0
Friday 21 Oct 2016 16:47

پاک ایران گیس پائپ لائن اور حکومتی ترجیحات(2)

پاک ایران گیس پائپ لائن اور حکومتی ترجیحات(2)
تحریر: عمران خان

پاکستان کو اس وقت چار ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ گیس کے ذریعے بجلی کی پیداوار بڑھانے کی قدرت رکھتا ہے، علاوہ ازیں گیس کی سہل دستیابی سے بجلی پہ انحصار بھی ختم ہوگا۔ پیپلز پارٹی دور حکومت میں پاکستان کے دباؤ پر ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن کی تعمیر ریکارڈ مدت میں مکمل کی، موجودہ حکومت بھی عوامی اور جمہوری حکومت ہے، جو کہ عوامی فلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے ریکارڈ مدت میں اپنے حصے کی لائن تعمیر کرسکتی ہے۔ اس پائپ لائن کی تعمیر سے حکمران جماعت ان الزامات کو بھی رد کرسکتی ہے کہ حکمران جماعت پر مسلکی رنگ غالب ہے، یا کسی عرب ملک کے زیر دباؤ ہے، یا امریکی ڈکٹیشن پر کاربند ہے، یا پاکستان سے زیادہ بھارتی تحفظات کو پیش نظر رکھتی ہے۔ پائپ لائن کی تعمیر و دیگر حوالوں سے بلوچستان اور سندھ کے پسماندہ عوام کے لئے اس منصوبہ میں روزگار کے وسیع مواقع بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں موجود گیس پائپ لائن مین ہوگی اور اس کے بعد اگر کوئی بھی ملک (چین، افغانستان، انڈیا) اس پائپ لائن سے گیس حاصل کرتا ہے تو ٹرانزٹ قوانین کی مد میں پاکستان کو آمدن بھی ہوگی۔

چین کی شمولیت کے بعد پاکستان کو ٹرانزٹ کی مد میں اتنی رقم حاصل ہوگی کہ پاکستان کو حاصل ہونیوالی گیس کی قیمت نصف سے بھی کم ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں ایران کی جانب سے بجلی فراہم کرنے کی آفر بھی موجود ہے، ایران پہلے سے ہی بلوچستان کے کئی علاقوں کو بجلی کی مفت سپلائی جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے علاوہ سرحدی علاقوں میں ایران نے نئے پاور پلانٹس اسی مقصد سے ہی لگائے ہیں کہ ان سے حاصل ہونے والی بجلی پاکستان کو فراہم کی جائے، اس حوالے سے ایران متعدد بار پیش کش بھی کرچکا ہے۔ حکومت پاکستان بلوچستان کے ان دور افتادہ علاقوں کی محرومیوں کو بھی پیش نظر رکھے۔ اگر موجودہ حکومت اس پیش کش سے فوری فائدہ اٹھا کر بلوچستان کے ان دور افتادہ علاقوں تک بجلی فراہم کرتی ہے تو نہ صرف ان کا احساس محرومی کم کرنے میں مدد ملے گی، بلکہ اس احساس محرومی کے نتیجے میں جنم لینے والی شدت پسندی کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اپنی حیثیت، اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے اتنا جامع ہے کہ اسٹریٹجک سٹڈیز کے اداروں نے اس منصوبہ کو ایشین ٹائیگر بننے کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے۔ ایران پائپ لائن کے ذریعے ترکی اور آرمینیا کو بڑی کامیابی سے گیس فراہم کر رہا ہے۔ وطن عزیز کے نام نہاد دوست جو چاہتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ کاسہ لیسی کا شکار رہے، وہ سب سے زیادہ کوشش کر رہے ہیں کہ یہ منصوبہ کسی بھی طور پایہ تکمیل تک نہ پہنچے۔ ڈالر و ریال کی محبت میں گرفتار بعض خود غرض اور ناعاقبت اندیش، مخصوص ذہنیت کے مالک عناصر بھی حیلے بہانوں سے منصوبے کے خاتمے کیلئے سرگرم ہیں، جو کہ پاکستان اور پاک عوام کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پر بات چیت کا آغاز نوے کی دھائی میں ہوا، لیکن اس وقت امریکہ نے اس منصوبہ کے خلاف اتنا زور صرف نہیں کیا، تقریباً 17 سال گزرنے کے بعد جب پاکستان میں توانائی کا بحران شدید ہوگیا اور پاکستان کے لئے یہ منصوبہ ناگزیر ہوگیا تو ایسے وقت میں امریکہ و دیگر دوست نما دشمنوں نے اپنا ردعمل شدید کر دیا۔

بنیادی طور پر اس پالیسی کی بھی دو وجوہات ہیں، اول یہ کہ نام نہاد خیرخواہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان کا اس منصوبے پر زیادہ سے زیادہ توانائی اور وقت صرف ہو اور جب اس منصوبے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے آثار واضح ہوں تو پاکستان کو اس منصوبے سے باز رکھا جائے۔ اسی دباؤ کے زیر اثر ہی جب پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ساٹھ فیصد مکمل ہوچکا ہے تو ’’تاپی‘‘ ’’کاسا‘‘ جیسے منصوبوں سے عوام کو تسلیوں کا لولی پوپ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا حکومت اور ماہرین پر یہ حقیقت عیاں نہیں ہے کہ افغان سرزمین خلفشار و انتشار کا شکار ہے اور امن و استحکام سے کوسوں دور ہے۔ امریکہ و بھارت، اسرائیل سمیت دیگر پاکستان دشمنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، جس ملک کی فضا میں پاکستان کا ہیلی کاپٹر محفوظ نہیں، وہاں سے آنے والی پائپ لائن یا ہائی وولٹیج تاریں کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ باالفاظ دیگر جیسے آج پاکستان کے دریاؤں کا پانی بھارتی تصرف میں ہے، اسی طرح مستقبل میں توانائی ذخائر کا راستہ بھی ناقابل اعتبار قوتوں کے تصرف میں ہوگا۔ آئے روز افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف الزامات عائد کئے جاتے ہیں، حالانکہ افغانستان میں اشرف غنی کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان میں شادیانے بجائے گئے تھے کہ پاکستان دوست حکومت برسراقتدار آئی ہے، مگر اسی دوست حکومت کے دور میں نہ صرف طورخم بارڈر پر میجر علی چنگیزی جیسے نڈر افسروں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا، بلکہ پاکستان میں سرگرم دہشتگردوں کو پہلے سے زیادہ محفوظ اسرائیلی و بھارتی شیلٹر میسر آئے۔

سوال یہ ہے کہ حالات کے اتار چڑھاؤ میں توانائی کا یہ روٹ طالبان، داعش، بھارت نواز دہشتگردوں، اسرائیلی پراکسی، امریکی عناصر اور خود پاکستان مخالف افغان عناصر سے کس حد تک محفوظ ہوگا، لہذا ترکمانستان افغانستان پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن منصوبے اور کرغزستان، پاکستان، قازقستان، افغانستان بجلی منصوبے سکیورٹی خدشات کا شکار رہیں گے۔ خدانخواستہ کسی ایمرجنسی، خاص طور پر جب حالت جنگ میں ہوں تو دشمنوں کیلئے پاکستان کی توانائی کی سپلائی لائن کاٹنا آسان ترین ہوگا۔ چنانچہ ان امور کے پیش نظر موجودہ حکومت کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرکے عوام اور پاکستان دوستی کا ثبوت دینا چاہیئے۔ کوئی بھی جب حالت جنگ میں ہو تو تیل و دیگر توانائی ذرائع کی بلا تعطل فراہمی اس کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جو کہ صرف ایران کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔

پاک ایران گیس منصوبہ پر گذشتہ 17 سال سے کام جاری ہے اور تمام تر معاملات طے پا چکے ہیں، جبکہ ترکمانستان سے ہونیوالے معاہدہ کو ابھی عملی شکل میں لانے کے لئے بھی وسیع عرصہ درکار ہوگا۔ ترکمانستان سے آنیوالی گیس پائپ لائن سے 42 فیصد پاکستان، 42 فیصد انڈیا اور 16 فیصد افغانستان کو حاصل ہوگی۔ ترکمانستان گیس فیلڈ میں گیس کے ذخائر بھی کم ہیں جبکہ ایران کے ساؤتھ پارس گیس فیلڈ میں گیس کے ذخائر زیادہ ہیں، جن میں آئندہ 100 سال میں بھی گیس کی کمی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ عوام اور صنعت کاروں میں بھی غم و غصہ کی شدید لہر پائی جا رہی ہے کہ بنیادی اہمیت کے حامل اہم ترین منصوبے کو مکمل کئے بغیر ناقابل عمل منصوبوں کی تسلیاں کیوں جاری ہیں۔ ایران کے ساتھ گیس و بجلی کے ان کامیاب معاہدات کے بعد پاک ایران ترکی ٹرین سروس پر بات چیت بھی جاری ہونے لگی ہے، جو کہ خطے میں عوامی روابط اور دوستی میں سنگ میل ثابت ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ اللہ اور پاکستانی عوام کی مرضی و منشاء پر اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ اگر توانائی کے معاہدے عوامی ضروریات کے تحت کئے جا رہے ہیں تو ان معاہدات میں عوامی ترجیحات کو فوقیت دینی چاہیے۔
(تمام شد)
خبر کا کوڈ : 577268
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش