0
Thursday 3 Mar 2011 22:10

انقلابی اٹھان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اضطراب

انقلابی اٹھان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اضطراب
تحریر:ثاقب اکبر
 دسمبر 2010ء میں جب تیونس میں تبدیلی کی ہوا چلنا شروع ہوئی تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اسی وقت تشویش پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔ لیکن جب اس انقلابی لہر کا سلسلہ مصر تک پہنچا تو ان کی تشویش اضطراب میں بدلنے لگی۔ جم میلون نے 5 فروری کو لکھا کہ''مصر میں گزشتہ ہفتے کے واقعات امریکی میڈیا پر چھائے رہے اور داخلی سیاست پس منظر میں چلی گئی ہے۔'' مغرب میں بہت سے لوگ ان دنوں باراک اوباما کا تقابل جمی کارٹر سے کر رہے ہیں۔ رچرڈ ہیٹو (Richard Hetu) نے فرانسیسی زبان میں لکھے گئے اپنے ایک مقالے میں کہا ہے کہ ''امریکہ میں بہت سے لوگ سی آئی اے کی نااہلی کو حرف تنقید بنا رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ سی آئی اے حالات کا پیشگی اندازہ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ ''
اسرائیل کی تشویش سب سے بڑھ کر ہے۔ اسرائیلی اخبارات نے یہ خبر شائع کی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے باراک اوباما اور دیگر مغربی سربراہوں سے بات کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جدید مصر کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک وہ تمام عالمی شرائط اور اسرائیل سے کیے گئے تمام امن معاہدوں پر پابند رہنے کا عہد نہ کرے۔
امریکہ کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی شخصیات عرب مظاہرین کی آزادی اور جمہوریت کے حق میں احتجاج کو سراہنے کے بجائے اسے امریکہ کے لیے خطرہ قرار دے رہی ہیں۔ گلین بیک، نیوٹ گنگرچ اور مائک ہکابی ان مظاہروں کو امریکہ اور اسرائیل کے لیے بالواسطہ خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض تو واضح طور پر باراک اوباما کا جمی کارٹر سے موازنہ کر رہے ہیں، جس کے ہاتھ سے 1979ء میں ایران اسلامی انقلاب کی صورت میں نکل گیا تھا۔
ایڈمرل مائیکل میولن نے بارہا انٹرویوز میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ''ان مظاہروں نے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔'' اے ایف پی کے رپورٹر گریک بینزو کے مطابق ''یہاں میولن کی دوسرے لوگوں سے مراد امریکی انٹیلی جینس ادارے ہیں۔'' خاص طور پر کانگریس کے قانون ساز، سی آئی اے کو عرب ہنگاموں کی پیش گوئی نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ گریک بینرو کے مطابق یہی صورت حال یورپی انٹیلی جنس اداروں پر بھی صادق آتی ہے۔ میونخ میں منعقد ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ حکومتی رہنما، خارجہ، دفاع کے وزراء اور بین الاقوامی سیکیورٹی کے ماہرین تیونس اور مصر میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں فکر مند ہیں۔ اس موقع پر جرمنی کی قومی انٹیلی جنس سروس BND کو حرف تنقید بنایا گیا جو مصر کے حالات کی پیش گوئی کرنے میں ناکام رہی۔
دوسری طرف عالمی استعمار کے مخالف ممالک، عربوں کی انقلابی جدوجہد کے حوالے سے خاصے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ فروری کے آخر میں ایران اور ونزویلا کے صدور نے ٹیلی فون پر آپس میں رابطہ کیا اور عالمی مسائل کے بارے میں دونوں ملکوں کے اشتراک نظر پر تاکید کی۔ صدر احمدی نژاد نے کہا کہ تہران اور کارکاس کو مل کر امپیریلزم کی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ تاکہ موجودہ حالات کا نتیجہ علاقے کی عوام کے حق میں برآمد ہو۔ صدر ہیوگوشاویز نے بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں ایک ہی نظر رکھتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر برائے علاقائی ترقی سلوان شالون تیونس میں بن علی کے سقوط کے بعد ممکنہ طور پر اسلام پسندوں کے برسر اقتدار آنے پر اظہار تشویش کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ صدی میں 90 کی دہائی سے اسرائیل کے تیونس کے ساتھ اچھے تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ تیونس میں عوامی بغاوت کے آغاز سے ہی اسرائیلی فوج میں عرب عوام کی اٹھان کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک خصوصی شعبہ قائم کر دیا گیا تھا۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کے ایک مرکز تحقیقات نے اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیلی حکومت کو عرب دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ رپورٹ میں خاص طور پر مصر اور اردن میں آنے والی تبدیلیوں کے پیش نظر اسرائیل کے مستقبل پر سوالا ت اٹھائے ہیں۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ شلومو بروم نے تیار کی ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ تیونس کے صدر کے زوال نے عرب اقوام میں اضطراب و ہیجان کے شعلے بھڑکا دیئے ہیں۔
بحرین جہاں انقلابی تحریک زوروں پر ہے، کے حوالے سے امریکہ کی ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ وہاں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ موجود ہے اور دوسری طرف بحرین سعودی عرب کا ہمسایہ ملک ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بحرین کے یہ مظاہرے فرقہ وارانہ تقسیم سے آگے نکل گئے ہیں اور بحرینی حکومت نے ان مظاہروں کو دبانے کے لیے مزید وحشیانہ طریقے استعمال کیے تو امریکہ کے لیے مزید مشکلات بڑھ جائیں گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی پریشانی تو اور بھی زیادہ ہے کہ پانی کے اوپر سے ایک راستہ سعودی عرب کو بحرین سے ملاتا ہے۔ بی بی سی کے رپورٹر کے مطابق ''طاقتور سعودی وزیر داخلہ شہزادہ نائف سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک ماہر نے مجھے بتایا کہ اگر بحرین میں صورتحال کنٹرول سے باہر ہو گئی تو سعودی حکومت وہاں مداخلت کرے گی۔''
یاد رہے کہ سعودی عرب پہلے ہی یمن میں حکومت مخالف حوثی تحریک کو کچلنے کے لیے اپنی زمینی اور فضائی افواج کو استعمال کر چکا ہے۔ خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے میں امریکہ جو کام خود سے نہیں کر سکتا اس کے لیے بعض اوقات وہ سعودی عرب کی مدد حاصل کرتا ہے۔ امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز مانس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مصر کے سیاسی بحران کے تناظر میں امریکہ خطے میں اپنی عسکری سرگرمیوں میں ردوبدل کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
اے پی پی کی 28 فروری کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز مانس نے کہا ہے کہ ہم مصر میں جاری سیاسی بحران کے باعث نہر سویز کی بندش پر سفارتی، اقتصادی حتٰی کہ فوجی طاقت سے جواب دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نہر سوئز تیل سپلائی کا اہم ذریعہ ہے اور مصر میں جس نے بھی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسے بند کرنے کی کوشش کی، وہ یقیناً ایک بہت بڑی غلطی کرے گا۔ جنرل جیمز مانس مصر سے پاکستان تک وسیع خطے میں امریکی فوجی آپریشن کے نگران ہیں۔ ادھر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی بحری بٹیروں نے لیبیا کی طرف حرکت شروع کر دی ہے۔
اس ساری صورت حال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عرب عوام کی انقلابی تحریک سے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی بڑے اضطراب کا شکار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عرب کے انقلابی عوام جو جہاں داخلی طور پر آمریتوں کے خلاف نبردآزما ہیں وہاں وہ ان آمروں کے عالمی سرپرستوں کی سازشوں کا مقابلہ کس حکمت اور دانش مندی سے کرتے ہیں۔ تاہم یہ امر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ عرب عوام اپنے مستبد حاکموں کی ماہیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کن کی مدد سے برسراقتدار رہے ہیں اور کن کے گماشتوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 57364
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش