5
0
Friday 21 Oct 2016 15:42

آہ مولانا عبدالحسین ناطق۔۔۔ ایک عالم ِدین کی موت اور علماء کی قدردانی

آہ مولانا عبدالحسین ناطق۔۔۔ ایک عالم ِدین کی موت اور علماء کی قدردانی
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

موت کی حقیقت مومن کے لئے بڑی دلکش ہے۔ خصوصاً اگر مرنے والا راہِ حق پر ہو تو موت کا ذائقہ شہد سے بھی زیادہ شیرین ہے۔ موت کافر کے لئے مفید ہے چونکہ اسے دنیا کے فریب سے نجات دیتی ہے اور مومن کے لئے سودمند ہے چونکہ اسے کمالِ مطلق سے وصل کرتی ہے۔ آج ہی مجھے قبلہ مولانا عبدالحسین ناطق کی وفات کی خبر ملی۔ مولانا کسی زمانے میں جامعۃ الرضا اسلام آباد میں تدریس کرتے تھے اور میں نورالھدیٰ کارسپانڈس کورس کے پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ وہیں سے ان سے میری سلام دعا ہوئی، درس و تدریس ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، ہفتہ بھر جامعۃ الرضاؑ میں تدریس کرتے تھے اور جمعرات کو ان کا خصوصی درس اخلاق ہوا کرتا تھا، ایک فاضل شخصیت ہونے کے ناطے ان کے دروس اور مجالس بھی لوگوں میں مقبول تھیں۔ مولانا موصوف کا شمار یقیناً ایسے لوگوں میں ہوتا ہے کہ ان سے عالم ِ باعمل ہونے کی مہک آتی تھی، ان کی طبیعت میں صاف گوئی، لباس میں سادگی، باتوں میں گہرائی، گفتگو میں عمق ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں کئی شاگردوں کی تربیت کی اور کئی لوگوں کے افکار و عقائد کی اصلاح کی۔

آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن ان کی قدردانی ہم سب پر واجب ہے۔ علماء کی قدردانی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں علماء کی اہمیت کو اجتماعی طور پر محسوس کیا جائے۔ ہمارے ہاں کسی ایسے  مصدقہ ادارے کا وجود انتہائی ضروری ہے، جو عالمِ دین  کے عنوان کا معیار طے کرے اور پھر اس معیار کے اوپر جو لوگ پورے اتریں ان کی تمام تر رفاہی و فلاحی ضروریات کو بطریق احسن پورا کیا جائے، مثلاً ایک مرکز جب کسی کو عالمِ دین کا عنوان دیدے تو اس عالم دین کے بچوں کے تعلیمی اخراجات، بیمار ہونے کی صورت میں بیمہ پالیسی، فوتگی یا حادثے کی صورت میں خصوصی امداد، بچوں اور بچیوں کی شادی کے لئے سپورٹ، حج و زیارات کے لئے کوٹہ، ریٹائرمنٹ کی عمر میں باعزت مدد، بلاجواز گرفتاری کی صورت میں قانونی چارہ جوئی، شرپسند عناصر کی طرف سے تحفظ، کسی عالم دین کی فوتگی کی صورت میں اس کی علمی میراث کو منظر عام پر لانا۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔  ان سارے مسائل کے حل کے لئے ایک قومی سطح کے ادارے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو دین و ملت کی خدمت کرنے والے علمائے کرام کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اپنے فریضے کو انجام دے۔ جس طرح دینی مدارس اور اداروں کو چلانا ایک بڑی ذمہ داری ہے، اسی طرح دینی مدارس اور اداروں کو چلانے والے علماء کی مشکلات کو سمجھنا اور حل کرنا بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔

ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ علمائے کرام بھی ہماری طرح کے انسان ہیں، وہ بھی بیمار ہوتے ہیں، حادثات کا شکار ہوتے ہیں، انہیں بھی اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں، انہوں نے بھی بچوں کی شادیاں کروانی ہوتی ہیں۔۔۔ اُن کی یہ ساری ضروریات بھی ایک منظم سسٹم کے تحت باعزت طریقے سے پوری ہونی چاہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ سب کچھ انتہائی احسن انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔ ایران کی طرح اس وقت ہمارے ہاں کے تمام دیندار اور فعال حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر اس سلسلے میں بھی سوچیں اور علمائے کرام سے مشورہ کرکے کسی ایسے ادارے کی بنیاد رکھیں، جو علمائے کرام کی سرپرستی میں ہی علمائے کرام کی مشکلات کو حل کرنے کی ذمہ داری انجام دے۔ ہمارے معاشرے میں انسانیت اور دینداری کی جو شمع بھی ٹمٹما رہی ہے، وہ علمائے کرام کی جدوجہد اور خلوص کا نتیجہ ہے۔ علمائے کرام نے اپنی زندگیاں صرف کرکے ہمیں انسان اور دیندار بنایا ہے، اب یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم لفظی تعزیت اور ظاہری اظہار ہمدردی کے بجائے حقیقی معنوں میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی سوچیں۔ یاد رکھئے! علماء کرام ہمارے محسن ہیں اور سمجھدار لوگ اپنے محسنوں کو بھلایا نہیں کرتے۔
خبر کا کوڈ : 577286
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
شکریہ
بہت اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ خدا آپ کی قلمی و علمی توفیقات میں مزید ضافہ فرمائے۔
Ahsan
United Kingdom
Very nice suggestions regarding our duties for supporting Ulama e Haq
عادل
Iran, Islamic Republic of
زبردست
عرفان
Pakistan
ماشاء اللہ۔ بہت ہی اہم پہلو جسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سبھی یاد رکھیں اور آخری پیراگراف کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ خدا ہم سب کو یہ توفیق عطا فرماٴئے۔
Iran, Islamic Republic of
بہت اہم مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
ہماری پیشکش