0
Saturday 22 Oct 2016 21:39

دوسری کولڈ وار، دشمن کون؟

دوسری کولڈ وار، دشمن کون؟
تحریر: سید اسد عباس

قریباً گذشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مسلمان ریاستوں کے خلاف منصوبے بنانے والے، ان پر براہ راست حملے کرنے والے، اچانک سے خاموش کیوں ہوگئے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو مجھے کئی دنوں سے بے چین کئے ہوئے ہے۔ اگر خلافت عثمانیہ کے زوال سے ابتداء کریں تو اس گروہ نے پہلے پہل اسلامی ریاست کے حصے بخرے کئے، چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ان ممالک کے وسائل کو لوٹا، پھر یہاں کے مقامی افراد سے معاہدے کرکے انکو ان ممالک کا حاکم بنایا، تاکہ ہمارے انخلا کے بعد بھی وسائل کی ترسیل کا سلسلہ چلتا رہے۔ فلسطین پر شب خون مارا، عربوں کے کیل کانٹے مختلف جنگوں میں نکالے، پھر ان شکست خوردہ ممالک سے امن معاہدے کئے، اسرائیلی ریاست کے وجود کو تسلیم کروایا اور تو اور اب تو خود عرب اس شش و پنج میں پڑ چکے ہیں کہ اسرائیلی اس زمین کے اصل مالک ہیں یا ہم؟ جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ اسی سبب اب تقریباً سبھی عرب ریاستوں نے اسرائیل کے حق حکومت و ریاست کو قبول کر لیا ہے، بس شرم کے مارے اس کا اعلان نہیں کرتے۔ شرما کس سے رہے ہیں، اس کا پتہ کرنا باقی ہے، شاید اپنے عوام سے یا شاید اپنی اسرائیل سے جنگوں کی تاریخ سے۔ بہرحال ابھی کچھ ایسا ہے جس کی پردہ داری ہے۔

دنیا پر تسلط کے خواب دیکھنے والا یہ گروہ عرب دنیا سے نمٹنے کے بعد ایک نئی طاقت یعنی کیمونزم کی جانب متوجہ ہوا۔ دین، ایمان، قوم، غیرت کے نام پر عرب دنیا سے بالخصوص اور عالم اسلام سے بالعموم مجاہدین کو اکٹھا کیا اور اپنے دشمن یعنی سوویت یونین کے خلاف لڑا دیا۔ یعنی ایک دشمن کو دوسرے دشمن سے الجھا دیا اور خود بیٹھ کر تماشا کئے۔ جب سوویت یونین حزیمت کا سامنا کرچکا تو پھر اپنے پہلے دشمن کی جانب متوجہ ہوئے، یعنی اب جو مسلمان مجاہد اکٹھے کر لئے گئے تھے اور جن کے ذریعے ایک سپر پاور کو شکست دی تھی، ان کو ٹھکانے لگانے کا وقت آگیا۔ نائن الیون نام کی ایک بلا سے استفادہ کیا گیا اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ نہ فقط افغانستان، عرب اور مسلمان مجاہدوں کا پیچھا دنیا کے ہر کونے میں کیا گیا بلکہ دنیا بھر سے مجاہد پکڑ کر عقوبت خانوں میں پہنچا دیئے گئے اور کئی ایک کو راہی عدم کیا گیا۔ کیا کوئی دوستوں کے ساتھ بھی بھلا ایسا رویہ رکھتا ہے۔؟ کل ریگن ان کو جنگ آزادی امریکہ کا ہیرو قرار دیتا تھا، جو نائن الیون کے بعد دہشت گرد بن گئے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے، ان میں سے جو دوست تھے وہ دوست ہی رہے، جن سے دشمنی نکالنی تھی، ان کی خوب درگت بنی۔ افغانستان کے بعد ایک ایسے دوست کا رخ کیا جو ایک ملک کا سربراہ بھی تھا۔ وہاں اس گروہ کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نظر آنے لگے، جو اس گروہ نے کچھ عرصہ قبل خود اپنے دوست کو دیئے تھے، تاکہ وہ انہیں مشترکہ دشمن یعنی ایران کے خلاف استعمال کرے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تو بچے نہ تھے کہ دستیاب ہوتے، تاہم عراق کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ صدام کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور عراق کے وسائل ایک مرتبہ پھر اس گروہ کے رحم و کرم پر آگئے۔

عراق پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد ایسا لگنے لگا جیسے استعماری گروہ خاموش ہوگیا ہے، یعنی اس نے مزید کسی ملک پر براہ راست حملے سے توبہ کر لی ہے، بس چھوٹی چھوٹی کارروائیاں دنیا کے مختلف خطوں میں چلتی رہتی ہیں، جیسا کہ ڈرون حملے، ہلکی پھلکی میزائل باری۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے استعمار اپنی جارحانہ حرکات سے باز آگیا یا ان میں ویسی شدت نہیں رہی جیسی نائن الیون کے بعد دیکھنے میں آئی۔ بات کسی قدر درست بھی ہے۔ اب آپ کو امریکہ، برطانیہ یا نیٹو کا کوئی ملک دنیا کے کسی خطے میں کسی جنگ کی سربراہی کرتا نظر نہیں آئے گا، جیسا کہ افغانستان اور عراق پر حملے کے وقت ہوئی۔ نہ ہی ہا ہو کا وہ عالم ہے جو اس دور میں رہا۔ اس سے کیا مراد لی جائے، امریکہ اور برطانیہ اپنی غلطیوں پر نادم ہیں یا انہوں نے تاریخ سے سبق لے لیا۔ میرا خیال ہے یہ خام خیالی ہے۔ ان کے وزیر اعظم یا سربراہ مملکت عراق حملے پر ہونے والی تحقیق کے حوالے سے اپنے جرم کا اعتراف تو کرتے ہیں، مگر ساتھ ساتھ اسے اجتہادی غلطی بھی قرار دیتے ہوئے اپنی گردن بچا کر بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔

ان کے سکیورٹی ادارے یعنی وہی آلات جن کے سبب ٹونی بلیئر اور جارج ڈبلیوز سے اجتہادی غلطی ہوئی، اب مشرق وسطٰی میں ایک نیا کھیل رچا رہے ہیں۔ عرب بہار کا نام تو یقیناً آپ نے سنا ہوگا، یہ واقعی عرب بہار تھی، جس میں کچھ پرانے مہرے اور خزاں رسیدہ پتے جھاڑے گئے، تاکہ نئی پنیری کاشت کی جاسکے۔ تیونس، لیبیا، مصر میں یہ پنیری نہایت چابکدستی اور ہنر مندی سے کاشت کی گئی، تاہم شام اور یمن میں اس نئی پنیری کی کاشت میں کافی مشکلات کا سامنا ہوا۔ اس یمن اور شام کا علاج بھی اس استعماری ٹولے کے پاس موجود تھا، جی وہی پرانے دوست جو سوویت یونین کے خلاف کام آئے تھے، کو دوبارہ میدان میں اتارا گیا۔ اب استعمار کو بھلا بولنے کی کیا ضرورت ہے، کسی سے براہ راست جنگ کرنے کی کیا پڑی ہے۔ یہ امریکا اور استعماری قوتوں کی دوسری کولڈ وار ہے، جس میں اس کا دشمن اسلام کا وہ چہرہ ہے، جو عالمی استکبار کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ پہلی کولڈ وار بھی ایک نظریہ اور فکر کے خلاف تھی، جس کا پرچارک سوویت یونین تھا اور دوسری کولڈ وار بھی ایک نظریہ اور فکر کے خلاف ہے، جس کا سرخیل یقیناً ایران ہے۔ پہلی کولڈ وار کے سبھی کھلاڑی دوسری کولڈ وار میں بھی اسی پوزیشن پر کھیل رہے ہیں، جس پوزیشن پر انہوں نے پہلے ذمہ داریاں انجام دی تھی، ہاں پاکستان کی جگہ ترکی اور اردن نے لے لی ہے۔ اب ترکی اور اردن کے اگلے تیس سالہ حالات کا اندازہ لگانا ہم پاکستانیوں کے لئے مشکل نہیں ہے۔

پہلی کولڈ وار میں سوویت یونین کو شکست عسکری میدان پر نہیں ہوئی بلکہ اس کی معیشت نے اس کی لٹیا ڈبو دی۔ جنگ کے ساتھ اتحادی ریاستوں کا بوجھ اٹھانا ممکن نہ رہا، نتیجتاً جنگ بھی ختم ہوئی اور سوویت یونین بھی ختم ہوا۔ دوسری کولڈ وار میں بھی معیشت کا اہم کردار ہے۔ اس جنگ سے یقیناً خطے کے ہر ملک پر معاشی دباؤ بڑھا ہے، سعودیہ، قطر، امارات، ترکی، ایران، عراق سبھی ممالک تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں اور جنگ پر آنے والے اخراجات کے سبب مشکلات کا شکار ہوئے ہیں۔ اس جنگ کا دورانیہ جس قدر طولانی ہوگا، اسی قدر اس کے اثرات خطے میں نظر آنے لگیں گے۔ بالآخر سوویت یونین والے حالات خطے کے ممالک کو درپیش ہوں گے۔ یہ اثرات تقریباً ظاہر ہونے شروع ہوچکے ہیں۔ سعودی بجٹ کا خسارہ، مراعات میں کمی، اثاثوں کو ہتھیانے کی کوششیں، ان اثرات کا ابتدائیہ ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ جب گھی سیدھی انگلی سے نکل آئے تو انگلی ٹیڑھی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ استعمار کا گھی سیدھی انگلی سے ہی نکل رہا ہے، لہذا اس کی مسلسل خاموشی قطعاً بھی تعجب آمیز نہیں ہے۔ استعمار کی انگلی اسی وقت ٹیڑھی ہوگی، جب گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلے گا۔
خبر کا کوڈ : 577670
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش