0
Sunday 13 Nov 2016 21:06

مقبوضہ کشمیر کے پیلٹ متاثرین

مقبوضہ کشمیر کے پیلٹ متاثرین
رپورٹ: جے اے رضوی

پیلٹ گن کا متبادل اب لارڈ
بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین کو قابو کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا صوتی گولہ (Long Range Ascoctic Device) لوگوں کو قوت سماعت سے محروم کرسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صوتی گولہ (LRAD) سے پیدا ہونے والے 140 ڈی بی شور سے نہ صرف احتجاجی مظاہروں میں شامل ہونے والے لوگوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے بلکہ یہ گولے گھروں میں بیٹھی خواتین اور بچوں کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ حال ہی میں بھارت کی طرف سے پیلٹ گن کے متبادل کے طور پر زیادہ شور پیدا کرنے والے LRAD بجلی کا جھٹکا دینے والے ہتھیاروں کو منظوری ملی ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ LRAD (لارڈ) ہتھیار پیلٹ گن کی طرح ہی جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔ سرینگر کے جے وی سی اسپتال میں شعبہ ای این ٹی کے ماہر ڈاکٹر انیک جیلانی نے بتایا ’’عام انسان کے کانوں میں صرف اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ 20 ڈی بی سے لیکر 25 ڈی بی تک کی آواز اچھے طریقے سے سن سکتا ہے اور اس درجے کا شور انسانی کانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا، مگر جوں ہی یہ شور بڑھتا جاتا ہے، انسانی کانوں کو نقصان پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر انیک جیلانی نے کہا کہ ’’زیادہ سے زیادہ 85 ڈی بی کا شور انسانی کان برداشت کر پاتے ہیں، مگر اس درجے کے شور میں انسانی کانوں کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بھارت کی طرف سے پیلٹ گن کے متبادل کے طور پر منتخب کئے گئے LRAD یا سانک ہتھیاروں سے ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کے مطابق صرف 140 ڈی بی شور پیدا ہوتا ہے، جو انسانی کانوں کے پردے پھاڑ دینے کیلئے کافی ہے۔

ڈاکٹر جیلانی نے کہا کہ شور کی وجہ سے کانوں کے اندر موجود تہہ ( membrane) کے نیچے دبے بالوں کو نقصان پہنچتا ہے، جس کو دنیا کا کوئی بھی ڈاکٹر ٹھیک نہیں کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر انیک جیلانی نے کہا کہ LRAD یا سانک ہتھیار انسان کو پیلٹ گن کی طرح ہی معذور بنا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیلٹ گن کے استعمال سے کشمیریوں کی بینائی گئی ہے جبکہ LRAD گولہ سے کشمیری عوام سننے کی طاقت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر انیک جیلانی نے کہا کہ LRAD ہتھیار انسان کو نہ صرف بہرا بناتے ہیں، بلکہ اس کے استعمال سے گھروں میں بیٹھی خواتین اور بچوں کے بھی کان کافی دیر تک بجتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر انیک جیلانی نے مزید کہا کہ زیادہ شور سے انسانی جسم کے اندر ہر اس حصے کو نقصان پہنچتا ہے، جس میں پانی بھرا ہو۔ سرینگر کے صدر اسپتال میں شعبہ ای این ٹی کے ایک ماہر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایسے ہتھیاروں کا استعمال یورپ میں مظاہرین کو روکنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 فٹ کی دوری تک یہ ہتھیار انسانی کانوں کو کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ہتھیاروں کے استعمال سے نہ صرف مظاہرین کے کانوں کو نقصان ہوگا بلکہ آنکھوں کے اندر موجود پانی کو روکنے والی پرت (membrane) کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس طرح آنکھیں اور کان دنوں متاثر ہوتے ہیں۔ مذکورہ ڈاکٹر نے بتایا کہ مظاہرین کے خلاف پیلٹ گن کے استعمال سے گھروں سے باہر آئے لوگ ہی متاثر ہوتے تھے، مگر LRAD کے استعمال سے گھروں کے اندر بیٹھے بچے اور بزرگ بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 26 فٹ کی دوری سے LRAD سے آنے والی آواز سے کافی دیر تک گھروں میں بیٹھے افراد کے کان بجتے رہتے ہیں، جو بچوں اور بزرگوں کیلئے کافی تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے پیلٹ گن اور پاوا شل کے متبادل کے طور پر اب بجلی کی کرنٹ دینے والے ہتھیاروں اور LRAD کو منظوری دی ہے، جو تمام کے تمام ہتھیار انسانوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔

آنکھوں میں پیلٹ لگنے والوں کی تیسری جراحیوں کا عمل قریب

ممبئی کے معروف معالج ڈاکٹر ایس نٹرانجن 21 نومبر کو چار روزہ دورے پر مقبوضہ کشمیر آرہے ہیں، جبکہ آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے افراد کی جراحیوں کا سلسلہ 22 نومبر سے شروع کیا جائے گا۔ سرینگر کے صدر اسپتال میں شعبہ چشم کے سربراہ ڈاکٹر طارق قریشی نے بتایا کہ ڈاکٹر نٹراجن 21 نومبر کو سرینگر پہنچ رہے ہیں اور 22 نومبر سے پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے افراد کی جراحیوں کا آغاز ہوگا۔ ڈاکٹر طارق قریشی نے کہا کہ ڈاکٹر نٹراجن چار دن تک مقبوضہ کشمیر میں ٹھہریں گے اور اس دوران وہ مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے افراد کی دوسرے اور تیسرے درجے کی جراحیاں انجام دیں گے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ایس نٹراجن نے پچھلے چار کشمیر دوروں کے دوران 173 جراحیاں انجام دیں، جن میں 29 جولائی کو 44، 19 اگست کو 66، 29 ستمبر کو 63 جراحیاں انجام دی گئیں۔ سرینگر کے صدر اسپتال میں ابتک آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے 1127 نوجوانوں کا داخلہ کیا گیا ہے جن میں 746 کی پہلے درجے اور 300 کی دوسرے درجے کی جراحیاں انجام دی گئی ہیں جن میں 6 دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے ہیں، جبکہ 70 افراد ایک آنکھ کی بینائی کھوچکے ہیں۔ سرینگر کے رعناواری علاقے میں دونوں آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے نوجوان دانش احمد نے بتایا کہ جراحیوں کی وجہ سے اسکی آنکھ کی بینائی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دو جراحیاں حیدرآباد انڈیا میں انجام دی گئی، جبکہ تیسری جراحی ڈاکٹر ایس نٹراجن نے انجام دی مگر جراحیوں کے باوجود کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ صدر اسپتال میں شعبہ جشم کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے افراد میں بیشتر کو گہرے زخم لگے ہیں، جس کی وجہ سے جراحیوں کے باوجود کوئی فرق محسوس نہیں ہو رہا ہے۔

قوم کے اوپر ذمہ داریاں

جیسا بیان ہوچکا کہ کشمیر کی موجودہ عوامی احتجاجی لہر میں اب تک ہزاروں افراد کی آنکھوں کو پیلٹ گن، پاوا شل وغیرہ سے زخمی کر دیا گیا ہے، جن میں سے اکثر ایک آنکھ اور بہت بڑی تعداد میں لوگ دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ یہ ایک ایسا سنگین انسانی المیہ ہے، جو ہماری قوم کے حساس اور باشعور طبقہ کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔ قومی و ملی کاز کی خاطر متاع عزیز قربان کرنے والے ان افراد کی امداد کے ہر طریقہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم کے یہ ہیرو ہماری غفلت اور سرد مہری کی وجہ سے معاشرے کے لئے نشان عبرت بن جائیں۔ وقت کی جو سب سے اہم ضرورت ہے، وہ ان متاثرین کی طبی امداد کا مسئلہ ہے۔ ان میں سے بہت سارے ایسے زخمی افراد ہیں، جن کو اگر بروقت علاج کی سہولیات میسر آجائیں تو شاید اُن کی بینائی کو بچایا جاسکتا ہے۔ ایسے افراد کی اگر مناسب مالی امداد کے ساتھ ساتھ صحیح طبی رہنمائی فراہم کی جائے تو ممکن ہے کہ اُنکی بینائی کو واپس لایا جاسکتا ہے۔ پیلٹ متاثرین میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں، جن کی دونوں آنکھوں کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچایا گیا اور جن کے متعلق ڈاکٹر صاحبان نے واضح کر دیا ہے کہ اُن کی بینائی واپس لوٹ آنا اب کرشمہ ہی ہوگا۔ ایسے افراد درجنوں کی تعداد میں ہیں اور اگر اُنکے متعلق قوم نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو نہ صرف یہ عنداللہ ایک قابلِ مواخذہ مجرمانہ فعل ہوگا بلکہ تحریک آزادی کشمیر کو بہت حد تک نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ متاثرین میں ایسے نوجوان بھی ہیں، جن کے سامنے ابھی پوری زندگی پڑی ہے، ان کی تعلیم، روزگار اور خاندانی زندگی آباد کرنا اب یہ صرف اُنکا ذاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ پوری قوم کا مسئلہ بن چکا ہے۔ قوم کے لئے اپنے ان محسنوں کی باوقار طریقے پر خبرگیری کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ صرف توجہ اور پھر عزم کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 582862
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش