0
Monday 12 Sep 2016 18:13

شام کے محاذ پر امریکہ کی شکست

شام کے محاذ پر امریکہ کی شکست
تحریر: تصور حسین شہزاد

شامی حکومت کی ثابت قدمی نے شیطان وقت کو جھکنے پر مجبور کر ہی دیا اور آخر کار وہی ہوا جس کی ہمیں توقع تھی کہ امریکہ شکست خوردہ ہو کر بشار الاسد کے پاؤں پکڑ لے گا۔ شام کے معاملے پر امریکہ اور روس کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کی شامی حکومت نے بھی توثیق کر دی ہے۔ امریکہ اور روس کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا ہے کہ داعش کیخلاف امریکہ اور روس مل کر کارروائیاں کریں گے۔ اس حوالے سے ایک مشترکہ کنٹرول روم بھی قائم کیا جائے گا۔ معاہدے پر عملدرآمد آج (12 ستمبر) کی شام سے شروع ہوگا۔ جنیوا میں معاہدہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاروف کے درمیان ایک روزہ بات چیت کے بعد طے پایا۔ معاہدے کے مطابق شامی حکومت باغیوں کیخلاف کارروائی نہیں کرے گی، امریکہ اور روس مل کر ایک مرکز قائم کریں گے، جو شدت پسند تنظیم داعش اور النصرہ کیخلاف کارروائی کیلئے استعمال ہوگا۔

کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کیلئے امریکہ اور روس کے درمیان ہونیوالا یہ معاہدہ شام کی حکومت کی ثابت قدمی کی بدولت اس کی شاندار کامیابی ہے۔ اس معاہدے سے شام میں مزید خانہ جنگی کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ شامی حکومت کے ایک وزیر کے مطابق یہ شام کی فتح ہے، کیونکہ اس معاہدے سے خطے میں امن قائم ہوگا اور امریکہ کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ بھی نہیں کرے گا۔ اس سے قبل امریکہ کی جانب سے کیمیائی حملے میں ایک ہزار سے زائد شامی شہری شہید ہوگئے تھے، جن میں کمسن بچے بھی شامل تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے کی نوید سنانے والے دونوں ملک جو اس وقت "نفرت اور محبت" کے کلیئے پر عمل پیرا ایک دوسرے کیساتھ متحارب فریقین کی پوزیشن بھی تبدیل کرنے کو تیار نہیں، کہ دونوں کے معاشی و سیاسی مفادات ہیں۔ شام کیساتھ طے پانیوالا معاہدہ دونوں ملکوں نے شامی صدر بشار الاسد کی استقامت سے شکست کھا کر کیا ہے۔ یہ معاہدہ اعتماد کی فضا میں نہیں کیا گیا بلکہ مجبوری میں کیا گیا ہے اور ممکن ہے امریکہ اس کی خلاف ورزی بھی کر دے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں امریکہ گھیرے میں آچکا تھا اور اس کے پاس شام سے معاہدہ کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں بچا تھا۔

شام کے محاذ پر امریکہ کی اپنی پالیسی ہی اسے جھکنے پر مجبور کر گئی۔ اب یہ معاہدہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے، آنیوالے وقت ہی بتائے گا۔ کیونکہ اس سے قبل فروری میں ہونیوالا معاہدہ پہلے ہی ناکام ہوچکا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ روس شامی صدر بشار الاسد کا حامی اور پشتبان ہے، جبکہ امریکہ بشار الاسد حکومت کو ہٹانے کیلئے سرگرم "فری سیرین آرمی" کے دہشتگردوں کو باقاعدہ مالی و حربی امداد فراہم کرتا چلا آیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امریکہ کے تعاون سے لڑنے والے یہ نام نہاد حریت پسند اپنے مفادات کیلئے ان دہشتگرد گروہوں کیساتھ بھی مائل بہ تعاون رہے ہیں، جن کیخلاف انکل سام ادھار کھائے بیٹھا، انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے اعلان کرتا رہا اور ابھی نائن الیون کی 15ویں برسی کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما نے ایک پر پھر شدت پسند گروہوں کیخلاف عزم نوء کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد امریکہ کو خوفزدہ نہیں کرسکتے۔ ان کا ہر جگہ اور ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔ دوسری جانب یہی امریکہ دہشتگردوں کی مالی مدد بھی کر رہا ہے۔

ادھر شام میں جنگ بندی کیلئے امریکہ اور روس کی جانب سے معاہدے کے اعلان کے بعد باغیوں کے زیرقبضہ علاقوں میں فضائی حملے کئے گئے ہیں، جن میں کم سے کم 100 افراد ہلاک ہوگئے۔ ان حملوں سے ہی روس اور امریکہ معاہدے کی افادیت اور اس کے قابل عمل ہونے کے بارے میں پائی جانیوالے تشویش درست معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ جب تک لڑنے والے مرغے ہی جنگ سے عاجز آ کر میدان چھوڑنے کو تیار نہیں، انہیں لڑانے والے آپس میں جتنے مرضی معانقے کر لیں، بغلوں میں چھپے خنجروں کی تیز دھار اپنا کام دکھاتی رہے گی۔ دوسری جانب شام میں بدامنی کے بیج بونیوالے سعودی عرب کو معاہدے سے دور رکھ کر اس کی حیثیت پر سوالیہ نشان خطے کے امن پر سرخ نشان سے لہو کا رنگ جماتا رہے گا۔ جب تک شام میں مداخلت کرنیوالے سعودی عرب کو اس کا حصہ نہیں بنایا جاتا، اس کے دور رس نتائج نہیں مل سکتے۔
خبر کا کوڈ : 566922
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش