1
0
Sunday 25 Sep 2016 12:12

واقعہ مباہلہ، ہادی، ہدایت اور روش حق(1)

واقعہ مباہلہ، ہادی، ہدایت اور روش حق(1)
تحریر: سید اسد عباس

دین اسلام! یعنی سلامتی، امن و آشتی، رواداری، ایفائے عہد اور احترام انسانیت و فلاح آدمیت کا دین۔ اس دین کے بارے میں یہ تصور بھی عام ہے کہ ’’اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔‘‘ یہ دعویٰ دشمنوں کے ساتھ ساتھ دوست بھی بڑے زور و شور سے کرتے ہیں۔ بعض اکابر کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے یہ واضح طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کی سلطنت فلاں فلاں مقام تک پھیلی۔ حالانکہ تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس میں دین کو اخلاقی برتری، اعلٰی کردار اور حسن عمل کے ذریعے پھیلایا گیا۔ نبی کریم ؐ نے اپنی مکی زندگی کے ابتدائی برس نہایت مشکل حالات میں گزارے۔ آپ کے اصحاب و انصار کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر دیار غیر کی جانب ہجرت کرتے رہے۔ بعض اصحاب رسول ؐ نے کفار کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا، تاہم کبھی صبر، اعلٰی انسانی اخلاق اور اصولوں کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ مدنی زندگی میں بھی حسن تعامل کو شعار بناتے ہوئے مدنی قبائل جنہوں نے اسلام کی دعوت کو قبول نہ کیا، انکے ساتھ معاہدے کئے گئے۔

کوئی شخص اگر کہے کہ مکہ میں چونکہ طاقت نہ تھی، اس لئے تلوار نہ اٹھائی تو یہ درست نہیں، کیونکہ مدینہ میں جب طاقت و قوت نیز اقتدار سب کچھ حاصل ہوچکا، تب بھی کسی کو زبردستی دائرہ اسلام میں نہ لایا گیا۔ دعوت اسلام ضرور دی گئی، جس نے دعوت کو قبول کیا وہ مسلمانوں کا بھائی بنا اور جس نے دعوت کو رد کیا، اسے اس کے دین سے روکا نہ گیا۔ رسالت ماب ؐ کی زندگی میں مسلمانوں نے جب بھی تلوار اٹھائی اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لئے اٹھائی۔ اسلام کی امن پسندی کا ایک اہم واقعہ صلح حدیبیہ ہے۔ رسالت ماب ؐ نے طاقت و قوت ہونے کے باوجود کفار مکہ سے صلح کی اور اپنے ارادہ حج کو ایک سال کے لئے موخر کر دیا۔ بعض صحابہ کو یہ عمل گراں گزرا، تاہم امن و آشتی کو ایک موقع دینے کے لئے رسالت مآب واپس عازم مدینہ ہوئے۔ اس معاہدے میں یہ قرار پایا کہ کوئی مکی اگر اسلام قبول کرلے اور مکہ والے اس کا تقاضا کریں تو مسلمان اسے اہل مکہ کے سپرد کرنے کے پابند ہیں۔ رسالت مآب ؐ نے فی الفور اس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے ایک مکی مسلمان کو اہل مکہ کے سپرد بھی کیا۔

وقت نے ثابت کیا کہ رسول اکرم ؐ کا یہ اقدام کس قدر برکات کا حامل ہے۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ نوبت فتح مکہ تک جا پہنچی۔ کہا تو اسے فتح مکہ جاتا ہے، تاہم یہ ایسی فتح ہے جس میں کسی بے گناہ کو گزند نہ پہنچایا گیا۔ معافی کی عام دعوت دی گئی۔ شقی ترین دشمنوں کے گھروں کو جائے امان قرار دیا گیا۔ اپنے اعزاء و اقرباء کا خون معاف کیا گیا۔ فتح مکہ تاریخ انسانیت کا وہ عظیم واقعہ ہے جس کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ کہتے ہیں کہ انسان باہمی جنگ و جدال میں اب تک کروڑوں انسانوں کو قتل کر چکا ہے۔ جس میں زیادہ قتل جنگوں کے دوران کئے گئے، جب بھی کوئی فاتح اپنے مفتوحہ علاقوں میں وارد ہوا تو ساکنین کی زندگیاں فاتح افواج کے رحم و کرم پر رہیں۔ تاریخ انسانیت کا یہ واحد فاتح ہے جو مفتوحین کے لئے امن اور معافی کا پیغام لے کر آیا۔

تاریخ اسلام کے عظیم واقعات میں سے ایک اہم واقعہ نجران کے مسیحی راہبوں سے مناظرہ اور مباہلہ کا واقعہ ہے۔ نجران مکہ و یمن کے درمیان واقعہ ایک شہر ہے، جس میں رسالت ماب کے زمانے میں37 بستیاں تھیں۔ صدر اسلام میں وہاں عیسائی مذہب رائج تھا۔ نجران کا کلیسا سلطنت روم کے زیر اثر تھا۔ اس کلیسا کو بیت اللہ کے مقابلے میں ’’کعبہ نجران‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اس کلیسا سے بہت سے اہل علم وابستہ تھے۔ یہ علاقہ جزیرۃ العرب کا ویٹیکن تھا۔ نجران کا حاکم ’’عاقب‘‘ جس کی کنیت ’’ابو حارثہ‘‘ تھی، اس کلیسا کا اسقف بھی تھا۔ اعلان رسالت کے بعد نجران کے لوگوں نے توریت اور انجیل میں پڑھی ہوئی بشارتوں کے پیش نظر اسلام کے حوالے سے تحقیق کا آغاز کیا۔ نجران کے مسیحی تین مرتبہ رسالت مآب ؐ کے پاس آئے، ایک گروہ ہجرت سے پہلے مکہ آیا اور دو دفعہ نجران کے مسیحی ہجرت کے بعد مدینہ میں آئے۔ نجران کے مسیحی علماء کا پہلا گروہ مکہ مکرمہ میں پیغمبر اکرمؐ سے بیت اللہ کے پاس ملا اور وہیں مناظرے کا آغاز کر دیا۔ رسالت مآب نے ان کی بات نہایت تحمل سے سنی اور جواب میں قرآن کریم کی چند آیات تلاوت کیں، جنھیں سن کر ان لوگوں کے دل بھر آئے، اور فرط مسرت سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اپنی تحقیقات میں انھیں ایسی چیزیں معلوم ہوئیں جو توریت اور انجیل سے مطابقت رکھتی تھیں، جب انھوں نے یہ تمام چیزیں پیغمبر کی ذات میں دیکھیں تو مسلمان ہوگئے۔

دوسرا گروہ 9 ہجری میں مدینہ آیا، اسی واقعہ میں نوبت مباہلہ تک جاپہنچی۔ سلاطین عالم کو لکھے جانے والے خطوط میں سے ایک خط اسقف نجران کو بھی لکھا گیا اور اسے دین اسلام کی دعوت دی گئی۔ اسقف نجران کو یہ خط گراں گزرا اور اس نے اسے غصے میں پھاڑ دیا۔ اپنے حواریوں اور اہل علم سے مشاورت کے بعد اسقف نجران زعمائے قوم کے ہمراہ عازم مدینہ ہوا۔ بعض روایات میں اس وفد کی تعداد ساٹھ بتائی جاتی ہے۔ یہ وفد مسلمانوں پر رعب و دبدبہ طاری کرنے کے لئے زرق و برق لباس میں ملبوس تھا۔ رسالت مآب ؐ اور اصحاب پیغمبر نے ان کی اس رعونت کا جواب دینے کے لئے تین روز اس وفد کی جانب توجہ نہ کی۔ آخر کار امیرالمومنین علی علیہ السلام نے وفد کے افراد کو ان کے لباس کی جانب متوجہ کیا کہ وہ اس لباس کے بغیر رسالت مآب کی خدمت میں جائیں۔

سادہ لباس میں جب یہ وفد رسالت مآب ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو مسجد نبوی نجران کے مسیحیوں کا مہمان خانہ بنی۔ تین روز تک یہ علماء اور وفد کے اراکین مسجد نبوی میں قیام پذیر رہے۔ یہ لوگ اپنے طریقے کے مطابق عبادت انجام دیتے تھے۔ بعض اصحاب نے ان کو اس عمل سے روکنے کی کوشش کی تو رسول اکرم ؐ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ قارئین کرام! ایک وہ مسجد نبوی تھی اور ایک ہماری مساجد ہیں، جو دیگر مذاہب کے افراد تو ایک جانب دیگر مسالک کے مسلمانوں کے لئے بھی جائے ممنوعہ قرار پا چکی ہیں۔ حتٰی یہی حرمین شریفین جہاں عیسائیوں کو رہائش اور عبادت کی آزادی دی گئی، میں اب مسلمانوں کی آمد پر پابندیاں ہیں۔ گذشتہ برس یمن کے حجاج حج و زیارات سے بہرہ مند نہ ہوسکے اور اس برس ایرانی حجاج اس سعادت سے محروم ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 570255
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
یہی حرمین شریفین جہاں عیسائیوں کو رہائش اور عبادت کی آزادی دی گئی، میں اب مسلمانوں کی آمد پر پابندیاں ہیں۔ گذشتہ برس یمن کے حجاج حج و زیارات سے بہرہ مند نہ ہوسکے اور اس برس ایرانی حجاج اس سعادت سے محروم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا عمدہ تلمیح ہے۔
ہماری پیشکش