1
0
Wednesday 26 Oct 2016 09:45

سانحہ کوئٹہ، وزیر داخلہ کی دہشتگردوں کے "بابا" سے ملاقات اور تحریک انصاف

سانحہ کوئٹہ، وزیر داخلہ کی دہشتگردوں کے "بابا" سے ملاقات اور تحریک انصاف
تحریر: تصور حسین شہزاد

کوئٹہ میں واقع پولیس ٹریننگ کالج پر دہشت گردوں کے حملے میں پولیس کے 62 اور 2 فوجی اہلکار شہید جبکہ 120 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے۔ یہ حملہ پیر کی شب رات 10 بجے کے قریب کیا گیا جب 2 خودکش حملہ آووروں سمیت 3 دہشتگردوں نے سریاب پولیس ٹریننگ سنٹر کو نشانہ بنایا۔ کوئٹہ پولیس کے آپریشن روم سے حاصل ہونیوالی معلومات کے مطابق ہلاک شدگان میں 60 پولیس اہلکار اور ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والے 2 فوجی افسر شامل ہے۔ پولیس حکام نے زخمیوں کی تعداد 124 بتائی ہے، جن میں ریسکیو آپریشن میں شامل 4 فوجی اور 2 ایف سی کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے 20 کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ وزیراعلٰی بلوچستان ثناء اللہ زہری کا کہنا ہے کہ انہیں چند روز قبل اطلاع موصول ہوئی تھی کہ کچھ دہشت گرد کوئٹہ شہر میں داخل ہوچکے ہیں۔ جس کے بعد پورے شہر میں ہائی الرٹ تھا، جس کی وجہ سے دہشتگردوں کو شہر کے اندر واردات کا موقع نہیں ملا تو وہ شہر سے باہر تربیتی مرکز تک پہنچ گئے۔ یاد رہے کہ یہ تربیتی مرکز شہر سے 15 کلو میٹر دور واقع ہے اور خاصے بڑے رقبے پر محیط ہے۔ اس کا رقبہ دو اڑھائی سو ایکڑ ہے۔ جہاں رات کے وقت خصوصاً سردیوں کا فائدہ اٹھا کر کوئی بھی گھس سکتا ہے۔ جو اپنی جگہ فکر انگیز بات ہے۔

یہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب ملک بھر میں خصوصاً بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی وجہ سے سکیورٹی کے مزید سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ تاہم بلوچستان حکومت کے ترجمان کے مطابق مذکورہ پولیس سنٹر پر حفاظتی انتظامات مثالی نہیں تھے جو اپنی جگہ جواب طلب مسئلہ ہے۔ بلوچستان عرصہ دراز سے بھارتی ایجنسی را کی مذموم سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ سی پیک منصوبے کے حوالے سے ملنے والی بھارتی دھمکیوں کے تناظر میں اس صوبے کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے نہ صرف اقتصادی راہداری کے ٹریک اور اس کے راستے میں آنے والے سارے علاقے کی سکیورٹی انتہائی اعلٰی درجے کی فل پروف ہونی چاہئے تھی، چہ جائیکہ ہم دہشتگردی کی ممکنہ واردات کی اطلاع ملنے کے بعد بھی صرف اپنے گردوپیش تو حصار کھینچ لیں مگر عوام الناس کو خدا کے سہارے پر چھوڑ دیں۔ بلوچستان کا یہ تربیتی مرکز لاہور کے مناواں مرکز سے مماثلت رکھتا ہے، جبکہ سکیورٹی کے نقطہ نظر سے حفاظتی اقدامات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو ہمیں پورے ملک کی مماثلت رکھنے والی جگہوں اور وہاں ہونیوالے غیر معمولی واقعات کو بھی مدنظر رکھ کر سکیورٹی پلان بنانا چاہیے۔ جس کی کوئٹہ مرکز میں کمی پائی گئی اور اسی چیز کا فائدہ اٹھا کر دہشتگردوں نے اتنا بڑا جانی نقصان پہنچا کر ہمارے اس دعوے کو شدید دھچکا پہنچایا کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔

اس واقعہ کے بعد تو یوں لگتا ہے کہ دہشت گردی کی جڑیں بظاہر زیر زمین سفر کرتی پورے ملک میں پھر سے نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ جن کی مکمل بیخ کنی کیلئے ابھی ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کے بیان کا ہی جائزہ لیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اتنے بڑے مرکز کی حفاظت کیلئے عقبی دروازے پر صرف ایک سکیورٹی اہلکار ہی تعینات تھا۔ رات گئے دہشتگرد واچ ٹاور پر حملہ کرکے اسے مارنے کے بعد دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوگئے۔ آئی جی ایف سی کے مطابق حملہ آوروں کا تعلق کالعدم تنظیم "لشکر جھنگوی العالمی" سے تھا اور انہیں افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے کہ کچھ پولیس اہلکار بھی حملہ آوروں سے ملے ہوئے ہوں، انہوں نے اس واقعہ میں غیر ملکی سکیورٹی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا۔ البتہ اعتراف کیا ہے کہ اس حملے میں سکیورٹی میں کسی نقص کا احتمال بھی ہوسکتا ہے، تاہم اس بارے میں تحقیقات کی جائیں گی۔

لشکر جھنگوی العالمی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، لشکر جھنگوی کی ہی برانچ ہے جو خود سپاہ صحابہ کی کوکھ سے پیدا ہوئی تھی۔ لشکر جھنگوی العالمی کے بارے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا تحریک طالبان جماعت الاحرار کی طرح سرگرم ہونے کی کوئی خبر نہیں، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حملہ کراچی اور پنجاب میں شدت پسندوں کیخلاف جاری کارروائیوں کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ لشکر جھنگوی العالمی نے کوئٹہ میں جنوری 2013ء میں ایک حملے میں 92 جبکہ فروری میں ایک بازار پر حملے میں 81 افراد کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ ان حملوں میں مرنے والوں کی اکثریت شیعہ ہزارہ برادری کے افراد کی تھی، ایک بڑی سکیورٹی تنصیب کو نشانہ بنا کر تنظیم نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اب بھی اس طرح کی کارروائیوں کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ہماری قومی سلامتی کے اداروں کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ شدت پسندوں کی اپنی صفوں میں موجودگی سے ہم اعراض نہیں برت سکتے، اس ضمن میں فی الفور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔

کچھ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس حوالے سے طالبان وفد کی اسلام آباد آمد اور کالعدم جماعت کے سربراہ کی اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے ملاقات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف کی مرکزی رہنما ڈاکٹر شریں مزاری نے بھی اپنے ٹویٹ میں واضح لکھا ہے کہ وزیر داخلہ سے کالعدم جماعت کے سربراہ کا ملنا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کچھ مذہبی رہنماؤں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے چودھری نثار نے تحریک انصاف کا دھرنا رکوانے کیلئے کالعدم تنظیم کے رہنما کو دہشتگردی کروانے کا ٹاسک دے دیا ہو، کیونکہ کالعدم جماعت کے سربراہ نے "بابائے طالبان" کی قیادت میں چودھری نثار سے ملاقات کی تھی۔ اب طالبان کا "ابا" اگر انہیں دہشتگردی کا حکم دے تو کیسے ممکن ہے کہ واردات نہ ہو۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے تو یہاں تک کہہ دیا ہےکہ اگر اس واقعہ میں را ملوث ہے تو حکومت کھل کر اس کی مذمت کیوں نہیں کرتی؟ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کہتے ہیں کہ ہم جب بھی احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو دہشتگردی کے واقعات شروع ہو جاتے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں کو اس پہلو کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 578450
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
نواز شریف جیسے را کے ایجنٹ ملوث لگتے هیں
ہماری پیشکش