0
Thursday 15 Sep 2016 13:55

حج پر بندشیں

حج پر بندشیں
تحریر: ثاقب اکبر

قرآن کریم میں بڑی صراحت سے مسجد حرام کا راستہ روکنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ کس قارئ قرآن کو قرآن حکیم کی یہ آیات یاد نہیں:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَ الْبَادِ وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَاد بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ O وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْءًا وَّ طَھِّرْبَیْتِیَ لِلطَّآءِفِیْنَ وَ الْقَآءِمِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِO وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ O(الحج:۲۵تا۲۷)
جو لوگ کافر ہیں اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے اور مسجد محترم سے جسے ہم نے لوگوں کے لئے یکساں (عبادت گاہ) بنایا ہے روکتے ہیں، خواہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو اس میں شرارت سے کج روی (وکفر) کرنا چاہے، اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے (اور ایک وقت تھا) جب ہم نے ابراہیم کے لئے خانہ کعبہ کو مقرر کیا (اور ارشاد فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا اور طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو اور لوگوں میں حج کے لئے ندا کر دو کہ تمھاری طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور دراز رستوں سے چلے آتے ہو (سوار ہوکر) چلے آئیں۔
اسی طرح قرآن حکیم میں یہ بھی فرمایا گیا ہے:
وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَ رَسُوْلُہٗ
(التوبۃ:۳)
اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن انسانوں کو پکار کر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں۔

اسی سورہ توبہ میں یہ بھی فرمایا گیا ہے:
اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (التوبہ:۱۹)
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادی کو اس کا جیسا سمجھ لیا ہے، جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور راہ خدا میں جہاد کرتا ہے، ہرگز یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا۔
10 ذوالحجہ کو جب عید کا دن تھا اور مجھے ایک طرف قرآن حکیم کی یہ آیات یاد آرہی تھیں اور دوسری طرف یہ خیال آرہا تھا کہ اس مرتبہ اسلامی جمہوریہ ایران کے عازمین حرم بے قرار ہوں گے کہ ان پر اس برس ایک مرتبہ پھر حج کے راستے بند ہوگئے ہیں۔ 1979ء میں جب ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب رونما ہوا تو جہاں باقی بہت ساری چیزیں تبدیل ہوگئیں، وہاں حج کا بھی ایک انقلابی تصور ابھرا۔ وہی انقلابی تصور جس کی نشاندہی قرآن حکیم کی کئی ایک آیات بھی کرتی ہیں۔ حج اکبر کے دن عصر حاضر کے مشرکین کے خلاف آواز بلند کرنے کا پیغام بانئ انقلاب اسلامی امام خمینی ہی نے دیا تھا۔ لہٰذا ایرانی حج پر جاتے تو صہیونیت اور استعمار کے خلاف اپنے مقبول عام اور مشہور عالم نعرے بلند کرتے۔ امام خمینی نے یہ بھی کہا کہ خانہ کعبہ کے گرد طواف کا مطلب یہ ہے کہ پھر ہر گھر کا طواف ترک کر دیا جائے ۔انھوں نے حج کو عالم اسلام کا ایک سالانہ سیمینار قرار دیا، جس میں ساری دنیا سے آنے والے مسلمانوں کو مل کر اپنے اپنے مسائل ایک دوسرے کو بتانا چاہئیں اور عالم اسلام کے حوالے سے ایک نقطہ نظر اور ایک حکمت عملی طے کرنا چاہیے۔ امام خمینی نے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ وہ اپنے اوپر مسلط استعماری پٹھوؤں کو مسترد کر دیں اور اپنے حق حکمرانی کو بروئے کار لائیں۔ ظاہر ہے یہ دنیا پر پہلے سے مسلط ورلڈ آرڈر کے خلاف ایک عوامی اور انقلابی ورلڈ آرڈر کے خدوخال تھے۔ اسے رجعت پسند کسی صورت قبول نہ کرسکتے تھے، پھر جو کچھ ہوا تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے۔ سرزمین امن پر خون بہایا گیا اور مظلوموں کو مفسدوں کا نام دیا گیا۔

گذشتہ برس جو حادثات صحن حرم اور منٰی میں رونما ہوئے، انھوں نے سینوں کو زخمی کر دیا۔ پاکستان کے بھی ایک ہزار سے زیادہ حاجی شہید ہوگئے، لیکن ہمارے آزاد میڈیا کو حکم ہوا کہ وہ خاموشی اختیار کرے کہ کہیں دوستوں کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ مظلوموں کی فریاد سینوں میں دب کر رہ گئی۔ دیگر ملکوں میں بھی اسی طرح سے فریاد کو دبا لیا گیا۔ ایران کے بھی پانچ سو کے قریب حاجی منٰی میں مارے گئے تھے۔ ایران نے اور بعض دیگر اداروں نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان ملکوں کی ایک آزاد تحقیقاتی ٹیم اس واقعے کا کھوج لگائے، تاکہ ذمے داروں کو سزا دی جاسکے۔ سال گزر گیا نہ ذمے داری کا تعین ہوا، نہ تحقیقات کا کچھ پتہ چلا، نہ مقتولوں کے پسماندگان اور مجروحوں کی دادرسی کی گئی اور نہ حج کے انتظامات کے لئے کوئی اجتماعی شکل قبول کی گئی۔ الٹا ایسے مطالبے کرنے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دنیا کے بڑے مسلمان ملک ان امور میں اپنی اجتماعی ذمے داری کا احساس کرتے اور مل جل کر اپنے ہی شہریوں کی حفاظت کے لئے کوئی مستقل منصوبہ بندی کرتے۔ یہ اور دیگر کئی مسائل ایسے ہیں، جنھوں نے ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے، لیکن افتاد اللہ کے گھر کے عاشقوں پر پڑی اور ان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ پابندی کے اس فیصلے کو بھی کئی ماہ ہوچکے ہیں، اس سلسلے میں بھی کوئی مسلمان ملک ثالثی کے لئے قدم آگے بڑھا سکتا تھا لیکن ثالثی کون کرے۔ مفادات اور مصلحتوں کی اس جنگ میں غیر جانبداری کس چیز کا نام ہے، سب فراموش کرچکے ہیں۔

یہ ساری باتیں ایک ایک کرکے صفحۂ ذہن پر ابھر رہی تھیں، امام خمینی سے جذب و احساس کی کیفیتیں ورثے میں پانے والے سینوں کی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں اور عاشقان حرم کی روحیں سوئے حرم مائل بہ پرواز آنکھوں کے سامنے تھیں۔ نثر ایسے میں جذبوں کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے، لہٰذا مصرعے ایک خاص ساخت میں ڈھل کر اور ایک روح لئے ہوئے اترنا شروع ہوئے۔ قارئین کو بھی اپنی ان کیفیات میں شریک کرتے ہیں:
جن کی آواز سے پیغامِ جنوں جاتا ہے
داخلِ قصر بھی اعلامِ زبوں جاتا ہے
گُھٹتا ہے دم تو رگ و ریشہ سے خوں جاتا ہے
روک دو، جن سے شہنشہ کا سکوں جاتا ہے
آنے دو، جن کے بدن طَوف حرم کرتے ہیں
جو بڑے بڑے شوق سے شیطان کو دم کرتے ہیں

*****
جاری افلاک سے اک تازہ بیاں ہو کہ نہ ہو؟
حزبِ رحمان کو پھر حکمِ اذاں ہو کہ نہ ہو؟
ہَو قیامت تو تغیر کا سماں ہو کہ نہ ہو؟
پاسبانوں پہ کوئی اور گماں ہو کہ نہ ہو؟
پاسباں بن کے جو دیوار کھڑے ہو جائیں
اہلِ خانہ سے بھی خادِم جو بڑے ہو جائیں

*****
داستاں کہتی ہیں تورات و اناجیل اُن کی
بامِ مروہ و صفا پر جلے قَندیل ان کی
کنکری پھینکنے آئیں گے ابابیل ان کی
بانگ دُہرائیں گے صحرا میں سرافیل ان کی
جن کے اَحرام چمکتے ہیں تو لَو دیتے ہیں
نُور حُجّاج کے سینوں میں جو بَو دیتے ہیں
*****
گرچہ دُوری ہے اے کعبہ! ترے ایوانوں سے
حرمِ پاک کی دہلیز سے، دالانوں سے
گونج اُٹھی ہے مگر کہنے کو انسانوں سے
رُوحِ قبلہ تو ہے لپٹی ہوئی ان جانوں سے
خادمِ خانہ نے ہے اہل حَرم کو رَوکا
فیصلہ دیکھیے کیا بامِ فلک پر ہو گا

*****
جَمَرات آئیں نظر اور بلند اور بلند
آنکھ اُٹھائے، کوئی بولے تو بھرو اس پر زَغَند
پھینک دو نغمۂ تلبیہ پہ اِک شاہی کمند
جو برأت اٹھتی ہے قرآن کے سینے سے ہو بند
روک سکتے ہو تو پھر طائرِ جاں کو روکو
رُوح کرتی ہے جو اس طوفِ مکاں کو روکو
*****
اے مرے کعبۂ ایماں! اے مرے قبلہ جاں!
کب مطاف آپ کے عاشق کا رہا گردِ مکاں
عَرَفات اپنا وہاں آپ کا خیمہ ہے جہاں
میری پیشانی کو معلوم ہیں قدموں کے نشاں
کون دِکھلائے جُدا مَستی کو پیمانوں سے
عشق کو کون چُرائے بھلا دیوانوں سے

*****
خبر کا کوڈ : 567502
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش