QR CodeQR Code

دو طرح کے لوگ

25 Sep 2016 02:16

اسلام ٹائمز: میرا مقصد کسی کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کیا ہم گندگی کے ساتھ کمپرومائز کرنے والے لوگوں میں سے ہوجائیں، کیا ناک اور منہ لپیٹ کر اور پائنچے اوپر اٹھا کر نسل در نسل اسی طرح گزرتے رہیں یا پھر اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیر قانونی آلودگی کے خلاف سعی اور کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ لوگ دو طرح کے ہی ہیں، کچھ گندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے جیتے ہیں اور کچھ گندگی کو ختم کرکے پاکیزہ فضا میں سانس لینے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اب دوسروں کو برا بھلا کہنے کی ضرورت نہیں، یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم کس طرح کے لوگوں میں شمار ہونا پسند کرتے ہیں۔ ناک منہ لپیٹ کر جینے والوں کے ساتھ یا پاکیزہ فضا کی خاطر جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ۔


تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


گندگی تو گندگی ہے۔ ہمارے ہاں گندگی کے ساتھ جینے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ اگر کسی شہر میں   ہر طرف گندی نالیاں ہوں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوں اور بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہو تو لوگ ہر روز اپنی ناک اور منہ لپیٹ کر خاموشی کے ساتھ  وہاں سے گزر جائیں گے۔ اکثر اسے اللہ کی مرضی سمجھتے ہوئے تھوکیں گے بھی نہیں۔ بے شک کئی سال گزر جائیں، کوئی بات نہیں لوگ اسی طرح ناک اور منہ لپیٹ اور پائنچے اوپر اٹھا کر گزرتے رہیں گے۔ ایسے میں اگر کوئی شخص اس گندگی کو صاف کرنے کے لئے کمر ہمت کسے اور متعلقہ اداروں کو جھنجھوڑ کر صفائی کروانا چاہے تو لوگوں کا ایک طبقہ فوراً اپنی ناک سے رومال ہٹا کر کہے گا کہ یہ سب تو ایجنسیوں کو خوش کرنے، میڈیا کو دکھانے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ آپ جو ناک اور منہ پر رومال لپیٹ کر اس گندگی میں سانس لیتے رہے، آپ نے کس وجہ سے گندگی کے ساتھ کمپرومائز کئے رکھا!؟

ہمارے ہاں ماحول کی آلودگی کے ساتھ ساتھ اخلاقی آلودگی اور لاقانونیت کی بھی بھرمار ہے۔ لوگوں کی ایک اکثریت اخلاقی اور قانونی مسائل کو مسائل ہی نہیں سمجھتی، لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مسائل کو قانونی اور اخلاقی طریقے سے کیسے حل کیا جاتا ہے۔ اکثریت بس ناک منہ لپیٹ کر وقت گزارنے والوں کی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کئی سالوں سے ناک منہ لپیٹ کر کوئٹہ سے تفتان کا سفر کرتی رہی۔ اس دوران قم کے ایک عالم دین نے اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیر قانونی آلودگی کے خلاف آواز بلند کی۔ بعد ازاں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے خود تفتان روٹ پر سفر کیا، لوگوں کی مشکلات سنیں اور اعلٰی سطح پر یہاں کے مسائل کو حل کروانے کے لئے مہم چلائی۔

ابھی ان کا دورہ جاری ہی تھا کہ طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں، میرا مقصد کسی کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کیا ہم گندگی کے ساتھ کمپرومائز کرنے والے لوگوں میں سے ہوجائیں، کیا ناک اور منہ لپیٹ کر اور پائنچے اوپر اٹھا کر نسل در نسل اسی طرح گزرتے رہیں یا پھر اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیر قانونی آلودگی کے خلاف سعی اور کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ لوگ دو طرح کے ہی ہیں، کچھ گندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے جیتے ہیں اور کچھ گندگی کو ختم کرکے پاکیزہ فضا میں سانس لینے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اب  دوسروں کو برا بھلا کہنے کی ضرورت نہیں، یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم کس طرح کے لوگوں میں شمار ہونا پسند کرتے ہیں۔ ناک منہ لپیٹ کر جینے والوں کے ساتھ یا پاکیزہ فضا کی خاطر جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ۔


خبر کا کوڈ: 570010

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/570010/دو-طرح-کے-لوگ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org