1
0
Tuesday 18 Oct 2016 09:36

پاکستان میں غیر یقینی سیاسی صورتحال، حکومت چلی جائے گی؟؟

پاکستان میں غیر یقینی سیاسی صورتحال، حکومت چلی جائے گی؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

ملک میں جاری سیاسی سرگرمیوں سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ جیسے حالات قبل از وقت انتخابات کی طرف جا رہے ہیں، عمران خان تحریک انصاف کو اسلام آباد کو بند کرنے کیلئے 30 اکتوبر کی بجائے 2 نومبر کی تاریخ دے چکے ہیں۔ انہوں نے اس شو کو کامیاب بنانے کیلئے کارکنوں کی مہم تیز کرنے اور عوام کی احتجاج میں شرکت کیساتھ ساتھ کم از کم ایک سو روپے چندہ دینے کی اپیل بھی کر دی ہے۔ عمران خان کی یہ چندہ مہم دراصل اس احتجاج کی کامیابی کا فیصلہ کر دے گی، جتنا زیادہ چندہ جمع ہوگا، احتجاج کی کامیابی کے امکانات اسی قدر زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ سو تحریک انصاف کیلئے یہ بھی کامیابی کا ایسا پیمانہ ہوگا، جس سے حکومت کو امتحان میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ادھر کراچی میں سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں ریلی کے فقیدالمثال ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے نون لیگی حکومت کو 4 نکاتی مطالبات کا ایجنڈا دیتے ہوئے اسے 27 دسمبر تک تسلیم کرنے کی مہلت دی ہے۔ یہ مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں 27 دسمبر کو شہید بے نظیر بھٹو کی برسی پر گڑھی خدابخش میں حکومت کیخلاف لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔ بلاول بھٹو کے مطالبات یہ ہیں۔
1۔ پارلیمانی سکیورٹی کمیٹی کی تشکیل نوء کی جائے۔
2۔ پیپلز پارٹی کے تیار کردہ پاناما بل کو پارلیمنٹ سے پاس کروایا جائے۔
3۔ سی پیک قرارداد پر عملدرآمد کیا جائے۔
4۔ فوری طور پر وزیر خارجہ کا تقرر عمل میں لایا جائے۔


بلاول بھٹو نے پاکستان کو دہشتگردی، جہالت، غربت، مذہبی ٹھیکیداروں اور تخت رائیونڈ سے قوم کو نجات دلانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ زبان اور برادری ازم کی سیاست کا خاتمہ کرکے پاکستان کو قائد اعظم کی سوچ کا آئینہ دار ملک بنا کر دم لیں گے۔ جواں سالہ سیاست دان بلاول بھٹو زرداری کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی پارٹی کو ازسرنوء چاروں صوبوں کی زنجیر بنانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ گو کہ ان کی پارٹی سابق صدر آصف علی زراری کے طرز سیاست کی وجہ سے عوامی تائید سے محروم ہو کر 2013ء کے عام انتخابات میں صرف سندھ تک محدود ہوچکی تھی۔ مگر کراچی کی کامیاب ریلی سے واضح ہوتا ہے کہ نوجوان قیادت کی زیرسرکردگی یہ پارٹی اپنا نیا سیاسی سفر شروع کرنے جا رہی ہے، جس کے مستقبل کے سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی امید کی جا سکتی ہے، کیونکہ اب تک مسلم لیگ نون کی مرکز اور پنجاب میں طرز حکومت اور عمران خان کے طرز سیاست نے ملک میں ہنگامہ آرائی اور احتجاج کی سیاست کو فروغ دے کر پاکستان کو بے یقینی کی دلدل میں پھنسائے رکھا ہے۔

اس وقت حکومت غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبے عام آدمی کو بجلی سے محروم کئے اس کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہے۔ مہنگائی کا اژدھا قابو میں آنے کا نہیں اور حکومت کی بیڈ گورننس پر عدالت عظمٰی بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے باور کروا رہی ہے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت چلائی جا رہی ہے جبکہ عسکری قیادت اعلٰی سطح کے اجلاس کی خبر افشاء ہونے پر سخت نالاں ہے۔ ملک میں آئینی طور پر فوجی عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ سو قیاس کیا جا رہا ہے کہ قومی سلامتی کو پہنچائے جانیوالے افشائے راز کا یہ مقدمہ فوجی عدالت میں بھی چلایا جا سکتا ہے۔ اداروں کے مابین رابطہ کاری کا فقدان مرکزی حکومت کی کمزور گرفت کا عکاس ہے۔ اس پر مستزاد کہ بھارت کی کامیاب سفارتکاری سے پاکستان کا خارجہ محاذ پر جاری سفر رکاوٹوں کا شکار ہے۔ سوائے چین کے کوئی ملک بھی پاکستان کیساتھ کھڑا نظر نہیں آتا۔ بنگلہ دیش جیسا ملک بھی ہم سے سفارتی تعلقات پر نظرثانی کی دھمکی دے رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی تو اٹھتے بیٹھتے پاکستان کو تنہا کرنے کی بات کر رہے ہیں گو کہ بھارت میں ہی منعقدہ برکس سربراہی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں بھارت کو اس وقت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جب شرکاء نے دہشتگردی ختم کرنے کے اعلان کیساتھ پاکستان کو نتھی کرنے کا بھارتی ہتھکنڈا ناکام بنا دیا۔ یہ سراسر عظیم دوست چین کی دوستی کا مرہون منت ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا کہ آخر چین کب تک پاکستان کو اپنا کندھا پیش کرتا رہے گا۔

پاکستان کی وزارت خارجہ جب تک ایک ہمہ وقتی ماہر تجربہ کار وزیر خارجہ کی زیر سرکردگی میں نہیں دی جاتی، تب تک پاکستان کشمیر پر عالمی رائے عامہ اپنے موقف کے حق میں ہموار کرنے سے عاجز رہے گا۔ مسلم لیگ نون کے لیڈروں کا موقف ہے کہ بھٹو نے بھی وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس ہی رکھا تھا، مگر یہ بات کرنیوالے بُھول جاتے ہیں کہ بھٹو صاحب ایک عرصہ تک وزیر خارجہ رہ کر عالمی امور میں مہارت حاصل کرچکے تھے، مگر اس کے باوجود عزیز احمد کو انہوں نے بطور وزیر مملکت برائے امور خارجہ تعینات کر رکھا تھا، جو کہ خود وزارت خارجہ کا طویل تجربہ رکھتے تھے، جبکہ وزیراعظم نواز شریف کا ایسا کوئی پس منظر نہیں، نہ ہی ان کے مشیران سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کو اس شعبہ کے ماہرین میں شمار کیا جاتا ہے۔ سرتاج عزیز اوسط درجے کی ذہانت کے حامل شخص ہیں، جبکہ طارق فاطمی بھی محکمانہ سطح پر محض نوکری پوری کرنیوالے اہلکار ہی شمار کئے جاتے تھے۔ ایسے افراد کی موجودگی میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی کارکردگی کا گراف وہی ہونا تھا جو اس وقت ہے۔

حیرت ہے کہ پاکستان کو درپیش عالمی بحرانوں کے گرداب میں پھنسانے والے ان اداروں کیخلاف سرگرم ہیں، جنہوں نے اب تک قومی سلامتی کو موثر اور ٹھوس حکمت عملی سے سنبھال رکھا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں کے سیلاب میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے بالمقابل مسلم لیگ نون اور ان کے اتحادی مولانا فضل الرحمان کا میدان عمل میں آنا سیاسی کشاکشی مہمیز کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام اپنے مقاصد حاصل کرنے میں یکسر ناکام ہوچکا ہے۔ وطن عزیز اندرونی بیرونی مسائل کے انبوہ میں گھرا عدم استحکام کا شکار ہوئے عالم بے یقینی میں ہے، اس سے نکلنے کا واحد راستہ ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد ہی ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان جاری آویزش بھی اس چیز کی متقاضی ہے کہ پاکستان کی سیاست سے غداران وطن کا پتہ ہمیشہ کیلئے صاف کرنے کیلئے اس کے بھرم کے غبارے سے ہوا نکال دی جائے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے اراکین متحدہ صرف اس کے نام کے محتاج ہیں۔ پاکستان کو موجودہ سیاسی عدم استحکام سے نجات دلانے اور جمہوریت کو مزید مستحکم کرنے کیلئے قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 576365
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
حکومت اپنی مدت پوری کرے گی انشاا... اور ملک دشمن تم جیسے افراد کو منه کی کهانی پڑے گی۔
ہماری پیشکش