0
Friday 9 Sep 2016 22:16

امریکہ، انسانی حقوق کا بھیڑ نما بھیڑیا

امریکہ، انسانی حقوق کا بھیڑ نما بھیڑیا
تحریر: ڈاکٹر رضا سیمبر

گذشتہ صدی کا آخر تھا اور اس کا آخری عشرہ تھا، جب سابق سوویت یونین انتشار کا شکار ہوا۔ اس واقعے سے متعلق اہم ترین تاریخی یادگار امریکی حکومت کی مسرت اور خوشحالی تھی۔ امریکی حکام عالمی سطح پر نیو ورلڈ آرڈر کی نوید دلا رہے تھے اور جرج بش سینیئر انتہائی متکبرانہ انداز میں گلوبل ویلج کے مکینوں کو دنیا بھر میں واشنگٹن کی بلا مقابلہ حاکمیت کی خوشخبری سنانے میں مصروف تھا۔ تاریخ کے خاتمے سے متعلق کان بہرے کر دینے والا شور پوری دنیا میں سنائی دے رہا تھا۔ کمیونزم کو سابق سوویت یونین کے مقبرے میں دفن کئے جانے کے بعد امریکی حکام کی جانب سے عالمی نظام پر حکمفرما واحد مکتب فکر کے طور پر "لبرل ڈیموکریسی" کی ترویج اور تشہیر کا آغاز ہوگیا۔ عالمی میڈیا میں امریکی پروپیگنڈے کی یہ لہر اس قدر طاقتور تھی کہ گویا خود انہیں بھی اس بات پر یقین ہونے لگا کہ وہ عالمی سیاسی میدان کے واحد کھلاڑی ہیں۔ امریکہ نے دنیا بھر میں امریکی لبرل ڈیموکریسی کے بنیادی اصولوں کے طور پر تین امور پر بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فری مارکیٹ اکانومی۔ 1990ء کی دہائی میں واشنگٹن کی جانب سے عالمی نظام میں ان تین امور پر بہت زیادہ زور دیا گیا، جس کے باعث یہ ایشوز زبان زد عام ہوگئے۔ لیکن ایک طرف عالمی سطح پر امریکی رویہ خاص طور پر 1970ء کی دہائی اور ویت نام میں فوجی مداخلت جو سائگان کی تاریخی شکست پر منتج ہوئی اور دوسری طرف دنیا بھر کے مختلف ممالک میں امریکہ کی غیر معقول مداخلت جیسے آمرانہ اور مرتجع حکومتوں کی حمایت، انقلاب اسلامی ایران کی مخالفت اور عوام کے خلاف صف آراء رضا شاہ پہلوی کی حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکام عالم سطح پر انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعووں میں ہر گز صادق نہیں۔

بین الاقوامی قانون پر بین الاقوامی سیاست کا غلبہ
انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کی ایک واضح مثال بین الاقوامی قانون پر بین الاقوامی سیاست کو ترجیح دینا ہے۔ اگرچہ انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق بین الاقوامی قوانین میں بھی نقص پایا جاتا ہے، لیکن ان کا کلی مقصد بین الاقوامی سیاست کو کنٹرول کرنا اور عالمی طاقتوں کو طاقت کے بیجا استعمال سے روکنا ہے۔ اہم اور طاقتور عالمی طاقتیں خاص طور پر امریکی حکومت بین الاقوامی سطح پر قوانین کی پابندی کرنے کی بجائے اپنی پالیسیوں اور مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کی پالیسیاں ویسٹفال آرڈر پر استوار ہیں، جس کے تحت زیادہ سے زیادہ مفادات کا حصول اور کمرشل مرچینٹلزم مدنظر قرار دیا جاتا ہے۔ لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مختلف بین الاقوامی ایشوز سے متعلق امریکی رویہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور حتی غیر روایتی ہوتا ہے۔ اس کی ایک انتہائی سادہ اور واضح مثال سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے اپنے ہی شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر غیر انسانی اقدامات انجام پائے ہیں، لیکن امریکی حکومت نے ہمیشہ اقتصادی، سیاسی اور سفارتی میدان میں اس کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کی ہے۔ لیکن دوسری طرف امریکہ ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر قانونی رویہ اپناتے ہوئے اس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا آیا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ یمن کے خلاف جنگ میں وحشیانہ اقدامات انجام دینے کے باعث اقوام متحدہ سعودی حکومت کو بچوں کی قاتل رژیم کے طور پر متعارف کرواتی ہے۔ یمن کے خلاف جارحیت کے دوران عام شہریوں، بچوں، خواتین اور بوڑھوں کا سعودی ہوائی حملوں میں قتل عام ایسی حقیقت ہے، جو حتی لائیو عالمی میڈیا پر دکھائی جاتی رہی ہے اور اس سے انکار ہرگز ممکن نہیں۔ ان حقائق نے امریکی حکومت کی جانب سے سعودی رژیم کی غیر مشروط حمایت کے تمام بہانے ختم کر ڈالے ہیں۔ اب انسانی حقوق کے طرفدار امریکی حکام کہاں ہیں؟ وہ دعوے دار کہاں ہیں، جو خود کو انسانی حقوق کی بنیاد پر نیو ورلڈ آرڈر کے بانی اور رہنما قرار دیتے ہیں۔؟ وہ کیوں سعودی حکومت کا مسئلہ انسانی حقوق کونسل میں نہیں اٹھاتے۔؟ کیوں یمن میں عام شہریوں کے قتل عام کو جنگی جرائم کا واضح نمونہ قرار نہیں دیتے۔؟ کیوں اس مسئلے کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں نہیں اٹھاتے؟ کیوں بین الاقوامی قوانین کی رو سے اس بارے میں حمایت کی ذمہ داری کے اصول پر عمل پیرا نہیں ہوتے؟ ان تمام سوالات کا ایک سادہ سا جواب ہے، وہ یہ کہ امریکی حکام کی نظر میں بین الاقوامی قوانین میں انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ وہ انسانی حقوق کے مسئلے کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ البتہ امریکہ کے یہ متضاد رویے عالمی رائے عامہ کی بیداری کا سبب بن رہے ہیں اور دنیا والے اب اس حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں کہ امریکہ کے دعوے جھوٹے ہیں۔ جیسا کہ خود امریکہ کے اندر بھی ایسے روشن خیال افراد، یونیورسٹی پروفیسرز اور میڈیا سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد موجود ہے، جو انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کو جان چکے ہیں۔

البتہ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کی دوغلی پالیسیوں کا دائرہ صرف خارجہ پالیسی تک ہی محدود نہیں بلکہ امریکی حکام نے ملک کے اندر بھی اپنے شہریوں سے ایسا ہی رویہ اپنا رکھا ہے اور امریکی داخلہ سیاست، حکومت اور معاشرے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ انہیں خلاف ورزیوں کی ایک انتہائی واضح مثال امریکی شہریوں کی نجی زندگی میں حکومت کی مداخلت ہے۔ امریکی حکومت دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے امریکی شہریوں کی جاسوسی میں مصروف ہے، جس کے خلاف اب تک کئی بار امریکی شہریوں کی جانب سے شدید احتجاج بھی سامنے آچکا ہے۔ امریکہ کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ایک اور مثال سیاہ فام شہریوں اور مہاجرین سے حکومتی برتاو ہے۔ اس قسم کے برتاو نے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ امتیازی رویے امریکہ تک محدود نہیں بلکہ یورپی ممالک میں بھی مہاجرین اور سیاہ فام افراد سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ایسے غیر انسانی اقدامات کے انتہائی منفی اثرات ظاہر ہوئے ہیں جبکہ دہشت گرد گروہ داعش نے بھی افرادی قوت جمع کرنے کیلئے ان اقدامات سے متاثرہ افراد سے فائدہ اٹھایا ہے۔ آج خود امریکی اور یورپی ماہرین اس حقیقت کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ داعش جیسے دہشت گرد گروہوں میں شامل اکثر مغربی شہری اسی امتیازی سلوک سے تنگ آکر دہشت گردی کی راہ پر چل نکلے ہیں۔

