0
Monday 24 Oct 2016 23:01

موصل اور داعش کے ذریعے امریکی گیم

موصل اور داعش کے ذریعے امریکی گیم
تحریر: حامد رحیم پور

عراق کے شہر موصل کو داعش کے قبضے سے آزاد کروانے کیلئے عراق آرمی، پیشمرگ کرد فورسز اور حشد الشعبی (عوامی رضاکار فورس) کا مشترکہ آپریشن شروع ہو چکا ہے۔ یہ فورسز چاروں شمت سے تیزی سے موصل کی جانب پیشقدمی کر رہی ہیں۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق اس وقت تک 8 قصبے داعش سے آزاد کروا لئے گئے ہیں اور عراق آرمی موصل سے 6 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ چکی ہے۔ دوسری طرف دہشت گرد گروہ داعش نے اپنے دفاع کیلئے بڑے پیمانے پر زیر زمین سرنگیں کھود رکھی ہیں جنہیں دہشت گرد پناہ حاصل کرنے اور اسلحہ اور افرادی قوت کی منتقلی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض سرنگیں اس قدر وسیع ہیں کہ ان سے موٹر سائیکل بھی گزارا جا سکتا ہے اور داعش سے وابستہ دہشت گرد آسانی سے موصل شہر سے قریبی قصبوں کی جانب فرار کر سکتے ہیں۔ داعش کی قید سے آزاد ہونے والے ایک شخص نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ داعش نے اسے اور دیگر قیدیوں کو موصل شہر میں سرنگیں کھودنے پر لگایا ہوا تھا جن کی تعداد کم از کم 12 تھی۔ سیکورٹی اور فوجی ماہرین کے مطابق موصل آپریشن کی تکمیل میں 2 سے 5 ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ درحقیقت موصل میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی شکست اس کے زوال میں تیزی کا باعث بنے گی اور اس کی حتمی شکست کا سلسلہ شروع ہو جائے گی جس کے نتیجے میں خطے میں ایک "سلفی جہادی سلطنت" کا خواب چکناچور ہو جائے گا۔ لہذا داعش اور داعش مخالف قوتیں دونوں اچھی طرح اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہ آپریشن ایک فیصلہ کن آپریشن ہے۔ موصل کی اہمیت کے مختلف پہلو ہیں جنہیں جانے بغیر اس آپریشن کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ پہلو درج ذیل ہیں:

الف)۔ جیو اقتصادی اہمیت: موصل اور اس کے اردگرد کا علاقہ قدرتی معدنیات اور خام تیل کے ذخائر سے مالامال ہے۔ یہ ذخائر طاقت کا سرچشمہ اور عراق میں جاری کشمکش کی اصلی وجہ قرار دیئے جاتے ہیں۔ مزید برآں، موصل میں ایک بڑا ڈیم موجود ہے جو پانی کا وسیع ذخیرہ ہے اور عراق کے دیگر حصوں میں اسی ڈیم کے ذریعے پانی کی ترسیل انجام پاتی ہے۔ اسی طرح موصل کا علاقہ اپنی زرخیز زمین اور بارش کی مناسب شرح کے باعث زراعت کا مرکز جانا جاتا ہے اور عراق میں غذائی ضروریات کا بڑا حصہ یہیں سے پورا کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف موصل عراق کا صنعتی شہر تصور کیا جاتا ہے جہاں کپڑا، لائیوسٹاک، پیٹرو کیمیکل اور دیگر کارخانے موجود ہیں۔ موصل میں غلات کا بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ لہذا موصل کی آزادی عراق میں موجود اقتصادی بحران پر قابو پانے میں انتہائی مددگار ثابت ہو گی۔

ب)۔ جیو اسٹریٹجک اہمیت: شام کی سرحد کے قریب واقع ہونے کے ناطے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش، موصل شہر کو عراق اور شام کے درمیان اپنے جنگی وسائل اور دہشت گردوں کی منتقلی اور لاجسٹک سپورٹ کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ دوسری طرف عراقی آئین کی شق نمبر 140 کے مطابق موصل کا علاقہ عراقی حکومت اور خودمختار کرد ریاست کے درمیان مشترکہ اور متنازعہ علاقہ ہے لہذا موصل کی آزادی کے بعد عراق آرمی اور کرد پیشمرگ فورسز داعش کے خلاف مشترکہ کاروائیاں کر سکیں گی۔

ج)۔ جیو کلچرل اہمیت: موصل ایک ایسا شہر ہے جہاں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد زندگی بسر کر رہے ہیں جن میں کرد، شیعہ اور سنی عرب، ترکمن، آشوری، ایزدی، عیسائی اور یہودی شامل ہیں۔ یہ ثقافتی تنوع عراق کے سیاسی مستقبل کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کے باعث یہ علاقہ انتہائی جیو کلچرل اہمیت رکھتا ہے۔

د)۔ سیاسی اہمیت: صوبہ نینوا عراق کا دوسرا بڑا صوبہ ہے جس کا دارالحکومت موصل ہے۔ اسی طرح موصل عراق کا دوسرا بڑا شہر ہے لہذا عراق کے سیاسی میدان میں سرگرم گروہوں اور جماعتوں کیلئے بہت زیادہ سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران موصل کے بعض سنی عرب رہنماوں نے یہ مسئلہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ داعش کے قبضے سے ممکنہ آزادی کے بعد وہ صوبہ نینوا کو ایک خودمختار صوبے کے طور پر متعارف کروائیں گے۔ یہ رہنما موصل کی آزادی کیلئے جاری آپریشن میں عوامی رضاکار فورس (حشد الشعبی) کی شرکت کے شدید مخالف تھے۔ لہذا بعض سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ موصل کی آزادی سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل مرحلہ آزادی کے بعد والا مرحلہ ہو گا۔

موصل شہر کی آزادی کیلئے شروع ہونے والے عظیم فوجی آپریشن کے کچھ گھنٹے بعد ہی ترکی کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ ترکی نے عراق کی سرحد پر فوج تعینات کر دی ہے۔ ترکی کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ ترک حکومت موصل آپریشن میں مداخلت کا ارادہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں عراقی حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات مزید کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے تقریر کرتے ہوئے عجیب و غریب موقف اختیار کیا اور کہا: "کوئی چاہے یا نہ چاہے ہم موصل کی آزادی کیلئے جاری آپریشن میں شرکت کریں گے"۔ ان کے اس بیان سے ان رپورٹس کو مزید تقویب ملتی ہے جن میں اس امکان کا اظہار کیا گیا ہے کہ ترک حکومت خودمختار کرد علاقے کے سربراہ بارزانی اور عراقی کے بعض سنی سیاست دانوں خاص طور پر النجیفی خاندان سے خفیہ معاہدہ انجام دے چکی ہے۔ ان رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت یہ طے پایا ہے کہ کرد پیشمرگ فورسز ترکی اور النجیفی کی وفادار فورسز کی مدد سے موصل کے مشرق میں داخل ہوں گی اور موصل کو تین حصوں یعنی کردی، عربی اور اقلیتوں کے حامل حصے میں تقسیم کر دیا جائے گا جبکہ ان تینوں حصوں کا کنٹرول نجیفی خاندان کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کو واشنگٹن، سعودی عرب اور ترکی کی حمایت حاصل ہے جبکہ اس کا مقصد اس علاقے پر عراق کی مرکزی حکومت کا کنٹرول کم کرنا اور بین الاقوامی طاقتوں کے زیر کنٹرول تقریبا خودمختار ریاست معرض وجود میں لانا ہے۔

بیروت میں واقع کارنیگی سینٹر کے ماہر یزید صانعی کا کہنا ہے: "اب ہم کہہ سکتے ہیں ایک ایسا گروہ موجود ہے جسے داعش کے خلاف فاتح گروہ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ پیشمرگہ فورسز ایسے علاقوں کی جانب پیشقدمی کر رہی ہیں جو پہلے عراقی حکومت کے زیر کنٹرول تھے۔ کردستان اتھارٹی کی کوشش ہے کہ ایسے علاقوں کو اپنے کنٹرول میں واپس لے لے جن کے کم از کم 50 فیصد حصے پر ان کا قبضہ تھا"۔ کرد رہنماوں کے یہ منصوبے انتہائی خطرناک نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔ موصل شہر کی آبادی کا بڑا حصہ اہلسنت عرب شہریوں پر مشتمل ہے۔ اگر کرد موصل پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں سنی عرب شہریوں اور کردوں کے درمیان نیا تنازعہ معرض وجود میں آ جائے گا۔ ماضی بعید میں ترکی بھی موصل کے نواح میں چند علاقوں پر اپنی ملکیت کے دعوے کرتا آیا ہے۔ نئے تنازعے کا آغاز ان علاقوں میں ترکی کا اثرورسوخ بڑھنے یا اس کے حمایت یافتہ افراد کے آگے آنے کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکی ویب سائٹ "المانیٹر" کے مطابق عراقی ترکمن شہری جو ترک نژاد عراقی ہیں نے بھی خودمختاری کا مطالبہ پیش کر دیا ہے۔ رجب طیب اردگان بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ حشد الشعبی موصل کو داعش کے قبضے سے چھڑوانے کے بعد وہاں نہیں رکے گی اور اس شہر کا کنٹرول مرکزی اور مقامی حکام کے حوالے کر دے گی۔ لیکن موصل کے خلاف آپریشن میں ان کی شرکت کا مطلب خطے میں ایک جدید فوجی طاقت کا ظہور ہے جبکہ عراق میں داعش کے آخری ٹھکانے کے خلاف فیصلہ کن معرکے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی بڑی فتح بھی شمار ہوتی ہے۔ دوسری طرف ترکی کی جانب سے موصل میں فوجی مداخلت ایک نیا علاقائی بحران پیدا کر سکتی ہے۔

داعش کو موصل سے شام منتقل کرنے کی امریکی سازش:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عاشورہ کے روز تقریر کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ امریکہ موصل میں موجود داعش کے اہم کمانڈرز اور دہشت گرد عناصر کو شام منتقل کرنے کی سازش بنا رہا ہے۔ اس منتقلی کا مقصد تکفیری دہشت گرد عناصر کو محفوظ بنانا اور مستقبل میں مناسب موقع پر ان کے ذریعے دوبارہ عراق میں بدامنی پھیلانا ہے۔ اسی طرح روسی خبررساں ادارے "ریانوویسٹی" کے مطابق امریکہ نے داعش کے حامی ممالک کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ 9 ہزار دہشت گردوں کی موصل سے شام منتقلی اور انہیں شام کے شہروں پالمیرا اور دیرالزور پہنچانے میں ان کی مدد کرے گا۔ اگر بالفرض ریانوویسٹی کی یہ خبر درست ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ شام کے مشرقی حصے میں داعش سے وابستہ دہشت گردوں کی منتقلی کے ذریعے بعض مختصر مدت اور طولانی مدت اہداف کے حصول کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکہ کے مختصر مدت کے اہداف میں شام کی مسلح افواج کو صوبہ دیرالزور میں مصروف کرنا اور ایک تھکا دینے والی جنگ کے آغاز کیلئے اس صوبے میں ایک نیا محاذ کھولنا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد شام کے مشرقی حصے میں بدامنی اور بحران کو برقرار رکھنا ہے خاص طور پر موجودہ حالات میں جب النصرہ فرنٹ حلب میں ناکہ بندی کا شکار ہو کر شدید دباو میں ہے۔ امریکہ شام کے صوبے دیر الزور میں داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر گھسا کر ایک طرف اس خطے میں داعش کی موجودگی اور اس کی سرگرمیوں کو بڑھا کر پیش کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف اپنے لئے اس خطے میں فوجی مداخلت کا مناسب بہانہ فراہم کرنے کے درپے ہے۔ امریکی صدر براک اوباما کی مدت صدارت کا آخری سال ہے لہذا وہ شام آرمی اور شام کی دیگر حامی قوتوں سے براہ راست ٹکر نہیں لینا چاہتے لہذا اس مقصد کیلئے داعش کے دہشت گردوں کو استعمال کر رہے ہیں۔

شام کے مشرقی حصے خاص طور پر صوبہ دیر الزور میں داعش گھسانے سے امریکہ کے طولانی مدت اہداف بھی وابستہ ہیں۔ امریکہ اس اقدام کے ذریعے شام کے ان حصوں پر اپنے حمایت یافتہ کرد گروہوں کا تسلط قائم کرنے کیلئے مناسب زمینہ فراہم کرنا چاہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شام میں سرگرم کرد گروہ امریکی اتحادی تصور کئے جاتے ہیں اور امریکہ انہیں اپنا بااعتماد کھلاڑی جانتا ہے۔ اسی طرح امریکہ شام کے ان علاقوں پر نو فلائی زون بنانے کا بھی منصوبہ رکھتا ہے۔ اس منصوبے پر عمل پیرا ہو کر امریکہ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈھنڈورا پیٹے گا اور دوسری طرف شام میں طاقت کے توازن کو ایک حد تک اپنے مفاد میں تبدیل کر دے گا۔ امریکہ ان علاقوں پر اپنے حمایت یافتہ کرد گروہوں کو مسلط کر کے سفارتی میدان میں مدمقابل قوتوں سے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کرد گروہوں کے ذریعے کس حد تک شام کے صوبے دیر الزور کو داعش کے قبضے سے آزاد کروانے میں کامیاب ہو گا؟ البتہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ داعش کو جو نئی ذمہ داری سونپی گئی ہے یعنی شام آرمی پر دباو ڈال کر اسے پسپائی مجبور کرنا، اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہو گا تاکہ امریکی حکومت اور اس کے اتحادی ممالک ایک بار پھر داعش سے مقابلے کا بہانہ بنا کر ان علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر سکیں۔ اگرچہ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موصل شہر عراق میں داعش کا آخری ٹھکانہ ہے لیکن موصل کی آزادی کے بعد عراق، شام اور خطے کی صورتحال سے متعلق شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 578202
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش