0
Monday 12 Sep 2016 22:34

فرینڈشپ 2016ء فوجی مشقیں، پاک روس دفاعی تعاون کا نیا باب

فرینڈشپ 2016ء فوجی مشقیں، پاک روس دفاعی تعاون کا نیا باب
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پاکستان اور روس اسی سال پہلی مشترکہ فوجی مشقیں کرنے والے ہیں، جبکہ پاکستان جدید ترین روسی جنگی جہاز ایس یو 35 خریدنے پر بھی غور کر رہا ہے۔ اسی طرح پاکستانی فوج ٹینک شکن ہتھیاروں اور ایئر ڈیفنس نظام کے حصول کی خواہاں بھی ہے، تاہم یہ بات چیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، ذرائع کے مطابق گذشتہ 15 ماہ کے دوران آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے سربراہوں نے ماسکو کے دورے کئے ہیں۔ جیسا کہ ماسکو میں پاکستانی سفیر قاضی خلیل اللہ کا کہنا ہے کہ ایئر چیف سہیل امان نے حال ہی میں روسی حکام سے ثمرآور مذاکرات کئے ہیں۔ اس پیشرفت سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ایشیا نئی تزویراتی صف بندی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ دوسری طرف اسلام آباد کے سفارتی ذرائع اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فوجی مشقیں فوج سے فوج کی سطح پر بڑھتا ہوا تعاون دونوں ممالک کے مسلسل فروغ پاتے باہمی تعلقات کی جانب ایک اور قدم ہے۔ ایک سینیئر فوجی عہدیدار کے مطابق دونوں ممالک کی جانب سے 400 اہلکار ان مشقوں میں حصہ لیں گے جو کہ رواں برس کے آخر میں ہوں گی۔ ماسکو کے لئے پاکستانی سفیر قاضی خلیل اللہ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک کے فوجی اہلکار مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں، ان مشقوں کو فرینڈشپ 2016ء کا نام دیا گیا ہے۔ انھوں نے ان مشقوں کی تفصیلات، مقام، نوعیت یا تاریخ کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔ خلیل اللہ کے مطابق اس پیشرفت سے دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تعاون کی عکاسی ہوتی ہے۔

روسی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے قاضی خلیل اللہ نے کہا ہے کہ ان (مشقوں) سے واضح طور پر فریقین کی جانب سے اپنے دفاعی، فوجی اور تکنیکی تعاون کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ مشقوں کے اعلان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام آباد نے اس وقت اپنی خارجہ پالیسی کے آپشنز کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے، جب سے امریکہ سے اس کے تعلقات خراب ہوئے۔ تعلقات میں خرابی کی پہلی وجہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کیلئے ایبٹ آباد میں خفیہ چھاپہ تھا جبکہ دوسری وجہ افغان سرحد کے ساتھ پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملہ تھا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن نے امریکہ اور نیٹو کے اقدام سے پاکستان پر آنے والے مضمرات کا جائزہ لے کر خارجہ پالیسی کیلئے نئے رہنما خطوط دیئے تھے، جن کے تحت روس سے رابطے استوار کئے گئے تھے۔ حال ہی میں ہونے والی سفیروں کی کانفرنس کی سفارشات کی بنیاد پر بھی پاکستانی وزارت خارجہ نے روس سے روابط بڑھائے ہیں۔ ان سفارشات کو اس امر سے بھی تقویت حاصل ہوئی کہ ایک اہم حالیہ پیشرفت میں امریکی قانون سازوں نے لاک ہیڈ مارٹن کو پاکستان کو 8 ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کیلئے فنڈز دینے سے روک دیا، حالانکہ ایک ڈیل کے تحت اس کی خریداری کیلئے جزوی ادائیگی امریکی انتظامیہ کو کرنا تھی لیکن امریکی قانون سازوں نے پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر عکسریت پسندوں کے خلاف کارروائی نہ کئے جانے پر اس ڈیل کو روکا۔

پاکستان نے اس وقت سے اردن اور ترکی سمیت مختلف ممالک سے طیارے خریدنے کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ ترکی نے تو پاکستان کے موجودہ جنگی طیاروں کے بیڑے کو جدید بنانے کی پیشکش بھی کی ہے۔ گذشتہ 15 ماہ کے دوران بری، فضائی اور بحریہ کے سربراہان نے روس کے دوے کئے ہیں، جس سے دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات کا اشارہ ملتا ہے۔ اعلٰی سطح کے وفود کے ان تبادلوں کا نتیجہ پاکستان کی جانب سے روس سے ایم آٗئی35 ہیلی کاپٹروں کی خریداری کے معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔ وہ رسمی معاہدہ جو اگست 2015ء کو ماسکو میں ہوا، وہ پالیسی شفٹ تصور کیا جا سکتا ہے اور یہ امریکہ بھارت بڑھتی ہوئی تزویراتی پارٹنرشپ کے جواب میں ہوا۔ ماسکو مدت دراز سے نئی دہلی سے طویل المدتی تعلقات کے تناظر میں اس کی ناراضگی سے بچنے کیلئے پاکستان کو نظر انداز کر تا رہا ہے، لیکن چونکہ بھارت کا جھکاؤ تیزی سے امریکہ کی جانب بڑھ رہا ہے، اس لئے روس نے پاکستان کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔ اسلام آباد اپنی جانب سے ماسکو کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے اور اپنے آپشنز میں تنوع لانے کے لئے پرجوش ہے۔ ایم آئی35 ہیلی کاپٹروں کے سودے کے بعد پاکستان اب روسی جنگی طیارے ایس یو35 خریدنے کیلیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کیلیے ایئر چیف سہیل امان نے جولائی میں ماسکو کا دورہ کیا تھا۔

پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ پی اے ایف چیف نے روسی حکام کے ساتھ ثمرآور مذاکرات کئے ہیں، لیکن انہوں نے فوجی خریداری کے حوالے سے مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ دیگر دفاعی عہدیداروں کے حوالے سے روسی خبر رساں ادارے نے بتایا کہ پاکستان ان ہتھیاروں کی خریداری کیلیے ابھی تک بات چیت کے ابتدائی مراحل میں ہے اور یہ پاکستانی فوج ٹینک شکن ہتھیاروں اور ایئر ڈیفنس نظام کے حصول کی خواہاں بھی ہے۔ جنوبی ایشیا، مشرق وسطٰی کی بدلتی صورتحال، ترک امریکہ تعلقات میں بگاڑ اور بھارت کیساتھ امریکی معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کے لئے خارجہ اور دفاعی پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو اندرونی طور پر بھی شدید چیلنجیز کا سامنا ہے۔ اسی لئے پاک فضائیہ نے عید الاضحٰی کے بعد ملکی سطح پر جنگی مشقوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مقصد پاک فضائیہ کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانا ہے۔ ان مشقوں کا مقصد کسی بھی اندرونی اور بیرونی چیلنج سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی تیاری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مشقوں کے دوران پاک فضائیہ کے تمام سامان حرب کو حرکت میں لایا جائے گا، جبکہ تمام اسکوارڈن اور ریڈار سسٹم بھی متحرک ہوں گے، تمام فضائی اڈوں میں مصنوعی جنگی صورتحال پیدا کرکے افسران اور اہلکاروں کی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جائے گا، اس کے علاوہ جنگی طیاروں کو مختلف اہداف بھی دیئے جائیں گے۔

واضح رہے کہ پاک فضائیہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب میں بھی انتہائی فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ ایسے میں مسلسل اور جدید ہتھیاروں کی سپلائی جہاں ان کاروائیوں کو زیادہ موثر بنا سکتی ہے، وہاں امریکی رجیم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو دھوکہ دیا ہے۔ روس اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون بھی خطے میں صورتحال کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ایسے حالات میں چین اور روس کی مشترکہ بحری مشقوں کا آغاز بحیرہ جنوبی چین میں ہوگیا، جو آئندہ 8 روز تک جاری رہیں گی، جبکہ بھارت کو چین کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت پر سخت تشویش ہے۔ اسی طرح امریکہ اور چین کے جہاز آئے روز ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چین اور روس کی مشترکہ بحری مشقیں خطے کی دو بڑی طاقتوں کی افواج کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی مظہر ہیں۔ پاکستانی سی پورٹ گوادر بھی خطے میں چینی اثر و رسوخ میں اضافے کیساتھ ساتھ بھارت اور امریکہ کے لئے متنبہ کر دینے والا پیغام ہے، پاکستان روس اور چین کی قربت سے اپنے مفادات کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی طرح ہمارے فیصلے امریکی امداد کی نظر نہ ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 566941
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش