0
Tuesday 18 Oct 2016 20:07

بھارت، یکساں سول کوڈ کا شوشہ

بھارت، یکساں سول کوڈ کا شوشہ
ترتیب و تزئین: جاوید عباس رضوی

بھارت میں مسلم اقلیتوں کو ہراساں کرنا اور مختلف بہانے سے ان کی مذہبی آزادی سلب کر لینے کی ناپاک کوششیں کوئی آج کا نیا اور تازہ ایجنڈہ نہیں ہے، بلکہ یہ بی جے پی کا پیدائشی منشور ہے اور ایسی طاقتیں اپنے اس منصوبہ کو نافذ کرنے کے مقصد سے مختلف موقعوں پر بزور طاقت مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کرتی رہی ہیں۔ آج تو صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی نے منظم طور پر مسلم مخالف منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ طلاق یا اس جیسے دیگر ایشوز کی شرح تو مسلم معاشرے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے برخلاف طلاق، تعداد ازواج، بچوں کی شرح پیدائش میں اضافہ جیسے سلگتے ہوئے مسائل مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں میں ہیں۔ یہ اعداد و شمار 2011ء کی مردم شماری سے ہی برآمد ہوئے ہیں۔ آج بھارت کے دبے، کچلے اور پسماندہ حال لوگوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اسے پورا کرنے کی بجائے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کیلئے سازشیں رچائی جانے لگی ہیں اور بھاجپا حکومت اس میں فعال و سرگرم نظر آرہی ہے۔

دوسری طرف مرکزی حکومت کے پیدا کردہ مسائل اور حالات ایسے ہیں کہ اندرون ملک بہت سے لوگ پریشان ہیں، اچھے دن کے بلند بانگ دعوؤں اور پرزور نعروں کی گونج میں اقتدار حاصل کرنے والے بہت جلد اس کی حقیقت کو بھول گئے اور نفرت کی سیاست کا بازار گرم کر دیا، تشدد پسندوں کو کھلی آزادی مل گئی، نفرت کے سوداگر اپنے کاروبار میں مصروف ہوگئے، امن کے دشمن آگ لگانے میں منہمک ہوگئے، کمزور طبقات کو مختلف بہانوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، کبھی گاؤ کشی کے نام پر بے قصوروں کو مار مار کر ہلاک کیا گیا تو کبھی گاؤ رکھشک کا ڈھونگ رچانے والوں نے ظلم و زیادتی کا ننگا ناچ کھیلا اور اپنی درندگی کا کھلے عام مظاہرہ کیا۔ مہنگائی نے عام افراد کو حیران کر دیا۔ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ گاؤ کشی یا اس جیسی دوسری شرانگیزانہ حرکات کے الزام میں صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ بھارت کا دلت اور قبائلی طبقہ بھی فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے، المیہ یہ ہے کہ اس برہمنی غنڈہ گردی کو مودی سرکار کی بھرپور حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔

یکساں سول کوڈ کے نفاذ اور مسلم رہنماؤں کیجانب سے اسکی مخالفت کی اگر بات کی جائے تو 13 اکتوبر 2016ء کو پریس کلب آف انڈیا میں آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے جنرل سکرٹری، جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی، جمعیت اہلحدیث کے ناظم عمومی مولانا اصغر امام مہدی سلفی سمیت مسلمانوں کے لگ بھگ سبھی مکتب فکر کے علماء اور مذہبی قائدین نے حکومت ہند خصوصاً بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مسلم مخالف منصوبہ بندی سے بڑی حد تک پردہ اٹھا دیا ہے اور اس کی وجوہات کی طرف بھی انہوں نے نشاندہی کی۔ پریس کانفرنس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکرٹری مولانا ولی رحمانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاء کمیشن بھارت میں کامن سول کوڈ کے نفاذ کیلئے نریندر مودی کے اشارے پر کام کر رہی ہے، جس کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاء کمیشن کے سوالنامے میں غلط رہنمائی کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس سوالنامے میں جانبداری کی جھلک واضح طور پر نظر آرہی ہے، یکساں سول کوڈ کا نفاذ ملک کی اقلیتوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے، اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ اس طرح کی کسی بھی حق تلفی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔

مولانا ولی رحمانی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے منظم سازش کے تحت اس وقت ساری سرکاری مشنریز کو ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود کے مثبت ایجنڈوں سے ہٹا کر ملک میں نفرت و عداوت پیدا کرنے، اقلیتوں اور کمزور طبقات کو ہراساں کرنے کے کام پر لگا دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لاء کمیشن، وزارت قانون اور فرقہ پرست عناصر کی شرانگیزیوں پر بھاجپا حکومت کی پشت پناہی، یہ ساری چیزیں باہم مربوط ہیں اور نریندر مودی کے مسلم مخالف منصوبے پر عمل آوری کا ہی حصہ ہیں۔ درایں اثنا نئی دہلی میں آج سرکردہ مسلم دانشوروں اور سیاسی و سماجی نمائندوں نے ایک خصوصی میٹنگ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بھاجپا حکومت چور دروازے سے بھارت میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے عوام کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نیشنل لاء کمیشن کی طرف سے جاری کردہ سوال نامہ ایک بے نتیجہ سرگرمی ہے، کیونکہ اگر واقعی مرکزی حکومت بھارت میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی خواہشمند ہے تو وہ اپنی طرف سے اس کا مسودہ عوام کے سامنے پیش کرے، تاکہ ملک کے مختلف طبقات اس پر اپنی رائے قائم کرسکیں۔

میٹنگ کے شرکاء کا اس امر پر اتفاق ہوا کہ اس ملک میں مختلف مذہبی اور تہذیبی فرقوں کے سینکڑوں پرسنل لاز ہیں اور ایسی حالت میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ سرگرمی محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور اترپردیش کے آئندہ انتخابات میں ووٹوں کی صف بندی کیلئے کی جا رہی ہے۔ نئی دہلی میں منعقدہ میٹنگ کے شرکاء کا خیال تھا کہ لاء کمیشن کے سوالنامہ کو بے اثر کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسکو یکسر نظر انداز نہ کرتے ہوئے اس کا جواب نفی میں دیا جائے اور لاء کمیشن کو اس کے خلاف خطوط لکھے جائیں، تاکہ ملت کا جواب کمیشن کے ریکارڈ پر رہے۔ میٹنگ کی صدارت معروف ملی رہنما ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کی۔ ادھر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے بھارتی حکومت کی طرف سے ہندوستان میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے اور مسلم پرسنل لاء کو کالعدم کرنے کی کوششوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس کی کڑی الفاظ میں مذمت کی۔ جماعت اسلامی نے کہا کہ اس طرح کے اقدام سے بھارتی حکومت ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت کو مٹانے کی مذموم کوشش کرتے ہوئے فرقہ پرست قوتوں کے اشاروں پر عمل پیرا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ہندوستان کی کسی مرکزی حکومت نے اعلاناً مسلم پرسنل لاء کو کالعدم کرکے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی سفارش کی ہے۔ دہلی میں سنگھ پریوار کی پشت پناہی والی حکومت اس وقت کھل کر مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کی دینی شناخت کو ختم کرکے پورے ملک کو ہندو راشٹرا کے اندر تبدیل کرنے کے منصوبے پر جارحانہ انداز میں عمل پیرا ہے۔ جماعت اسلامی نے کہا کہ دنیا بھر میں رہنے والے مسلمان دینی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی طرح بھارتی مسلمان بھی پرسنل لاء کو کالعدم کرنے کے نام پر اپنے دینی تشخص کے ساتھ کسی بھی قسم کا کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بھارت میں رہ رہے بیس کروڑ مسلمانوں کے لئے نہ صرف قانونی تحفظ کی ضمانت ہے بلکہ بھارت کے مسلمانوں کی اپنی دینی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی خواہش کا آئینہ دار ہے۔ جماعت اسلامی نے ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کو بھارتی مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں ہندو قرم پرست قوتوں کی مسلم کش پالیسی کا تسلسل ہے، جو کبھی گاؤ رکھ شک تو کبھی بڑے گوشت پر پابندی کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 576258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش