0
Wednesday 12 Oct 2016 18:36

شریف حکمران خبر کی تردید میں ناکام، ذاتی رنجش پہ آرمی چیف سے گرما گرمی

شریف حکمران خبر کی تردید میں ناکام، ذاتی رنجش پہ آرمی چیف سے گرما گرمی
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کی طرف سے خارجہ پالیسی کے محاذ پر ناکامی کا سبب فوج کی طرف سے جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی عسکری تنظیموں کی سرپرستی بتایا گیا، سول حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان ہونے والا یہ تند و تیز مکالمہ ڈان اخبار نے رپورٹ کر دیا۔ خبر کی اشاعت کے چند دن بعد فوج کی طرف سے خبر لیک ہونے پر حکمران جماعت سے شکوہ کیا گیا تو حکومت کی طرف سے ڈان اخبار کے رپورٹر کیخلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا، جس سے تمام صحافتی اداروں اور تنظیموں میں ہل چل مچ گئی۔ صحافی تنظیموں کا موقف ہے کہ ڈان سے وابستہ صحافی سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی تھی، صرف ایک خبر شائع کرنے کی بنا پر نام ای سی ایل میں ڈال کر حکومت نے قانون کی دھجیاں بکھر دیں، نہ سرل المیڈا کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہے۔ واضح رہے کہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کچھ عرصہ قبل واضح طور پر کہا تھا کہ عدالتوں کے حکم یا قانونی کارروائی کے بغیر کسی شخص کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہیں ڈالا جائے گا۔ ملک میں ای سی ایل میں کسی بھی شخص کا نام ڈالنے کا طریقہ کار واضح ہے، جس کے مطابق عدالتی حکم، ایف آئی اے یا قومی احتساب بیورو کی درخواست یا پھر کسی سنگین مقدمے میں ملوث ملزم کے بیرون ملک فرار ہونے کے خدشے کے پیش نظر پولیس یا صوبائی حکومت کی طرف سے وزارت داخلہ کو دی جانے والی درخواست پر اس کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جاتا ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرل المیڈا اس معاملے کو اعلٰی عدالتوں میں چیلنج کرسکتے ہیں، کیونکہ اْن کے بقول اس معاملے پر قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ سرل المیڈا کی خبر کی اشاعت کے بعد حکومت نے خبر کی وضاحت جاری کی، جسے مذکورہ اخبار نے شائع بھی کر دیا۔ صحافی تنظیموں نے حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر سرل المیڈا کا نام ای سی ایل سے خارج کیا جائے۔ جس کے بعد اعلٰی عسکری ذرائع نے انگریزی اخبار کے رپورٹر کا نام ایگزٹ کٹرول لسٹ میں ڈالنے کے متعلق حکومتی فیصلے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ انھیں انگریزی اخبار یا اس کے رپورٹر سے کوئی محبت نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ انہیں بنیادی اعتراض انتہائی اہم اور حساس اجلاس کی خبر کو غلط انداز اور حقیقت کے برعکس لیک کرنے پر ہے۔ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا مطالبہ خبر لیک کرنے اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے حوالے سے تحقیقات کا ہے اور اس سلسلہ میں خبر لیک کرنیوالے کیخلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

عسکری ذرائع نے واضح کیا کہ انھوں نے خبر دینے والے رپورٹر یا اخبار کیخلاف کبھی کارروائی کا نہیں کہا۔ نجی ٹی وی کے مطابق عسکری ذرائع نے بتایا کہ ہم نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ ہمیں اخبار اور صحافی پر اعتراض ہے اور اخبار اور صحافی کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، ہمارا اعتراض صرف یہ ہے کہ اتنی حساس خبر اتنے حساس اور اہم اجلاس سے باہر کیسے آئی؟ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ خبر کو توڑ مروڑ کر کیوں پیش کیا گیا؟ اور کس نے پیش کیا۔؟ نجی اخبار ڈان میں ایک خبر شائع ہونے کے بعد عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان معاملات انتہائی خراب ہو جانے کا انکشاف کیا گیا ہے اور معروف صحافی صابر شاکر کا کہنا ہے کہ اس تمام تر معاملے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور عسکری قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات اتنی گرما گرم رہی کہ پچھلے تین سالوں میں ایک بھی میٹنگ ایسی نہیں ہوئی۔ صابر شاکر کے مطابق مسلم لیگ (ن) والوں کا کہنا ہے کہ رمضان شوگر ملز سے متعلق خبریں لگوائی گئی ہیں، اس لئے اب اگر اتنی ہمت ہے تو پھر آجاﺅ۔ عسکری حکام کی سرل المیڈا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے کی تردید، صحافی کا نام وزیر داخلہ کے حکم پر ای سی ایل میں ڈالا گیا۔

نجی ٹی وی کے پروگرام دی رپورٹرز میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی صابر شاکر نے کہا کہ ڈان میں خبر شائع ہونے کے بعد وزیراعظم ہاﺅس اور اور میڈیا سیل پر پریشر آیا تو کہا گیا کہ اس خبر کی تردید جاری کر دی گئی ہے، لیکن اخبار اور اس کا رپورٹر اپنی خبر پر قائم رہا، جس پر حکومتی اور عسکری قیادت کے درمیان ایک میٹنگ ہوئی، جس میں دو اور دو چار کی طرح باتیں کی گئیں۔ صابر شاکر نے کہا کہ اس ملاقات میں عسکری قیادت نے تمام شواہد وزیراعظم کو دیئے اور بتایا کہ خبر سے متعلق آپ کی تردید کے جواب میں یہ شواہد آئے ہیں، اس کے ساتھ ہی انہیں ان لوگوں کے بارے میں بھی بتایا، جنہوں نے یہ خبر فیڈ کی اور بتایا گیا کہ رپورٹر یا اخبار کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اگر تو یہ خبر درست ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا، لیکن جب موضوع کسی بھی تناظر میں زیر بحث ہی نہیں تھا تو پھر اس خبر کا مقصد کیا تھا، کیا بھارت کو خوش کرنا چاہتے ہیں؟ پہلے تو بھارت، بھارتی میڈیا اور یورپین میڈیا ہمیں برا بھلا کہہ رہا ہے اور اب وہی کام آپ کر رہے ہیں اور اس سے پہلے آپ کے اتحادی کرتے رہے ہیں۔ صابر شاکر نے کہا کہ جب سے جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان آئے ہیں یعنی پچھلے تین سالوں میں اتنی تلخ میٹنگ کبھی بھی نہیں ہوئی۔

اس موقع پر انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ میٹنگ اتنی تلخ تھی کہ اس میں عسکری قیادت کی جانب سے ”شٹ اپ کال“ دی گئی اور کہا گیا کہ اس طرح کا بیہودہ پراپیگنڈہ اور پاکستان کے اداروں کو بدنام کرنے کا بیہودہ طریقہ کار بند کریں۔ صابر شاکر نے کہا کہ عسکری قیادت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ بھارت کے ساتھ پیار محبت ہے، اسے بڑھائیں لیکن قومی مفادات کے دائرے میں رہ کر۔ آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟ بھارت میں آپ کا کون سا خزانہ چھپا ہوا ہے، جسے آپ نکالنا چاہتے ہیں؟ اور اس سے متعلق تمام معاملات میں آپ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری لیڈرشپ رکاوٹ ہے اور پاکستان کے قومی سلامتی کے ادارے رکاوٹ ہیں، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کا ایجنڈہ تو کوئی اور ہے اور ہم کوئی اور کام کرنا چاہ رہے ہیں۔ صابر شاکر نے مزید کہا کہ اس تمام تر معاملے کا بیک گراﺅنڈ یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ آپ نے رمضان شوگر ملز خلاف بہت سی بڑی خبریں لگوائی ہیں۔ کلبھوشن یادیو کو بھی ہمارے ساتھ جوڑ دیا اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے 2 سے 3 بندوں کا ہماری مل میں ہونے کی خبریں بھی آپ نے ہی لگوائیں۔ اس لئے مسلم لیگ (ن) والے اب یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اتنی ہمت ہے تو پھر آجائیں۔

اے آر وائی چینل کے صابر شاکر کے علاوہ جیو ٹی وی کے سینیئر اینکر پرسن شاہزیب خانزادہ نے کہا ہے کہ عسکری ذرائع نے صحافی سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی تردید کر دی اور کہا ہے کہ فوج نے صحافی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا۔ اپنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی براہ راست ہدایات پر ڈان اخبار کے اسسٹنٹ ایڈیٹر سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔ تمام ایئرپورٹس پر زبانی ہدایت کی گئی کہ ای سی ایل میں نام نہ بھی ہو، تب بھی اس صحافی کو ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے، اعلٰی ترین عسکری ذرائع سے ہماری بات ہوئی ہے، جنہوں نے سیرل المیڈا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ اعلٰی ترین عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ہم نے خبر دینے والے کے خلاف کارروائی کا نہیں کہا اور نہ ہی کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہا۔ ہم نے نہیں کہا، نہ ہمیں انگریزی اخبار کے صحافی سیرل المیڈا پر اعتراض ہے، ہمارا اعتراض صرف یہ ہے کہ اتنی حساس خبر، اتنے حساس اور اہم اجلاس سے باہر کیسے آئی اور خبر کو توڑ مروڑ کر کیوں پیش کیا گیا۔؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ جس نے خبر لیک کی اس کا پتہ چلایا جائے اور اس کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ واضح رہے کہ اے آر وائی حکومت مخالف لیکن جیو ٹی وی حکومت نواز سمجھا جاتا ہے، لیکن اس خبر، خبر کی تردید اور عسکری ذرائع کے موقف کے متعلق دونوں چینلز کا موقف ایک ہی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شریف حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات میں تناو بڑھتا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 574862
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش