی بھی سیاسی مخالف کو ایران کے کھاتے میں ڈال کر امریکہ کو خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے آج کے بحرین کی تازہ ترین صورتحال۔

لیکن یہ صورتحال زیادہ عرصہ نہیں رہے گی۔ بحرین کی مظلوم و مستضعف ملت نے پرامن اسلامی جمہوری تحریک کو جاری رکھنے کی ٹھان رکھی ہے۔ قبل اس کے کہ وہ اپنے دفاع میں اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہوجائیں، انہیں ان کا جمہوری حق آئینی اصلاحات کے ذریعے دے دیا جائے، ورنہ پھر عوام کے اوقیانوس میں بحرین کی آل خلیفہ حکومت ڈوبی تو پھر اس کا ساتھ دینے والے ممالک کے لئے بھی بحرین کہیں نو گو ایریا نہ بن جائے۔ بحرین میں کامیابی کی ضمانت مثلث وجود میں آرہی ہے۔ ملت، ملت کا رہبر و قائد اور اسلام۔ اس مثلث نے ایران میں انقلاب اسلامی برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس مثلث کے ذریعے یمن و لبنان کی مقاومت کو کامیابی حاصل ہوئی ہے اور اب اگر یہ مثلث بحرین میں نمودار ہوئی تو سنت الٰہی یہی ہے کہ صالح مستضعفین کو زمین کا وارث قرار دے۔ جو قومیں اپنی حالت بدلنے کی عملی جدوجہد کرتی ہیں، خدائے مستضعفین ان کی حالت بدل دیتا ہے۔ شیخ عیسٰی قاسم اور علی سلمان کی صورت میں یہاں حضرت صعصعہ بن صوحانؓ کے فکری وارث امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، اس لئے ہم پرامید ہی نہیں بلکہ پر یقین ہیں کہ بحرین اسلامی بیداری کے نتیجے میں ایک غیرت مند آزاد ریاست کے طور پر اپنی منفرد حیثیت حاصل کرلے گا۔


خبر کا کوڈ: 566226

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/566226/جمہوریت-کی-شاہراہ-پر-بحرین-کا-تیز-سفر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org