دہشتگردی کیخلاف جنگ کے جھوٹے دعوے
جدید بین الاقوامی نظام میں امریکہ کی جانب سے بھیڑ نما بھیڑیئے کا کردار ادا کرنے کی ایک اور مثال اس کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دعویٰ ہے۔ اس بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ کے پاس دیگر ممالک کے خلاف فوجی مداخلت اور دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی فوجی موجودگی کیلئے کوئی بہانہ باقی نہیں بچا تھا۔ سرد جنگ کے بعد کمیونزم کا وہ بھوت جس کے بہانے سے امریکہ جارحانہ اقدامات انجام دیتا تھا ختم ہوچکا تھا۔ لہذا دنیا کے مختلف مقامات پر موجود امریکی فوجی اڈوں اور امریکہ کی مداخلانہ پالیسیوں پر سوال اٹھنا شروع ہوگئے اور اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لہذا امریکی حکومت نے بین الاقوامی سطح پر اپنی فوجی سرگرمیوں اور جارحانہ اقدامات کی توجیہہ کیلئے نئے بہانے تراشنے شروع کر دیئے۔ ان بہانوں میں سے ایک دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت میں ظاہر ہوا جبکہ دیگر بہانے اسلام فوبیا اور حتی ایران فوبیا کی صورت میں سامنے آئے۔ اس کے بعد نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں نائن الیون حادثات رونما ہوئے، جو افغانستان اور عراق میں امریکی فوجی مداخلت اور امریکہ کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا اہم ترین بہانہ قرار پائے۔ امریکہ کے انہیں اقدامات کے باعث نائن الیون حادثات مشکوک ہوگئے اور بعض محققین نے اسے امریکہ اور اسرائیل کی بگ گیم کا حصہ قرار دینا شروع کر دیا۔

اس بارے میں دوسرا اہم نکتہ جو تاریخی نوعیت کا ہے یہ کہ اگر ماضی میں انجام پائے امریکی اقدامات کا بغور تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ خود امریکہ دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کی پیدائش کا حقیقی سبب ہے۔ جس زمانے میں امریکہ نے افغانستان اور پاکستان میں کمیونزم سے مقابلے کیلئے مجاہدین کے ٹریننگ کیمپس قائم کئے اور انہیں فوجی اور مالی امداد فراہم کرنا شروع کی، اسی وقت سے امریکہ نے کرائے کے قاتلوں کی پرورش کی صورت میں دہشت گردی کے فروغ پر مبنی سیاست کی بنیاد رکھ دی تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا درست ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی پالیسیاں کسی قسم کی قانونی اور اخلاقی بنیادوں سے عاری ہیں۔ امریکہ کبھی بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص نہیں رہا اور اگر کبھی امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شور بھی مچایا ہے تو وہ محض سیاسی مفادات کے حصول، اپنی دشمن حکومتوں کو نقصان پہنچانے، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی حمایت، عالم اسلام کو جغرافیائی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور امریکی مفادات کی تکمیل کیلئے جدید کٹھ پتلی ریاستیں تشکیل دینے کی غرض سے انجام پایا ہے۔ امریکہ انسانی حقوق سے متعلق ایشو کی مانند دہشت گردی کے مسئلے کو بھی ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور جہاں بھی ضرورت پڑتی ہے دہشت گردی کو اپنے مخالفین پر دباو ڈالنے، اپنے اقدامات کا جواز پیش کرنے اور اپنی پالیسیوں کی توجیہہ کیلئے استعمال کرتا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسئلے میں بھی انسانی حقوق کے مسئلے کی مانند امریکہ کا مذاق بن چکا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ ایک طرف تو دہشت گردوں کی حمایت اور مدد کرنے میں مصروف ہے اور دوسری طرف دہشت گردی سے مقابلے کا شور مچا رہا ہے۔ ایک طرف یمن میں خواتین اور بچوں کا قتل عام کرنے والی سعودی رژیم کی غیر مشروط حمایت میں مصروف ہے اور دوسری طرف انسانی حقوق کے دعوے کرتا ہے۔ غزہ میں خون کی ندیاں بہانے والی غاصب صیہونی رژیم کی کھلی حمایت کہاں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے کہاں؟ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے امریکی دعوے سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ انسانی حقوق کے دفاع اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعووں سے متعلق امریکہ کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرنے کیلئے شاید بہترین مثال اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق امریکی رویے اور پالیسیوں کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ واشنگٹن ایک زمانے میں ایران کے شاہ رضا شاہ پہلوی کی بھرپور حمایت میں مصروف تھا جبکہ رضا شاہ پہلوی نے اپنی عوام کو آزادی اور خود مختاری سے محروم کر رکھا تھا اور ان کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال روز کا معمول بن چکا تھا۔

اسی طرح ایران اور عراق کے درمیان 8 سالہ جنگ کے دوران امریکہ نے عراق کے فوجی آمر صدام حسین کی مدد اور حمایت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ صدام حسین جس کے غیر انسانی اور آمرانہ اقدامات پوری دنیا میں معروف ہیں، امریکی حمایت سے برخوردار تھا۔ امریکہ کویت، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ذریعے صدر صدام حسین کی ہر ممکن لاجسٹک، مالی اور فوجی امداد میں مصروف رہا۔ ایران کے خلاف امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک اور واضح مثال امریکی جنگی جہاز وسکانس کی جانب سے خلیج فارس یر پرواز کے دوران ایران کے مسافر طیارے کو نشانہ بنا کر نابود کرنا تھا، جس میں سینکڑوں بیگناہ افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جاں بحق ہوگئے۔ مزید برآں، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے افراد کی تعداد 17 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ ان تمام شہداء کی شہادت میں کسی نہ کسی طرح امریکہ اور اسرائیل ملوث ہے۔ اس دعوے کا ایک ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ امریکہ نے ایران میں دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے والے عناصر کو سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ اگر امریکی سربراہی میں مغرب کے انسانی حقوق کے دعوے صحیح ہیں تو پھر وہ ان دہشت گرد عناصر کی حمایت اور سرپرستی میں کیوں مصروف ہیں۔؟

نتیجہ

امریکی حکومت نے انسانی حقوق کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے ایشوز میں منافقانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ امریکہ نے عالمی سطح پر اپنے جارحانہ اور غیر قانونی اقدامات کا جواز پیش کرنے کیلئے جھوٹے نعروں کا سہارا لے رکھا ہے، جبکہ حقیقت میں اس کیلئے اپنے مفادات کے علاوہ کسی اور چیز کی کوئی اہمیت نہیں۔ ماضی میں امریکی خارجہ پالیسیوں کو مدنظر قرار دینے سے اس حقیقت کو بخوبی جانا جاسکتا ہے کہ عالمی نظام میں امریکہ کا کردار منطق، قانون اور اخلاق سے تہی رہا ہے۔ امریکی پالیسیاں صرف اور صرف اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے حصول اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی غیر مشروط حمایت کے گرد گھومتی ہیں۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکی پالیسیوں میں کوئی صداقت نہیں۔ امریکہ کی نظر میں انسانی حقوق کا مسئلہ ایک ہتھکنڈے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسی طرز تفکر کے باعث امریکی پالیسیاں شدید تضاد اور دوغلے پن کا شکار ہیں جس کے بارے میں عالمی رائے عامہ کی آگاہی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کا نقاب دار چہرہ نہ صرف دنیا کو درپیش انسانی حقوق اور دہشت گردی جیسے مسائل حل کرنے سے عاجز ہے بلکہ روز بروز ان مسائل میں مزید پیچیدگی کا باعث بن رہا ہے۔ یہ امریکی پالیسیاں عالمی سطح پر موجود انسانی حقوق اور دہشت گردی جیسے مسائل کے عاقلانہ، عادلانہ اور اخلاقی راہ حل میں شدید رکاوٹ ثابت ہو رہی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 566374
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش