0
Tuesday 13 Sep 2016 00:35

بلوچستان، پاک ایران تعلقات کا فروغ ناگزیر(2)

بلوچستان، پاک ایران تعلقات کا فروغ ناگزیر(2)
تحریر: عمران خان

را کے ذریعے پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے کی بھارتی سازشیں کوئی ڈھکی چھپی نہیں تاہم ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس ٹھوس شواہد اور ثبوت موجود ہونے کے باوجود ہمارے سابق اور موجودہ حکمران طبقات اپنے ذاتی، تجارتی مقاصد کے تحت بھارت پہ ہمیشہ مہربان رہے۔ باقی پارٹیوں کی نسبت موجودہ حکمران جماعت کا ٹریک اس حوالے سے بہت ہی برا ہے۔ میاں صاحب کے سابق دور حکومت میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی کو لاہور بلوا کر ان کے ساتھ کشمیر کے معاملہ پر مفاہمت کی گئی، جبکہ وہ آج بھی یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر اس وقت ان کی حکومت قائم رہتی تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ ان کی اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو بھارت کشمیر پر گزشتہ 66 سال سے تسلط جمائے ہوئے ہے اور آج وہ آزاد کشمیر کو بھی اپنا اٹوٹ انگ بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے جبکہ اس نے مذاکرات کی میز پر کبھی تنازعہ کشمیر کی بات سننا بھی گوارا نہیں کی۔ اس نے میاں نوازشریف کے ساتھ سابقہ دور حکومت میں انکے ساتھ کیا معاملہ طے کیا ہوگا۔

مسئلہ کشمیر پر بھارتی رویے اور کھلم کھلا دشمنی پر مبنی اسکی پالیسیوں کے باوجود میاں نوازشریف نے مئی 2013 کے انتخابات میں منتخب ہوتے ہی اپنی پہلی خواہش بغیر کسی دعوت کے بھی بھارت جانے کی کی اور پھر اقتدار میں آکر بھارت کیلئے نرم گوشہ رکھنے اور اسے یکطرفہ تجارتی سہولتیں فراہم کرنے کی پالیسی اپنائی، جس کا جواب سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی جانب سے کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھا کر دیا گیا، جبکہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد نریندر مودی کی بھارتی سرکار نے اس کشیدگی کو انتہا تک پہنچایا اور کشمیر پر پاکستان کا کیس کمزور کرنے کیلئے کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں شروع کر دیں، جو کہ ہنوز جاری ہیں۔ نواز شریف کی سالگرہ کے دن مودی نے پاکستان کا غیر سرکاری دورہ کرکے نہ صرف انہیں مبارکباد دی، بلکہ دونوں سربراہان مملکت کے درمیان ذاتی حیثیت میں بیش قیمت تحائف کا تبادلہ ہوتا رہا، البتہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ قومی مفادات کے تحت افہام و تفہیم کی فضا نہ بن سکی۔ موجودہ حکمرانوں کا صرف بھارت کے ساتھ پیار و محبت کی پینگیں بڑھانے کے حوالے سے ہی ریکارڈ بے مثال نہیں بلکہ بلوچستان میں را کی کارستانیوں یا افغانستان اور بھارت کی مشترکہ سازشوں کے خلاف پاکستان کے اہم ترین اور فطری حلیف ایران کو بھی پاکستان سے دور کرنے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔

بھارت اور اسرائیل کے مابین قربتیں بڑھنے اور خاص طور پر پاک افغان بلوچستان کی پٹی میں بھارتی ’’را‘‘ اور اسرائیلی ’’موساد ‘‘کی بڑھتی سرگرمیوں نے پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات بالخصوص انٹیلی جنس شیئرنگ کی اہمیت میں بہت اضافہ کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مشترکہ خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے مشترکہ دشمن کی اصطلاح کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آتے مگر حالیہ دور حکومت میں دوستی کی شاہراہ پرآگے بڑھنے کے بجائے دونوں مزید پیچھے چلے گئے۔ حالانکہ گزشتہ دور حکومت میں صدر آصف علی زرداری نے پاکستان ایران افغانستان کے درمیان تعلقات کے نئے دور کی بنیاد رکھنے کی بڑی کامیاب کوشش کی تھی، مگر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی امریکی و سعودی خواہشات قومی مفاد پر مقدم ٹھہریں اور نہ صرف ایران ،افغانستان کے ساتھ فاصلے طول پکڑنے لگے بلکہ پاکستان کی لائف لائن سمجھا جانے والا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی نظر انداز کیا جانے لگا۔

بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ایک سابق افسر کے مطابق ’’را‘‘ نے 1983 سے لیکر 1993 تک پاکستان کے اندر 35000 ایجنٹ داخل کئے جو را کے مکمل طور پر تربیت یافتہ تھے۔ انکا مقصد پاکستان میں مختلف کارروائیاں کرنا تھا۔ ان میں سے 12 ہزار سندھ، 10 ہزار پنجاب، 8 ہزار خیبر پختونخوا اور 5 ہزار بلوچستان میں کام کرتے رہے۔ ضرورت کیمطابق یہ تعداد مختلف مقامات پر گھٹائی بڑھائی جاتی تھی۔ ان لوگوں کی تربیت کیلئے را نے راجستھان اور مشرقی پنجاب میں 40 تربیتی سنٹرز قائم کئے تھے۔ ’’را‘‘ نے افغانستان جنگ سے بھی بہت فائدہ اٹھایا۔ افغان جنگ کے دوران خاد اور را کے درمیان اسی طرح طویل المدت شراکت داری کی ابتدا ہوئی، جس طرح پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہوئی تھی۔ پاک بھارت دشمنی تو اول دن سے واضح تھی مگرنائن الیون کے بعد پورے خطے کے حالات میں تبدیلی کے دوران بیرونی دنیا کی ایجنسیوں کو بھی خطے میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ اسی دوران بھارت اسرائیل تعلقات میں بہتری آئی اور ’’را‘‘ ، ’’موساد‘‘ نے کشمیر میں مشترکہ آپریشنز کا آغاز کیا۔ اسرائیلی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے بعد کشمیر کے حالات میں تو تبدیلی آئی سو آئی، مگر بھارتی تعاون سے افغانستان میں بھی موساد کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ وہ پاکستانی بلوچستان میں مداخلت کے زریعے پاکستان کو ڈسٹرب رکھے جبکہ موساد کے عین یہی عزائم ایران سے متعلق تھے۔ ایرانی بلوچستان میں انتشار پھیلانے کیلئے جنداللہ تو پاکستانی بلوچستان میں بلوچ گروہوں سمیت مذہب کے نام پر کالعدم جتھے بنے۔ جنہوں نے دہشتگردانہ کارروائیوں سے نہ صرف قتل و غارت کا بازار گرم کیا بلکہ پاکستان اور ایران میں فاصلے بڑھانے کیلئے فرقہ ورانہ دہشتگردی کو بھی فروغ دیا۔ جس کے دوران اہل تشیع کی نسل کشی اور زائرین کے قافلوں پر بھی سفاکانہ حملے ہوئے، جن میں سینکڑوں بے گناہ نشانہ بنے۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں موساد اور را کی مداخلت ایران اور پاکستان کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ اور تعلقات میں اضافے کی ضرورت ثابت ہوئی۔

پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کے خلاف انڈیا اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ پاکستان اور ایران کے درمیان حکومتی، دفاعی، انٹیلی جنس قربت کا باعث ہونا چاہیئے تھا مگر تعصب کی پروردہ پالیسی اور حکمرانوں کے امریکہ، بھارت، سعودی عرب سے وابستہ مفادات نے دونوں ممالک کو قریب نہیں ہونے دیا۔ حال ہی میں پرنٹ میڈیا کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موساد کے ایجنٹ سی آئی اے کا نام استعمال کرکے پاکستانی بلوچستان میں سرگرم ہیں اور جنداللہ کیلئے بھرتی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلکی تعصب کو ابھار کر ایران اور اہل تشیع کے خلاف افرادی قوت باآسانی میسر آتی ہے، جسے مذہب یا آزادی کے نام پر باآسانی دہشت گردی پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ درج بالا نکات کی روشنی میں چاہیئے تو یہ تھا کہ وطن عزیز میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص ایران دوست پالیسی روا رکھی جاتی، اور دونوں ممالک کے درمیان اعتماد بڑھانے والے اقدامات پر غور کیا جاتا، ایسے داخلی، انتظامی اور سکیورٹی افسران کی تعیناتی عمل میں لائی جاتی جو دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی میں اضافے کا باعث بنتے، مگر عملی طور پر اس کے برعکس پالیسی اپنائی گئی، اور نتیجے میں آج سب سے زیادہ بلوچستان میں ان افراد کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ایران کی جانب سفر کررہے ہوں۔ بھارتی یوم آزادی پر جب نریندر مودی نے بلوچستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور بلوچ علیحدگی پسند لیڈروں نے اس بیان کی حمایت کا اعلان کیا تو آسان لفظوں میں پاکستان کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ بلوچستان میں انڈین اسرائیلی لابی کس قدر مضبو ط ہے اور آزادی کشمیر کی حمایت کے جواب میں کہاں کہاں مداخلت کی جاسکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مقتدر قوتیں اپنے فطری دوست ایران کے ساتھ انٹیلی جنس، دفاعی، تجارتی معاشی اور خاص طور پر دونوں اطراف کے بلوچستان میں تعمیر و ترقی کے فروغ میں دو طرفہ تعاون کو بڑھائیں، تاکہ ہنود و یہود کے مذموم ایجنڈے کو ناکام بنایا جاسکے۔ ایران کے ساتھ طویل المدت منصوبوں اور معاہدات کو عملی جامہ پہنا کر مشترکہ سکیورٹی سسٹم کو زیر غور لایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے معاملے پر پاکستان اور ایران ایک طرف اور بھارت و اسرائیل مخالف سمت میں موجود ہیں، اس میں کوئی دورائے نہیں ہونی چاہیئے۔ وطن عزیز کی تقدیر کے فیصلے کرنے والوں کو اب آنکھوں سے تعصب و مفادات کی پٹی اتار کر عوام دوستی اور حب الوطنی کو مقدم رکھنا چاہیئے۔ افغانستان نے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی بند کرکے تمام منصوبوں کو مشکوک کردیا ہے، چنانچہ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے تمام تر معاہدے کو عملی جامہ پہنائے مگر اس کے لیے افغانستان کے بجائے ایران کو بطور راہداری استعمال کرے۔ ایران پہلے ہی وسطی ایشیائی ریاستوں سے پائپ لائنوں اور سڑکوں کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ترکمانستان سے گیس، کرغزستان سے بجلی لانی ہی ہے تو افغانستان سے ایران زیادہ محفوظ اور آزمودہ دوست اور دنیا میں اثرورسوخ رکھنے والا ایک برادر صاحب توقیر ملک ہے۔

پاکستان خطے سے باہر چاہے جتنی بھی دوستیاں بنالے مگر خطے کے ممالک سے الگ تھلگ رہ کر یا ڈیڑھ اینٹ کی سعودی مسجد کے سہارے ترقی کی شاہراہ پر سفر نہیں کرسکتا، چنانچہ خطے میں امریکی و بھارتی دباؤ اور تسلط سے آزاد رہنے کیلئے ضروری ہے کہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے، سی پیک کے ذریعے چین سے جڑنا انتہائی خوش آئند ہے مگر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل سے بھی وطن عزیز بالخصوص بلوچستان پر نمایاں اثرات مرتب کئے جاسکتے ہیں۔ ایران کے ساتھ زمینی تجارت کو فروغ دیکر نہ صرف بلوچستان کی شاہراوں کو محفوظ اور ہرموسم میں سازگار بنایا جاسکتا ہے بلکہ ایران کے راستے ترکی تک ٹرین منصوبے پر عملدرآمد پاکستان کی ترقی و اثرورسوخ میں نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔تاہم عملی جامہ پہنانے کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ فیصلہ ساز قوتیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر تعصب کی عینک اتار کے فقط ملک و قوم کی بھلائی و ترجیحات کو مقدم رکھ کے فیصلے کریں تو کوئی شک نہیں کہ اقوام عالم میں ایک ممتا ز مقام ہمارا بھی ہو۔
(تمام شد)
خبر کا کوڈ : 566776
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش