Thursday 10 Nov 2016 05:32
تحریر: عرفان علی
امریکا کے صدارتی الیکشن پر اس کے سب سے بڑے اتحادی ملک برطانیہ کے روزنامہ ڈیلی ٹیلیگراف (9نومبر) کی خبر کا پہلا جملہ یہ تھا کہ جب آج برطانیہ جاگا تو ڈونالڈ ٹرمپ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا اگلا صدر منتخب ہوچکا تھا اور دنیا کا ردعمل صدمے اور عدم یقین پر مبنی تھا۔ دنیا کے سیاسی قائدین اور جگ مشہور شخصیات مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کے اظہار میں متحد ہوچکے تھے۔ امریکا میں متعین فرانسیسی سفیر جیراڈ اراؤڈ نے ٹویٹ پیغام میں مایوسی اور تباہ ہوتے ہوئے عالمی نظام کی بات کی، لیکن تھوڑی دیر بعد اس ٹویٹ پیغام کو ڈیلیٹ کر دیا۔ ان کے فرانسیسی ٹویٹ کا اردو ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے کہ بریکزٹ اور اس الیکشن کے بعد اب ہر چیز ممکن ہے۔ یہ ایک دنیا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے (دھڑام سے) گر رہی ہے۔ چکر۔(یعنی چکرا گیا ہوں!)۔ امریکی و یورپی اخبارات و جرائد میں بھی صدمہ، سانحہ، دھچکہ اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی پر مبنی سرخیوں کے ساتھ ٹرمپ کی جیت اور ہیلری کلنٹن کی شکست کی خبریں، تجزیے و تبصرے شایع ہوئے ہیں۔ یہ ہے امریکی صدارتی الیکشن کے بعد کی دنیا کی تازہ ترین صورتحال۔ 10 نومبر علی الصبح جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تب تک امریکا و برطانیہ کے ذرایع ابلاغ میں صدارتی الیکشن کے نتائج یہ ہیں کہ الیکٹورل کالج کے کل 538 ووٹوں میں سے ٹرمپ کے انتخاب کنندگان کو 279 ووٹ مل چکے ہیں جبکہ ہیلری کلنٹن کے انتخاب کنندگان کو 228 ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ابھی 31 ووٹوں کا اعلان باقی ہے لیکن پاکستان کے نیوز چینل نیوز ون نے مزید دس ووٹ ٹرمپ کے حق میں نشر کر دیئے ہیں۔
99% ووٹوں کی گنتی کے بعد ووٹرز کے ووٹ کی اکثریت ہیلری کو حاصل ہے۔ افسردہ ہیلری نے دردناک شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس کے اثرات سے باہر آنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کے الفاظ میں وہ نتیجہ تو نہیں آیا جو انہوں نے چاہا تھا لیکن وہ ٹرمپ کو اگلا صدر تسلیم کرتی ہیں اور انہوں نے ٹرمپ کو فون کرکے مبارکباد بھی دی۔ ٹرمپ اور صدر اوبامہ کی بھی فون پر بات چیت ہوئی اور جمعرات 10 نومبر کو کسی وقت ان کی ملاقات طے پائی ہے۔ 435 کے ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کو 239 اراکین پر مشتمل اکثریت حاصل ہوئی ہے، جبکہ ہیلری کی ڈیموکریٹک پارٹی کے 193 اراکین منتخب ہوچکے ہیں۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک کو ایک زیادہ نشست ملنے کے باوجود 47 اراکین ہیں جبکہ ری پبلکن ماضی کی نسبت ایک نشست گنوانے کے باوجود 51 سینیٹرز کی جماعت ہے۔ یعنی امریکا کے بائی کیمرل قانون ساز ادارے (کانگریس کے ایوان زیریں اور ایوان بالا) میں ٹرمپ کی جماعت کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ 10 نومبر کو علی الصبح نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہیلری کے حق میں پانچ کروڑ ستانوے لاکھ چورانوے ہزار نو سو چالیس یعنی 47.7% ووٹرز نے ووٹ ڈالے جبکہ ٹرمپ کے حق میں پانچ کروڑ پچانوے لاکھ اٹھاسی ہزار چار سو چھتیس ووٹرز یعنی 47.5% ووٹرز نے ووٹ ڈالے۔ امریکا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 20 کروڑ ہے جبکہ ایسے امریکی جن کی عمر انہیں ووٹر بننے کا اہل قرار دیتی ہے یہ سب کل ملاکر چوبیس کروڑ دس لاکھ افراد بنتی ہے۔ امریکیوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ پوری دنیا میں ووٹرز ٹرن آؤٹ کے بارے میں خبریں دیتے ہیں، لیکن امریکی الیکشن میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بڑی مشکل سے ہی اور بہت ہی کم خبرنگاران بیان کرتے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اہل ووٹرز کے نصف نے یعنی پچاس فیصد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کئے ہیں۔
ایک تو یہ پچاس فیصد کا مینڈیٹ تھا اور اس پچاس فیصد میں سے بھی زیادہ ووٹرز ہیلری کے حق میں تھے، یعنی پوائنٹ دو فیصد زیادہ ووٹرز۔ اس طرح امریکا کے پیچیدہ انتخابی نظام کے تحت کم عوامی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ایک اور مرتبہ جیت چکا ہے، جس طرح جارج بش جونیئر نے الیکشن جیتا تھا۔ حالانکہ الگور کے حق میں ساڑھے پانچ لاکھ زیادہ ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے افریقی نژاد امریکی امیدوار باراک اوبامہ کے حق میں غیر سفید فام اور نوجوان امریکیوں نے کھل کر ووٹ ڈالے اور 2008ء میں انہیں الیکٹورل کالج کے 365 ووٹ ملے جبکہ 2012ء میں انہیں 332 ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران دونوں امیدوار ایک دوسرے کو نااہل و نالائق قرار دیتے رہے۔ ہیلری نے ٹرمپ کی رائے کو ڈاگ وسل قرار دیا اور خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ پر بھی ان پر شدید تنقید کی۔ نیویڈا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک مائنارٹی لیڈر سینیٹر ہیری ریڈ جو اب ریٹائر ہوچکے ہیں، انہوں نے ستمبر میں میڈیا سے اپیل کی کہ ٹرمپ کو نسل پرست لکھا جائے۔ ایک اور بیان میں کہا کہ ٹرمپ انسان نما جونک ہے، جو امریکا کا خون چوس کر اسے خشک کردے گا۔ ان کے مطابق ٹرمپ کو متوسط طبقے کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ وہ تو گولف ریزورٹ پر بیٹھ کر اپنی دولت پر قہقہے لگاتے ہیں، انہیں کیا معلوم کہ ملازم پیشہ امریکی تباہ حال ہیں۔ یہ امریکا کے اندر ان کے خلاف رائے تھی۔ حتیٰ کہ خود ری پبلکن پارٹی کے بعض سرکردہ افراد ان سے راضی نہیں تھے۔ اس کے باوجود وہ جیت گئے۔ 1946ء میں پیدا ہونے والے ٹرمپ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کے بہت بڑے کھلاڑی ہیں۔ امریکا میں انہیں ایک کامیاب اور بہت بڑی کاروباری شخصیت اور بلڈنگ ڈیولپر سمجھا جاتا ہے۔ وہ امریکی میڈیا پر ریالٹی شو کرتے رہے ہیں۔
اس کے باوجود بڑے یورپی ممالک پریشان ہیں۔ ٹرمپ کی جیت پر جرمنی کی خاتون وزیر دفاع ارسولا وون ڈیر لیئین نے براڈ کاسٹر اے آر ڈی سے گفتگو میں کہا کہ یہ بہت بڑا جھٹکا (و صدمہ) ہے اور ٹرمپ سے پوچھا ہے کہ وہ نیٹو اتحاد کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کرے۔ کیوبا نے پانچ روزہ فوجی مشقوں کا اعلان کر دیا ہے کہ دشمن کے ممکنہ اقدامات سے نمٹنے کے لئے ملک گیر مشقیں کی جائیں گی۔ خاتون برطانوی وزیر اعظم نے مثبت بیان دیا کہ امریکا سے تعلقات کو مزید مستحکم بنائیں گی، لیکن ایک برطانوی کالم نگار کی رائے یہ ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ ایک نئی دنیا اور خارجہ پالیسی پیدا ہو رہی ہے اور برطانیہ کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ فرانس کی نیشنل فرنٹ کے لیڈر نے بھی مبارکباد دی ہے، جبکہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ امریکا سے تعلقات کو مکمل سطح تک بحال کریں گے، کیونکہ ٹرمپ نے بھی ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ پیوٹن، سوویت یونین کی کے جی بی کے آدمی تھے، شاید ان کا بیان امریکا کی اس پالیسی کا جواب ہو، جو سوویت یونین کے سقوط کے لئے گورباچوف کے دور حکومت میں وضع کی گئی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ پیوٹن کو ٹرمپ میں امریکا کا گورباچوف نظر آرہا ہو!
پریشان ممالک شاید مغربی امریکی ریاستوں میں ہونے والے عوامی احتجاج پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ جہاں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں، ٹرمپ کے پتلے اور دیگر اشیاء جلاکر اپنی نفرت اور غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ برطانوی روزنامہ انڈی پینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق کیلی فورنیا، اوریگون اور ریاست واشنگٹن میں بھرپور عوامی مظاہرے ہوئے۔ لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں بھی شاگردوں نے احتجاج کیا۔ باوجود اس حقیقت کے کہ ہیلری کلنٹن نے یہ کہا کہ امریکا ان سب کی سوچ سے کہیں زیادہ بلکہ بہت ہی زیادہ منقسم ہوچکا ہے، انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ امریکا کے مفاد میں مل کر کام کرنے کی پیشکش بھی کی۔ شاید وہ اس طرح مستقبل میں بھی کلنٹن فاؤنڈیشن کے لئے چندے کے نام پر مختلف ممالک سے رقوم لے کر حکمران اداروں میں ان کے حق میں فیصلے کروانے کی کمیشن کا کام جاری رکھنا چاہتی ہیں، جس طرح بھارت سے نیوکلیئر ڈیل، سعودی عرب سے اسلحہ ڈیل و دیگر ممالک کے لئے انہوں نے کلنٹن فاؤنڈیشن کے چندے کے نام پر کمیشن وصول کی تھی اور جس کی تفصیلات امریکا میں کتاب بعنوان ’’کلنٹن کیش‘‘ میں بیان کی گئی ہیں۔
امریکی الیکشن میں داخلی ایشوز اسقاط حمل، ٹیکس، نوکریاں، امن و امان، امیگریشن، آزاد تجارت کے معاہدے، سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری، لابسٹوں کے لئے نئے قواعد و ضوابط اور مہاجرین کو قبول کرنا یا نہ کرنا تھے۔ داخلی مسائل اور خاص طور پر اقتصادی مسائل کے بارے میں انڈی پینڈنٹ کے بانیان میں سے ایک 79 سالہ نامور اقتصادی امور کے ماہر صحافی سر آندریاس وھٹم اسمتھ (CBE) نے بہت ہی اہم اور چشم کشا تجزیہ پیش کیا ہے کہ الیکشن سے پہلے ٹرمپ نے اپنی ترجیحات میں سب سے پہلے چین کو کرنسی manipulator قرار دینا، شمالی امریکا آزاد تجارت کے معاہدے NAFTA سے امریکا کا اخراج اور میکسیکو سے آنے والی درآمدات پر 35% ٹیکس (tariff) لاگو کرنا بیان کیا تھا۔ اس کے ساتھ 2 کروڑ 40 لاکھ امریکیوں کو اوبامہ کیئر کے تحت حاصل ہیلتھ انشورنس سے محروم کرنا اور 20 لاکھ تارکین وطن کو امریکا میں غیر قانونی و کریمنل کہہ کر ملک بدر کرنا بھی ان کے اعلانات میں شامل تھا۔ ان کی اقتصادی ترجیحات سے امریکی ڈالر کی قدر و قیمت مالیاتی منڈیوں میں کم ہو جانے کے واضح امکانات ہیں۔ مختلف شعبوں میں جو حکومتی خرچے سے چل رہے ہیں، جیسا کہ سوشل سکیورٹی، ریٹائرمنٹ پلان، صحت کے شعبے میں حکومتی پروگرام وغیرہ سے دستبرداری سے عوام ردعمل پر مجبور ہوگی، ٹیکسوں میں کٹوتی سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہوگا۔
اگر امریکا میں مالیاتی نظام شفاف نہیں ہوگا تو غیر ملکی سرمایہ کاری جو ڈالرز میں ہے یا جو امریکی بونڈز کی صورت میں کی جا رہی ہے، یہ بھی متاثر ہوں گی۔ اگر اس طرح ڈالر کی قدر و قیمت کم ہوگئی تو امریکا میں افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوجائے گا اور اوسط درجے کے وہ شہری جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے، اس تنخواہ دار طبقے کی تنخواہیں تو طویل عرصے تک بغیر اضافے کے جوں کی توں رہیں گی اور افراط زر اور تنخواہوں میں عدم اضافہ یہ مل کر اس امریکی ملازم پیشہ فرد کی قوت خرید میں بہت زیادہ کمی کا سبب بنیں گے۔ اس طرح غریب امریکی غریب تر ہوتا جائے گا۔ امیگریشن کے ایشو پر 70% امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم ہونے والے تارکین وطن کی اکثریت کو یہ چانس ضرور دیا جائے کہ وہ امریکی قانونی شہری بننے کے لئے درخواست دیں۔ تارکین وطن کے امریکا میں داخلے کو روکنے کے لئے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے بارے میں بھی امریکی عوام کی اکثریت نے مخالفت میں رائے دی ہے۔ اگر ٹرمپ مذکورہ بالا نقصانات اور مخالفتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر مقبول فیصلے کریں گے تو عوام جلد ہی حساب کتاب شروع کردے گی، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا میں ہنگامہ آرائی میں اضافہ ہوگا۔ ٹرمپ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جھگڑالو مشیروں کے گھیرے میں ہیں اور خود اپنے خاندان کے افراد سے بھی بہت کم مشاورت کرتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے امریکیوں کے داخلی اتحاد پر زور دیا ہے، مگر ہیلتھ انشورنش اور سوشل سکیورٹی سے عوام کو محروم کرنے کے بعد یہ داخلی اتحاد کیسے پیدا ہوسکے گا؟
خارجہ پالیسی میں بھی ٹرمپ ایک ناتجربہ کار آدمی ہیں۔ جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتین یاہو نے ٹرمپ کو اسرائیل کا سچا دوست قرار دیا ہے۔ سعودی بادشاہ سلمان نے مبارکباد دے کر امید ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ کی صدارت میں مشرق وسطٰی میں امن و استحکام آئے گا۔ ان کے بیان کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم مشرق وسطٰی اور دنیا بھر میں امنیت اور استحکام کے لئے آپ کے مشن میں کامیابی کے خواہاں ہیں۔ یعنی یہاں ناجائز صہیونی ریاست اور سعودی بادشاہ کا موقف ملتا جلتا ہے۔ لیکن حماس نے ٹرمپ کی کامیابی پر منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ برطانیہ کے بیروت میں مقیم نامور صحافی رابرٹ فسک کا تبصرہ جاندار ہے اور یہی بات میں 4 نومبر کو سحر اردو ٹی وی چینل کے سیاسی ٹاک شو انداز جہاں میں بیان کرچکا ہوں کہ ہیلری اور ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی اسرائیل کے حامی و طرفدار ہیں، دونوں ہی مصر میں آمر سیسی اور سعودی عرب و قطر و دیگر ریاستوں میں بادشاہوں کو دوست اور اتحادی کہتے ہیں اور دونوں ہی دہشتگرد دہشتگرد کا رٹا لگاتے ہیں، لیکن شام میں انہی کو ماڈریٹ کا نام دے کر گلے لگاتے ہیں، یہی بات اب رابرٹ فسک نے لکھی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ٹائمز اور سی بی ایس کے ایگزٹ پولز میں اسی فیصد امریکیوں نے امریکا کے پورے سیاسی نظام سے نفرت و لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ بظاہر امریکا دنیا کی واحد مادی سپر طاقت ہے لیکن یہ ساڑھے انیس کھرب ڈالر کا مقروض ایسا ملک ہے، جس کا سالانہ بجٹ خسارہ 503 بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ٹرمپ امریکا کا گوربا چوف ثابت ہوتا ہے یا چارلس ڈیگال۔ اللہ کے ایک ولی نے بش جونیئر کی صدارت کے دور میں کہا تھا کہ امریکا سات سروں والا اژدھا ہے، جس کے پانچ سر کچلے جاچکے ہیں۔ مطلب یہ کہ باقی دو سر کچلے جانے تھے۔ میں یہ سمجھا ہوں کہ چھٹا باراک اوبامہ تھا اور ساتواں سر ٹرمپ ہے کیونکہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد یہ ساتواں امریکی صدر آیا ہے اور اللہ کے اس ولی کا نام ہے آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای! (نوٹ: امریکا کے صدارتی الیکشن پر ماضی میں بھی لکھتا رہا ہوں۔ امریکی صدارتی الیکشن کا ابتدائی مرحلہ اسلام ٹائمز پر 16 جون 2016ء کو اپلوڈ کیا گیا تھا، نئے قارئین اس مقالے کا مطالعہ بھی کرلیں کہ اس وقت میں نے کیا تجزیہ پیش کیا تھا۔)
امریکا کے صدارتی الیکشن پر اس کے سب سے بڑے اتحادی ملک برطانیہ کے روزنامہ ڈیلی ٹیلیگراف (9نومبر) کی خبر کا پہلا جملہ یہ تھا کہ جب آج برطانیہ جاگا تو ڈونالڈ ٹرمپ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا اگلا صدر منتخب ہوچکا تھا اور دنیا کا ردعمل صدمے اور عدم یقین پر مبنی تھا۔ دنیا کے سیاسی قائدین اور جگ مشہور شخصیات مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کے اظہار میں متحد ہوچکے تھے۔ امریکا میں متعین فرانسیسی سفیر جیراڈ اراؤڈ نے ٹویٹ پیغام میں مایوسی اور تباہ ہوتے ہوئے عالمی نظام کی بات کی، لیکن تھوڑی دیر بعد اس ٹویٹ پیغام کو ڈیلیٹ کر دیا۔ ان کے فرانسیسی ٹویٹ کا اردو ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے کہ بریکزٹ اور اس الیکشن کے بعد اب ہر چیز ممکن ہے۔ یہ ایک دنیا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے (دھڑام سے) گر رہی ہے۔ چکر۔(یعنی چکرا گیا ہوں!)۔ امریکی و یورپی اخبارات و جرائد میں بھی صدمہ، سانحہ، دھچکہ اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی پر مبنی سرخیوں کے ساتھ ٹرمپ کی جیت اور ہیلری کلنٹن کی شکست کی خبریں، تجزیے و تبصرے شایع ہوئے ہیں۔ یہ ہے امریکی صدارتی الیکشن کے بعد کی دنیا کی تازہ ترین صورتحال۔ 10 نومبر علی الصبح جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تب تک امریکا و برطانیہ کے ذرایع ابلاغ میں صدارتی الیکشن کے نتائج یہ ہیں کہ الیکٹورل کالج کے کل 538 ووٹوں میں سے ٹرمپ کے انتخاب کنندگان کو 279 ووٹ مل چکے ہیں جبکہ ہیلری کلنٹن کے انتخاب کنندگان کو 228 ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ابھی 31 ووٹوں کا اعلان باقی ہے لیکن پاکستان کے نیوز چینل نیوز ون نے مزید دس ووٹ ٹرمپ کے حق میں نشر کر دیئے ہیں۔
99% ووٹوں کی گنتی کے بعد ووٹرز کے ووٹ کی اکثریت ہیلری کو حاصل ہے۔ افسردہ ہیلری نے دردناک شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس کے اثرات سے باہر آنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کے الفاظ میں وہ نتیجہ تو نہیں آیا جو انہوں نے چاہا تھا لیکن وہ ٹرمپ کو اگلا صدر تسلیم کرتی ہیں اور انہوں نے ٹرمپ کو فون کرکے مبارکباد بھی دی۔ ٹرمپ اور صدر اوبامہ کی بھی فون پر بات چیت ہوئی اور جمعرات 10 نومبر کو کسی وقت ان کی ملاقات طے پائی ہے۔ 435 کے ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کو 239 اراکین پر مشتمل اکثریت حاصل ہوئی ہے، جبکہ ہیلری کی ڈیموکریٹک پارٹی کے 193 اراکین منتخب ہوچکے ہیں۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک کو ایک زیادہ نشست ملنے کے باوجود 47 اراکین ہیں جبکہ ری پبلکن ماضی کی نسبت ایک نشست گنوانے کے باوجود 51 سینیٹرز کی جماعت ہے۔ یعنی امریکا کے بائی کیمرل قانون ساز ادارے (کانگریس کے ایوان زیریں اور ایوان بالا) میں ٹرمپ کی جماعت کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ 10 نومبر کو علی الصبح نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہیلری کے حق میں پانچ کروڑ ستانوے لاکھ چورانوے ہزار نو سو چالیس یعنی 47.7% ووٹرز نے ووٹ ڈالے جبکہ ٹرمپ کے حق میں پانچ کروڑ پچانوے لاکھ اٹھاسی ہزار چار سو چھتیس ووٹرز یعنی 47.5% ووٹرز نے ووٹ ڈالے۔ امریکا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 20 کروڑ ہے جبکہ ایسے امریکی جن کی عمر انہیں ووٹر بننے کا اہل قرار دیتی ہے یہ سب کل ملاکر چوبیس کروڑ دس لاکھ افراد بنتی ہے۔ امریکیوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ پوری دنیا میں ووٹرز ٹرن آؤٹ کے بارے میں خبریں دیتے ہیں، لیکن امریکی الیکشن میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بڑی مشکل سے ہی اور بہت ہی کم خبرنگاران بیان کرتے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اہل ووٹرز کے نصف نے یعنی پچاس فیصد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کئے ہیں۔
ایک تو یہ پچاس فیصد کا مینڈیٹ تھا اور اس پچاس فیصد میں سے بھی زیادہ ووٹرز ہیلری کے حق میں تھے، یعنی پوائنٹ دو فیصد زیادہ ووٹرز۔ اس طرح امریکا کے پیچیدہ انتخابی نظام کے تحت کم عوامی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ایک اور مرتبہ جیت چکا ہے، جس طرح جارج بش جونیئر نے الیکشن جیتا تھا۔ حالانکہ الگور کے حق میں ساڑھے پانچ لاکھ زیادہ ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے افریقی نژاد امریکی امیدوار باراک اوبامہ کے حق میں غیر سفید فام اور نوجوان امریکیوں نے کھل کر ووٹ ڈالے اور 2008ء میں انہیں الیکٹورل کالج کے 365 ووٹ ملے جبکہ 2012ء میں انہیں 332 ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران دونوں امیدوار ایک دوسرے کو نااہل و نالائق قرار دیتے رہے۔ ہیلری نے ٹرمپ کی رائے کو ڈاگ وسل قرار دیا اور خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ پر بھی ان پر شدید تنقید کی۔ نیویڈا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک مائنارٹی لیڈر سینیٹر ہیری ریڈ جو اب ریٹائر ہوچکے ہیں، انہوں نے ستمبر میں میڈیا سے اپیل کی کہ ٹرمپ کو نسل پرست لکھا جائے۔ ایک اور بیان میں کہا کہ ٹرمپ انسان نما جونک ہے، جو امریکا کا خون چوس کر اسے خشک کردے گا۔ ان کے مطابق ٹرمپ کو متوسط طبقے کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ وہ تو گولف ریزورٹ پر بیٹھ کر اپنی دولت پر قہقہے لگاتے ہیں، انہیں کیا معلوم کہ ملازم پیشہ امریکی تباہ حال ہیں۔ یہ امریکا کے اندر ان کے خلاف رائے تھی۔ حتیٰ کہ خود ری پبلکن پارٹی کے بعض سرکردہ افراد ان سے راضی نہیں تھے۔ اس کے باوجود وہ جیت گئے۔ 1946ء میں پیدا ہونے والے ٹرمپ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کے بہت بڑے کھلاڑی ہیں۔ امریکا میں انہیں ایک کامیاب اور بہت بڑی کاروباری شخصیت اور بلڈنگ ڈیولپر سمجھا جاتا ہے۔ وہ امریکی میڈیا پر ریالٹی شو کرتے رہے ہیں۔
اس کے باوجود بڑے یورپی ممالک پریشان ہیں۔ ٹرمپ کی جیت پر جرمنی کی خاتون وزیر دفاع ارسولا وون ڈیر لیئین نے براڈ کاسٹر اے آر ڈی سے گفتگو میں کہا کہ یہ بہت بڑا جھٹکا (و صدمہ) ہے اور ٹرمپ سے پوچھا ہے کہ وہ نیٹو اتحاد کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کرے۔ کیوبا نے پانچ روزہ فوجی مشقوں کا اعلان کر دیا ہے کہ دشمن کے ممکنہ اقدامات سے نمٹنے کے لئے ملک گیر مشقیں کی جائیں گی۔ خاتون برطانوی وزیر اعظم نے مثبت بیان دیا کہ امریکا سے تعلقات کو مزید مستحکم بنائیں گی، لیکن ایک برطانوی کالم نگار کی رائے یہ ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ ایک نئی دنیا اور خارجہ پالیسی پیدا ہو رہی ہے اور برطانیہ کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ فرانس کی نیشنل فرنٹ کے لیڈر نے بھی مبارکباد دی ہے، جبکہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ امریکا سے تعلقات کو مکمل سطح تک بحال کریں گے، کیونکہ ٹرمپ نے بھی ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ پیوٹن، سوویت یونین کی کے جی بی کے آدمی تھے، شاید ان کا بیان امریکا کی اس پالیسی کا جواب ہو، جو سوویت یونین کے سقوط کے لئے گورباچوف کے دور حکومت میں وضع کی گئی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ پیوٹن کو ٹرمپ میں امریکا کا گورباچوف نظر آرہا ہو!
پریشان ممالک شاید مغربی امریکی ریاستوں میں ہونے والے عوامی احتجاج پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ جہاں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں، ٹرمپ کے پتلے اور دیگر اشیاء جلاکر اپنی نفرت اور غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ برطانوی روزنامہ انڈی پینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق کیلی فورنیا، اوریگون اور ریاست واشنگٹن میں بھرپور عوامی مظاہرے ہوئے۔ لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں بھی شاگردوں نے احتجاج کیا۔ باوجود اس حقیقت کے کہ ہیلری کلنٹن نے یہ کہا کہ امریکا ان سب کی سوچ سے کہیں زیادہ بلکہ بہت ہی زیادہ منقسم ہوچکا ہے، انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ امریکا کے مفاد میں مل کر کام کرنے کی پیشکش بھی کی۔ شاید وہ اس طرح مستقبل میں بھی کلنٹن فاؤنڈیشن کے لئے چندے کے نام پر مختلف ممالک سے رقوم لے کر حکمران اداروں میں ان کے حق میں فیصلے کروانے کی کمیشن کا کام جاری رکھنا چاہتی ہیں، جس طرح بھارت سے نیوکلیئر ڈیل، سعودی عرب سے اسلحہ ڈیل و دیگر ممالک کے لئے انہوں نے کلنٹن فاؤنڈیشن کے چندے کے نام پر کمیشن وصول کی تھی اور جس کی تفصیلات امریکا میں کتاب بعنوان ’’کلنٹن کیش‘‘ میں بیان کی گئی ہیں۔
امریکی الیکشن میں داخلی ایشوز اسقاط حمل، ٹیکس، نوکریاں، امن و امان، امیگریشن، آزاد تجارت کے معاہدے، سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری، لابسٹوں کے لئے نئے قواعد و ضوابط اور مہاجرین کو قبول کرنا یا نہ کرنا تھے۔ داخلی مسائل اور خاص طور پر اقتصادی مسائل کے بارے میں انڈی پینڈنٹ کے بانیان میں سے ایک 79 سالہ نامور اقتصادی امور کے ماہر صحافی سر آندریاس وھٹم اسمتھ (CBE) نے بہت ہی اہم اور چشم کشا تجزیہ پیش کیا ہے کہ الیکشن سے پہلے ٹرمپ نے اپنی ترجیحات میں سب سے پہلے چین کو کرنسی manipulator قرار دینا، شمالی امریکا آزاد تجارت کے معاہدے NAFTA سے امریکا کا اخراج اور میکسیکو سے آنے والی درآمدات پر 35% ٹیکس (tariff) لاگو کرنا بیان کیا تھا۔ اس کے ساتھ 2 کروڑ 40 لاکھ امریکیوں کو اوبامہ کیئر کے تحت حاصل ہیلتھ انشورنس سے محروم کرنا اور 20 لاکھ تارکین وطن کو امریکا میں غیر قانونی و کریمنل کہہ کر ملک بدر کرنا بھی ان کے اعلانات میں شامل تھا۔ ان کی اقتصادی ترجیحات سے امریکی ڈالر کی قدر و قیمت مالیاتی منڈیوں میں کم ہو جانے کے واضح امکانات ہیں۔ مختلف شعبوں میں جو حکومتی خرچے سے چل رہے ہیں، جیسا کہ سوشل سکیورٹی، ریٹائرمنٹ پلان، صحت کے شعبے میں حکومتی پروگرام وغیرہ سے دستبرداری سے عوام ردعمل پر مجبور ہوگی، ٹیکسوں میں کٹوتی سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہوگا۔
اگر امریکا میں مالیاتی نظام شفاف نہیں ہوگا تو غیر ملکی سرمایہ کاری جو ڈالرز میں ہے یا جو امریکی بونڈز کی صورت میں کی جا رہی ہے، یہ بھی متاثر ہوں گی۔ اگر اس طرح ڈالر کی قدر و قیمت کم ہوگئی تو امریکا میں افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوجائے گا اور اوسط درجے کے وہ شہری جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے، اس تنخواہ دار طبقے کی تنخواہیں تو طویل عرصے تک بغیر اضافے کے جوں کی توں رہیں گی اور افراط زر اور تنخواہوں میں عدم اضافہ یہ مل کر اس امریکی ملازم پیشہ فرد کی قوت خرید میں بہت زیادہ کمی کا سبب بنیں گے۔ اس طرح غریب امریکی غریب تر ہوتا جائے گا۔ امیگریشن کے ایشو پر 70% امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم ہونے والے تارکین وطن کی اکثریت کو یہ چانس ضرور دیا جائے کہ وہ امریکی قانونی شہری بننے کے لئے درخواست دیں۔ تارکین وطن کے امریکا میں داخلے کو روکنے کے لئے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے بارے میں بھی امریکی عوام کی اکثریت نے مخالفت میں رائے دی ہے۔ اگر ٹرمپ مذکورہ بالا نقصانات اور مخالفتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر مقبول فیصلے کریں گے تو عوام جلد ہی حساب کتاب شروع کردے گی، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا میں ہنگامہ آرائی میں اضافہ ہوگا۔ ٹرمپ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جھگڑالو مشیروں کے گھیرے میں ہیں اور خود اپنے خاندان کے افراد سے بھی بہت کم مشاورت کرتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے امریکیوں کے داخلی اتحاد پر زور دیا ہے، مگر ہیلتھ انشورنش اور سوشل سکیورٹی سے عوام کو محروم کرنے کے بعد یہ داخلی اتحاد کیسے پیدا ہوسکے گا؟
خارجہ پالیسی میں بھی ٹرمپ ایک ناتجربہ کار آدمی ہیں۔ جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتین یاہو نے ٹرمپ کو اسرائیل کا سچا دوست قرار دیا ہے۔ سعودی بادشاہ سلمان نے مبارکباد دے کر امید ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ کی صدارت میں مشرق وسطٰی میں امن و استحکام آئے گا۔ ان کے بیان کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم مشرق وسطٰی اور دنیا بھر میں امنیت اور استحکام کے لئے آپ کے مشن میں کامیابی کے خواہاں ہیں۔ یعنی یہاں ناجائز صہیونی ریاست اور سعودی بادشاہ کا موقف ملتا جلتا ہے۔ لیکن حماس نے ٹرمپ کی کامیابی پر منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ برطانیہ کے بیروت میں مقیم نامور صحافی رابرٹ فسک کا تبصرہ جاندار ہے اور یہی بات میں 4 نومبر کو سحر اردو ٹی وی چینل کے سیاسی ٹاک شو انداز جہاں میں بیان کرچکا ہوں کہ ہیلری اور ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی اسرائیل کے حامی و طرفدار ہیں، دونوں ہی مصر میں آمر سیسی اور سعودی عرب و قطر و دیگر ریاستوں میں بادشاہوں کو دوست اور اتحادی کہتے ہیں اور دونوں ہی دہشتگرد دہشتگرد کا رٹا لگاتے ہیں، لیکن شام میں انہی کو ماڈریٹ کا نام دے کر گلے لگاتے ہیں، یہی بات اب رابرٹ فسک نے لکھی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ٹائمز اور سی بی ایس کے ایگزٹ پولز میں اسی فیصد امریکیوں نے امریکا کے پورے سیاسی نظام سے نفرت و لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ بظاہر امریکا دنیا کی واحد مادی سپر طاقت ہے لیکن یہ ساڑھے انیس کھرب ڈالر کا مقروض ایسا ملک ہے، جس کا سالانہ بجٹ خسارہ 503 بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ٹرمپ امریکا کا گوربا چوف ثابت ہوتا ہے یا چارلس ڈیگال۔ اللہ کے ایک ولی نے بش جونیئر کی صدارت کے دور میں کہا تھا کہ امریکا سات سروں والا اژدھا ہے، جس کے پانچ سر کچلے جاچکے ہیں۔ مطلب یہ کہ باقی دو سر کچلے جانے تھے۔ میں یہ سمجھا ہوں کہ چھٹا باراک اوبامہ تھا اور ساتواں سر ٹرمپ ہے کیونکہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد یہ ساتواں امریکی صدر آیا ہے اور اللہ کے اس ولی کا نام ہے آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای! (نوٹ: امریکا کے صدارتی الیکشن پر ماضی میں بھی لکھتا رہا ہوں۔ امریکی صدارتی الیکشن کا ابتدائی مرحلہ اسلام ٹائمز پر 16 جون 2016ء کو اپلوڈ کیا گیا تھا، نئے قارئین اس مقالے کا مطالعہ بھی کرلیں کہ اس وقت میں نے کیا تجزیہ پیش کیا تھا۔)
خبر کا کوڈ : 582565
حسین
جناب نامعلوم، خود ساختہ حقیقت پسند مودبانہ درخواست ہے کہ واقعی حقیقت پسندی سے کام لیں تو کیا امریکا نے نابود نہیں ہونا؟ حق نے غالب نہیں آنا؟ کیا امریکی سامراج نابود نہیں ہوگا۔ سات سروں والے اژدھے سے اور پانچ سر کچلے جانے سے کیا مطلب لیا جائے ؟؟ کچھ بھی نہیں، اس کان سے سنیں اور اس کان سے نکال دیں۔ رہبر کی باتوں کو نہ سمجھیں؟؟ جب بات اشاروں کنایوں میں کی جاتی ہے تو عقل والوں کے لئے تدبر و تفکر کے لئے کی جاتی ہے اور یہی قرآن کی منطق ہے۔ پھر اللہ سے کہیں کہ متشابہ آیات کیوں سبھی محکم ہونی چاہئیں، پھر قران کی تفسیر بھی من گھڑت و خیالی قرار پائے گی کیونکہ اللہ نے تو خود بہت سے مقامات پر صرف نشانیاں بیان کیں۔ پھر اللہ نے کیوں تاکید کی کہ غور و فکر کرو؟ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے، کیوں نہ اللہ سے ہی ہر مسئلہ پوچھ لیا جائے۔ نہ نبی نہ امام نہ ولی فقیہ،، کسی کی ضرورت ہی نہیں۔ اور اگر کوئی سیاسی تجزیہ نگار حقیقت بھی بیان کرے تو جاہلانہ تعصب کے ساتھ بغیر کسی دلیل کے ساتھ نامناسب طنز کے ساتھ رد کر دینا کسی طور قابل قبول عمل نہیں ہے۔ اللہ نے خود کہا کہ ان سے کہو اپنے دعوے میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔ کیا آپ کے پاس دلیل ہے؟ یا میں لاہور میں ایک عالیشان مدرسہ چلانے والے عالم کی باتیں بیان کروں کہ وہ رہبر کی باتوں کی کس طرح ذاتی تفسیریں بیان کرتے ہیں؟ رہبر معظم نے کتنی مرتبہ ان کو شرف ملاقات بخشا، کتنی مرتبہ ان کی رائے کی تائید کی؟ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی، احتیاط سے کام لیں۔
ٹرمپ کا عہد صدارت، خدشات، تحفظات، امکانات۔ عمراں خان کی تحریر کا عنوان آپ خود پڑھ لیں۔ اور عرفان صاحب کی ماضی میں مشرق وسطٰی کے بارے میں تحریریں پڑھ لیں، سحر اردو پر ان کے پروگرام سن لیں تو عمران خان صاحب کی باتوں میں سے بیشتر وہ بیان کرچکے ہیں۔ وہ خدشات، امکانات پر بات کر رہے ہیں جبکہ عرفان صاحب وضاحت و صراحت کے ساتھ الیکشن کے بعد جو ہو رہا ہے، اس کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ عرفان صاحب کی تحریر کا عنوان ملاحظہ فرمائیں تو یہ امریکی صدارتی الیکشن کے بعد کی دنیا ہے۔ مزید ماضی میں ١٦جون کا مقالہ بھی موجود ہے۔ اللہ کے ایک ولی کی بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوچکی ہے کہ امریکی اژدھر کا ساتواں سر یہی ہے۔ یہ وہ تازہ ترین صورتحال ہے جو کہیں اور اس طرح بیان نہیں ہوئی۔ موضوع کے تحت ہی دونوں نے تحریریں لکھی ہیں۔ آپ دوسروں کی بجائے خود دونوں تحریروں کا بغور مطالعہ کرلیں۔
عرفان
اللہ کے ولی نے جو کہا اس کے بعد بہت واضح لکھا ہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد اس وقت تک امریکا میں صرف پانچ صدور آئے تھے اور اس کے بعد یہ ساتواں ہے۔ میں اس مولوی کی طرح نہیں ہوں، جو رہبر کے نام پر اپنی ذاتی رائے بیاں کرتا ہے اور بہت سے سر دھنتے ہیں۔ واضح لکھا ہے کہ ﴿﴿میں یہ سمجھا ہوں﴾﴾ نہ کہ یہ لکھا ہے کہ آغا رہبر نے یہ نتیجہ نکالا ہے۔ یہ میری رائے ہے۔ آٹھ سال انتظار کریں۔ یہاں تو ہم پچھلے سولہ برسوں سے امام کے ظہور کی باتیں سن رہے ہیں، ہم نے تو کسی محترم کا نام نہیں لیا کہ من گھڑت خیالی پلائو ہے۔ اللہ کے اس ولی سے خود کو منسوب نہ کریں کہ جو دن رات تقویٰ و ہم دلی کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ کہاں اور وہ کہاں؟ یہ باتیں ہم سے ہی متعلق ہیں، جنہیں آپ جیسے نالائقوں کی باتوں کے بعد خود کو یہ تسلی دینی پڑتی ہے کہ ملامت کرنے والوں کی ملامت تمہیں حق کہنے سے نہیں روک سکتی۔ اللہ کے ولی کی بات محرم افراد کے لئے ہے، آپ جیسے نامحرموں کا کیا واسطہ؟؟ اس کے باوجود کسی قاری کو تنقید کے حق سے محروم نہیں کرتا، بشرطیکہ وہ تحریر میں غلطی و خامیوں کی جانب نشاندہی فرمائیں تو ایسے افراد کا ممنون رہوں گا۔ آپ کی من گھڑت اور خیالی پلائو کے لغو الزام کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام خمینی کے دور سے امریکا کی نابودی کا سن ہی رہے ہیں تو کیا سب نے امام کی باتوں کی من گھڑت تفسیر کرکے خیالی پلائو پکائے تھے؟ یا امام خمینی نے امریکا کی نابودی کی بات کی تو وہ بھی ان کی من گھڑت بات و خیالی پلائو ہی تھا۔ آپ نے جو معیار قائم کیا اس کا اطلاق مجھ اکیلے پر نہیں سبھی پر ہوتا ہے۔
عبداللہ
سلام عرفان صاحب،
انتہائی دکھ ہوا کہ آپ نے ایک قاری کو نالائق کہا، بھلے ہی اس کی رائے نامناسب ہو، اس طرح سے آپ کو کالم نگار کی حیثیت سے جو رہنما و بزرگی کی حیثیت حاصل تھی، وہ ہم جیسے ’’نالائقوں‘‘ کی نظر میں کھو چکی ہے۔ شاید ہم جیسے قارئین جو آپ کو ’’مومن کالم نگار‘‘ سمجھتے ہوئے کالم پڑھتے تھے، لیکن اب آپ کے کالم کو صرف ایک ’’کالم نگار‘‘ سمجھ کر ہی پڑھیں گے، جیسے دیگر غیر انقلابی ذرائع ابلاغ میں لکھنے والے کالم نگار کے مضامین پڑھتے ہیں۔ جس اللہ کے ولی کا آپ نے ذکر کیا، کیا کبھی اس ولی نے کسی ایسے شخص کو نالائق کہا کہ جس نے ان کی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا؟ یقین کریں کہ اب تو آپ کے کالم پر رائے دیتے ہوئے بھی ڈر سا لگنے لگا ہے کہ کہیں ہم بھی۔۔۔۔۔۔۔
والسلام
انتہائی دکھ ہوا کہ آپ نے ایک قاری کو نالائق کہا، بھلے ہی اس کی رائے نامناسب ہو، اس طرح سے آپ کو کالم نگار کی حیثیت سے جو رہنما و بزرگی کی حیثیت حاصل تھی، وہ ہم جیسے ’’نالائقوں‘‘ کی نظر میں کھو چکی ہے۔ شاید ہم جیسے قارئین جو آپ کو ’’مومن کالم نگار‘‘ سمجھتے ہوئے کالم پڑھتے تھے، لیکن اب آپ کے کالم کو صرف ایک ’’کالم نگار‘‘ سمجھ کر ہی پڑھیں گے، جیسے دیگر غیر انقلابی ذرائع ابلاغ میں لکھنے والے کالم نگار کے مضامین پڑھتے ہیں۔ جس اللہ کے ولی کا آپ نے ذکر کیا، کیا کبھی اس ولی نے کسی ایسے شخص کو نالائق کہا کہ جس نے ان کی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا؟ یقین کریں کہ اب تو آپ کے کالم پر رائے دیتے ہوئے بھی ڈر سا لگنے لگا ہے کہ کہیں ہم بھی۔۔۔۔۔۔۔
والسلام
عبداللہ صاحب سب سے پہلے تو شکریہ کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔ قول معصوم ہے کہ اپنے بارے میں لوگوں کے حسن ظن کو درست ثابت کرو۔ کوشش کروں گا کہ آپ کی محبتوں کے لائق بن سکوں۔ جہاں تک لفظ نالائق کی بات ہے ان سے میں نے معذرت کرلی تھی اور یہاں دیکھیں یہ لکھ کر معذرت کی(((( اگر آپ کو میرے پچھلے جواب میں توہین محسوس ہوئی تو میں معذرت خواہ ہوں، کان پکڑ کر توبہ۔ آپ چونکہ قاری ہیں اس لئے میرے لئے محترم ہیں۔ ))۔
میری صرف ایک التجا ہے کہ عالم دین اور حوزوی طلاب کم از کم جس اخلاقیات کی مجھے تلقین کرتے ہیں اور مجھ سے جس اخلاقیات کی توقع کرتے ہیں، وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہوکر مخاطب ہوں گے تو کبھی کسی کو شکایت نہیں ہوگی اور اگر عمل نہیں کریں گے، تب بھی میری طرف سے کوئی ردعمل نہیں آئے گا۔ میں خاموش رہوں گا۔Irfan
میری صرف ایک التجا ہے کہ عالم دین اور حوزوی طلاب کم از کم جس اخلاقیات کی مجھے تلقین کرتے ہیں اور مجھ سے جس اخلاقیات کی توقع کرتے ہیں، وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہوکر مخاطب ہوں گے تو کبھی کسی کو شکایت نہیں ہوگی اور اگر عمل نہیں کریں گے، تب بھی میری طرف سے کوئی ردعمل نہیں آئے گا۔ میں خاموش رہوں گا۔Irfan
Irfan
سلام۔ محترم برادر آپ نے کیا سوال کیا ہے، جس کا جواب نہیں ملا۔ کم از کم مجھ پر گالی کی تہمت تو نہ لگائیں۔؟ مومن آل فرعون کب سے میرا نام یا اسم مستعار ہوگیا جو مجھے اس نام سے مخاطب کر رہے ہیں۔ اگرآپ کو میرے پچھلے جواب میں توہین محسوس ہوئی تو میں معذرت خواہ ہوں، کان پکڑ کہ توبہ۔ آپ چونکہ قاری ہیں اس لئے میرے لئے محترم ہیں۔ لیکن رہبر معظم کی بات سے میں جو سمجھا ہوں، میں اپنی اس رائے پر قائم ہوں۔ بہت سے دوستوں کو میری بات سمجھ میں آجاتی ہے اور وہ محبت کا اظہار بھی کر دیتے ہیں اور بہت سے دوست جنہیں نہیں سمجھ آتی، میں ان کے لئے بھی علامہ اقبال کی طرح دعاگو ہوں کہ چشم بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں۔
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں۔
حسن جمالی
مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ کچهہ برادران ہمیشہ دائرہ ادب و اخلاق سے نکل کر تنقید کرتے ہیں, بھائی خدا را تنقید ضرور کرو کسی کی تحریر پر, لیکن دائرہ اخلاق میں رہ کر تعمیری تنقید کریں نہ تخریبی۔ عرفان بھائی کی تحریر کا میں بھی مطالعہ کرتا ہوں، ہمیشہ مجھے تو ان کی تحریروں میں خوبی اور حسن کے سوا کچهہ نظر نہیں آتا ہے، ہم بخوبی استفادہ کرتے ہیں، اگر کسی کو ان کی تحریر میں کوئی بات پسند نہ آئے تو وہ تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں، البتہ دائرہ اخلاق کے اندر کچهہ برادران تنقید کرتے ہیں لیکن اشتباہ کرتے، ہمارا انداز دشمنوں کا اپنایا ہوا ہے، جو کسی بھی صورت میں نیک شگون نہیں۔ خدا را تنقید برای تخریب سے پرہیز کریں، آج ملت تشیع کی حالت ہمارے اختلافات نے کہاں پہنچائی ہے، کسی پر پوشیدہ نہیں۔
Hussain
sharam se tau wo doob maraen jo apni baatoun ko naujawano k samnay aisay bayan kartya haen jaisay Agha Rehbar aur Hassan Nasrullah nay unko Pakistan mae tarjuman banadiya hay. aalim e deen apni baatoun ko apni baat kehnay ki akhlaqi jurrat ..ka muzahira karay. Khubs e baatin tau zahir horaha hay keh kis mae badarja e atam / mojood hay. aalim na hua masoom imam hogaya keh keh bila choon wa chira uski itaat karlo. ghalio ka kya jurm kay imam ki shaan mae ghuloo kartay haen. tum jaisay bad bakht tau aik average level ke molvi sahb ki pooja mae masroof ho. jaao aur apni shakhsiyat parasti ko apnay paas he rakho.
نظام صاحب شکریہ۔ دراصل یہ بات میری یادداشت میں محٖفوظ تھی۔ بدقسمتی سے کمپیوٹر پر وائرس حملے اس تیزی سے ہوتے ہیں کہ تھوڑے ہی عرصے بعد پورا ڈیٹا اور ریکاڑد اڑ جاتا ہے۔ وہاں میں نے میل بھیجی ہے، اگر جواب آگیا تو درست تاریخ بتا سکوں گا ورنہ معذرت قبول فرمائیں۔ بش جب صدر تھا تب رھبر معظم نے جو تقاریر کیں، ان ٰمیں سے کسی ایک میں موجود ہوگی یہ بات۔
منتخب
27 Mar 2024
27 Mar 2024
27 Mar 2024
27 Mar 2024
27 Mar 2024
26 Mar 2024
26 Mar 2024
اللہ کے فضل سے وہ ولی ابھی ہمارے درمیان موجود ہے اور ہمیں خیالی پلاو پکانے کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے۔