1
0
Monday 21 Nov 2016 01:29

سفر نامہ عشق

سفر نامہ عشق
تحریر: ایس ایم شاہ

کسی چیز کی طرف نفس کا شدت سے مائل ہونا عشق کہلاتا ہے۔ (غزالی)1 کسی شخص یا کسی چیز سے رابطہ جب شدت کے ساتھ اوج کمال تک جا پہنچے، یہاں تک کہ خود انسان کے وجود کو بھی وہ چیز یا وہ شخص مسخر کرکے مطلق طور پر اس کے وجود پر حاکم بن جائے، اس کیفیت کو  “عشق” کہا جاتا ہے۔ (شهید مطہری﴾2 جب محبت جوان ہوجاتی ہے تو اسے عشق کا نام دیا جاتا ہے۔ عشق؛ عَشَقَ سے بنا ہے، یہ ایک ایسا پودا (عشق پیچاں﴾ ہے، جو اپنے ہمسایہ درختوں  پر جڑ سے لپٹتا ہوا شاخوں تک جا پہنچتا ہے۔ اسی طرح جب محبت میں تقویت آتی ہے تو یه بھی "عشق پیچاں"  کی مانند مکمل طور پر انسان کے دل پر چھا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے محبت کی آخری منزل کو عشق کا نام دیا گیا ہے۔ (جزائری﴾3 لوئی ماسینیون کا کہنا ہے: قدیم عرفاء عشق کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا کرتے تھے۔ وہ عشق کی جگہ محبت کی تعبیر استعمال  کرتے تھے۔ شاید انھوں نے اس تعبیر سے استفادہ، شہوانی اور جسمانی عشق سے بچنے کی خاطر کیا  ہو۔ 4 جس نے بھی عشق کی تعریف کی، گویا اس نے اسے درک نہیں کیا۔ یہ ایک ایسی شراب ہے جو کسی کو بھی سیراب نہیں کیا کرتی۔(ابن عربی)5 غیر مناسب حرکات و سکنات کا انجام دینا عشق کے ساتھ میل نہیں کھاتا؛ کیونکہ عشق ہی نامناسب اور غیر اخلاقی کاموں کا دشمن ہے۔(افلاطون)(6) ارسطو عشق کو شدید محبت سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو صرف ایک ہی ہستی سے متعلق ہوسکتا ہے۔ اسی تعریف کو اکثر مسلمان دانشوروں نے بھی قبول کیا ہے۔(7)

اس گزرنے والی اور ناپائیدار دنیا میں لوگوں کے اپنے اپنے محبوب ہیں۔ جس کو جس قدر اپنے محبوب سے محبت ہوتی ہے، اسی حساب سے وہ اس کی یاد میں بھی مگن رہتا ہے۔ ان محبوبوں میں سے ہر ایک کی یاد اور وصال کے لمحات محب کی زندگی کے سب سے اہم ترین لمحات ہوتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی اپنے محبوب سے محبت جس قدر زیادہ ہوگی، اتنی ہی اس کی زندگی میں محبوب کی یاد بھی زیادہ ہوگی۔ ساتھ ہی معشوق کے نقوش عاشق کی زندگی میں نمایاں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کو اپنے محبوب سے جو پیار و محبت اور لگاؤ ہے، یہ اس مثبت اثر کا نتیجہ ہے جو محبوب ان کی زندگی پر چھوڑتا ہے۔ خوش قسمتی سے میرے حصے میں بھی عشق حسین ؑ آیا۔ امام حسین سے عشق بھی درحقیقت خدا ہی سے عشق کرنا ہے، کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: خدا اس سے محبت کرتا ہے، جو حسین سے محبت کرے.﴿۸﴾ گویا حسین ؑ سے عشق و محبت کرنا وسیلہ ہے خدا سے لو لگانے کا۔

میں ہمیشہ اس تڑپ میں ہوتا تھا کہ کہیں ذکر حسین ؑہو تو میں بھی اس میں شرکت کرکے تسکین قلب کا سامان فراہم کروں۔ ماہ محرم الحرام (۱۴۳۷ہجری) قریب آتا گیا۔ میرے محبوب پر ہونے والے مصائب کا جب بھی تذکرہ ہوتا میرا دل بے چین ہوجاتا۔ میں دل ہی دل میں کہتا رہتا کہ کاش اگر میں کربلا میں ہوتا تو میں اپنے محبوب پر کوئی آنچ نہ آنے دیتا۔ روزانہ میں مجلس عزا میں شرکت کرتا اور حسینؑ کی مظلومیت سن کر خوب گریہ کرتا۔ یکایک جامعہ روحانیت بلتستان کی جانب سے مجلس کے اختتام پر ہی اعلان ہوا کہ جو بھی امام عالی مقام کا چہلم کربلا میں منانے کے آرزومند ہیں، وہ اپنے کاغذات ہمارے پاس جمع کرائیں۔ وہ کیفیت میرے بیان سے بالاتر ہے، جو اس وقت میرے دل پر طاری ہوئی۔ وہاں موجود افراد میں سے ہر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میرا نام زائرین امام حسینؑ کی صف اول میں ہو۔ ویزا بھی لگ گیا۔ محبوب سے ملاقات کے شوق نے مجھے بے چین کر دیا۔ خوش قسمتی سے وہ وقت بھی آن پہنچا کہ ہم  آمادہ سفر ہوگئے۔ بہت سارے دوست ہمارے استقبال کو بھی آئے۔ عود و عنبر سے معطر ہوکر ہم محمد و آل محمد پر درود بھیجتے ہوئے گاڑی میں سوار ہوگئے۔ چند گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے بعد "شلمچہ" عراق بارڈر پر پہنچے۔ وہاں باڈر کے دونوں طرف ایران اور عراق کے عاشقین امام عالی مقام کی جانب سے قیام و طعام کا مفت بندوبست تھا۔ ہم نے مختصر وقت میں ناشتہ کرنے کے بعد باڈر پار کیا۔

وہاں باڈر پر متعین سکیورٹی کے عہدے دار نہایت خوش اخلاق اور بہت ہی بامروت تھے۔ وہاں کافی رش تھا۔ تھوڑی دیر میں ہماری انٹری بھی لگ گئی۔ ادھر عراقیوں نے "تفضل یا زوار الحسین" کہ کر ہمارا بھرپور استقبال کیا۔ وہاں کے لوگوں کی امام حسینؑ سے عقیدت قابل دید تھی۔ سرحد عبور کرتے ہی ہمارے ایک ساتھی بیمار پڑ گئے۔ ابتدا میں تو ہم پریشان ہوگئے کہ اتنے رش میں کہاں اس کے علاج کا بندوبست ہوگا۔ لیکن ایران کی جانب سے وہاں متعین ڈاکٹروں کا رویہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ اس وقت ہم دیار غیر میں نہیں بلکہ اپنے ہی دیس میں ہیں۔ نہایت خوش اسلوبی سے ان کا علاج معالجہ کیا گیا۔ پھر ہم کاظمین اور سامراء کی طرف عازم سفر ہوئے۔ معشوق سے عشق کی حرارت اس قدر شعلہ ور تھی کہ سفر کی تھکاوٹ میں بھی خوب لذت محسوس ہو رہی تھی۔ گھڑیاں گنتے رہے۔ رات کے آخری پہر ہم کاظمین میں امام موسٰی کاظم ؑاور امام محمد تقی ؑ کی بارگاہ  ملکوتی میں پہنچے۔ شوق دید کے باعث فوری تجدید وضو کیا۔ پھر ہم باب الحوائج کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ بہت ساری حاجتیں لیکر گئے تھے۔ دوستوں نے بھی خصوصی دعا کی التماس کی تھی۔ اب زندگی کا اعتبار بھی نہیں کہ آئندہ بھی اس بارگاہ میں حاضری نصیب ہوتی ہے یا نہیں۔ خوب گڑگڑا کر دعائیں کیں۔ اس وقت رونے میں جو لطف آرہا تھا شاید ہی زندگی میں دوبارہ کبھی آئے۔

نماز صبح باجماعت ادا کرنے کے بعد امام کی بارگاہ میں ناشتہ کیا۔ بعدازاں سسکیاں لیتے ہوئے ہم اپنے مولا و آقا کو خدا حافظ کہ کر سامرا کی جانب نکل پڑے، جہاں امام علی النقیؑ اور امام حسن العسکریؑ کا حرم مبارک ہے۔ داعش کے عراق میں آنے کے بعد سے یہاں کے حالات مفلوج ہوکر رہ گئے تھے۔ اس وجہ سے ہم کافی پریشان تھے کہ خدا نہ کرے کہ اس بار بھی کہیں ان معصوم ہستیوں کی زیارت سے محروم نہ رہ جائیں۔ دعائیں کرتے اور گڑگڑاتے ہوئے ہم سامرا پہنچے۔ خدا نے ہمارے دل کی آواز سن لی۔ امام کی طرف سے بھی اذن زیارت مل گیا۔ اس وقت ہم پھولے نہ سمائے۔ ظہر کے قریب ہم وہاں پہنچے۔ زیارت اور باجماعت نماز  کی ادائیگی کے فوراً بعد حرم مبارک کی انتظامیہ کی جانب سے ظہرانے کی دعوت ملی۔ اس وقت ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ  گویا ہمارے لئے جنت سے خوان نازل ہوا ہے۔ اژدھام کے باعث کافی دشواری پیش آئی، لیکن آخرکار ہم خوان امام تک پہنچ ہی گئے۔ صاف ستھرا ماحوال تھا۔ تھوڑا تبرک کھا لیا اور کچھ حصہ بچا کر دوسروں کے لئے بھی لیکر آئے۔ بعد ازاں ہم نجف اشرف کی طرف نکل پڑے۔

باب العلم کی بارگاہ میں حاضری کا شرف ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ سہ پہر تین بجے کے قریب ہم نجف اشرف پہنچ گئے۔ غسل کیا، نئے کپڑے پہنے، عطر سے معطر ہونے کے بعد حرم مبارک چلے گئے۔ حرم پہنچتے ہی ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا خلد برین میں پہنچ گئے ہیں۔ نہ گھربار کی فکر تھی، نہ دنیا وما فیھا کی سوچ، جی کرتا تھا کہ وہیں پر ہی جان، جان آفرین کے حوالے کرکے حرم امیر المومنین کو اپنا ابدی مسکن بنا لیں۔ ایسا اطمینان و سکون نہ دنیا کی مال و دولت سے نصیب ہوتا ہے، نہ اقتدار و حکومت سے۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے، جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ الغرض تین چار دن بارگاہ ملکوتی میں گزارنے کے بعد ہاتھ میں ایک چھوٹا سا علم، پشت پر ایک چھوٹا سا بیگ لئے ہم راہی کربلا ہوئے، نجف سے کربلا کا سفر تقریبا 85 کلومیٹر ہے۔ وسیع و عریض سڑکیں ہیں۔ ان میں سے دو بڑے راستے  پیدل چلنے والوں کے لئے مخصوص ہیں۔ ایک سڑک پیدل چلنے سے قاصر افراد کو گاڑی میں لے جانے کے لئے مخصوص ہے۔ نجف سے لیکر کربلا تک چودہ سو کچھ کھمبے ہیں، کھمبے کے دونوں جانب ان شہیدوں کی تصاویر آویزاں ہیں، جو داعش سے مقابلے میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں، ان جوانوں کی خوبصورت تصویریں دیکھ کر شہزادہ علی اکبرؑ اور حضرت قاسمؑ کی یادیں تازہ ہونے لگتی ہیں۔

ان سب ستونوں پر نمبر بھی لگے ہوئے ہیں۔ اسی نشانی کے تحت زائرین سفر طے کرتے ہیں۔ سفر میں عراقیوں کی سخاوت، ایثار، اخلاق، مروت، فداکاری۔۔۔ کو دیکھ کر میں نے اپنے تئیں کہا کہ تم جو محبت اہل بیتؑ کا دم بھرتے ہو، وہ محض ایک زبانی دعوے سے زیادہ کچھ نہیں، حقیقی عاشق اور محب تو یہ لوگ ہیں۔ اس طویل راستے میں زائرین کی خدمت اور رفاہ کے لئے اتنے مراکز بنائے گئے تھے  اور رضاکار معین تھے کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آسمان کے فرشتے زائرین امام حسینؑ کی خدمت کے لئے اتر آئے ہیں۔ ان کے خلوص کے باعث جب بھی ان سے کوئی چیز تبرک سمجھ کے اٹھاتا، تب ایسا محسوس ہوتا کہ فردوس بریں میں نعمت الٰہی سے لطف اندوز ہو رہا ہوں، ہم نے دنیا کے مختلف ممالک  کا مشاہدہ کیا ہے، لیکن ایسے عاشق کہیں دکھائی نہیں دیئے جو ہم نے اس راستے میں دیکھے۔ ہر کوئی اپنی پوری ہستی کو اٹھائے زائرین کی خدمت میں پیش پیش تھا، صرف بزرگ اور جوان ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہاتھوں میں پانی اور کھانا لئے جب ہمارے پاس آتے، تب فوراً حضرت علی اصفر ؑکی بھوک اور پیاس ہمارے سامنے تازہ ہوجاتی۔

عشق کے آنسووں کا سیلاب بہتا، پھر ہم اپنے سفر کو جاری و ساری رکھتے۔ ہم مولی کے عشق میں دنوں کی مسافت گھنٹوں میں اور گھنٹوں کی مسافت منٹوں میں طے کر رہے تھے، جب مختصر وقت کے لئے استراحت کی خاطر ٹھہرتے، تب عشق کی حرارت فوراً ہمیں بے چین کرتی، تب ہم دوبارہ چل پڑتے، پوری دنیا سے  آئے ہوئے لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ نہ ان میں کوئی جھگڑا فساد تھا، نہ رنگ و نسل کا کوئی فرق، نہ عرب و عجم کی کوئی خبر تھی، نہ امیر و غریب کا پتہ چلتا تھا، نہ بوڑھے اور جوان کا امتیاز تھا، کیونکہ سب کا جذبہ عشق جوان ہی دکھائی دے رہا تھا، نہ کسی کے صحت مند یا مریض ہونے کا پتہ چلتا تھا، نہ مذہب و مکتب کی کوئی بات تھی، نہ قبیلہ ای دشمنی کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا۔ کیونکہ وہاں پہنچ کر سب کا مکتب، مکتب عشق حسین بن چکا تھا، سب یہی چاہتے تھے کہ سب سے پہلے میں ہی امام کی بارگاہ ملکوتی میں حاضری دوں، اپنا جبین نیاز زہراؑ کے لال کے روضے سے مس کروں۔ اپنے کئے پر توبہ کر لوں، اپنی حاجات ان کے  وسیلے سے خدا تک پہنچاوں، کروڑوں کا اجتماع تھا، نہ ان کے لئے کھانے پینے کی کوئی کمی تھی، نہ رہائش کا فقدان، نہ کوئی زخمی دکھائی دیتا تھا اور نہ ہی کوئی جانی نقصان کا مشاہدہ۔

خلاصہ یہ کہ دو دن کے بعد ہم سرزمین کربلا میں  وارد ہوگئے، اس کے نام میں ہی ایسی تاثیر پائی جاتی ہے کہ سنتے ہی بے اختیار آنسو نکل پڑتے ہیں۔ سکیورٹی کا خصوصی انتظام تھا، مکمل تلاشی لینے کے بعد ہی کربلا میں داخل ہونے کی اجازت مل رہی تھی، ہماری بھی مہذبانہ انداز اور بہت ہی اچھے اخلاق کے ساتھ تلاشی لی گئی۔ ہم شوق دید میں تیز تیز چلتے گئے، پھر ایک سرکاری سکول میں رہائش پذیر ہوئے، یاد رہے کہ  ان ایام میں کربلا کے اکثر مکین اپنے مکانوں کو خالی کرکے زائرین کے لئے مختص کر دیتے ہیں، اسی طرح اکثر سرکاری ادارے بھی زائرین کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ وہاں پر صاف ستھرا ماحول تھا، زائرین کے لئے تمام بنیادی ضرورت کی اشیاء فراہم تھیں، حتی کہ کپڑے دھونے کے لئے مشینیں اور صابن وغیرہ بھی میسر تھا، مستحب نیت سے غسل کیا، اجلے ملبوس میں ملبس ہوگئے، پھر اجتماعی صورت میں ہم حسین حسین کا ورد کرتے ہوئے حرم کی طرف چلے، وہاں پہنچ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میدان محشر میں پہنچ گئے ہیں اور زہرا کا لال اپنے پیروکاروں کی شفاعت کر رہا ہے، لوگ بھی جوق در جوق ایسے اشتیاق سے وارد حرم ہو رہے تھے کہ گویا ابدی جنت میں داخل ہو رہے ہوں، یہ ایک ایسی قلبی کیفیت ہے جس کے بیان سے میری زبان گنگ اور قلم عاجز ہے، کاش آج بھی ہم کربلا میں ہی ہوتے!!!

1۔ العین،ج۱، ص ۱۲۴
2۔ مطہری، مجموعہ آثار، ج۱۶، ص۲۵۰
3۔ منهاج النجاح في ترجمة مفتاح الفلاح؛ مقدمه‏2؛ ص87
4۔ بابک احمدی، چہار گزاریش از تذکرۃ الاولیاء عطار، ص۴۶، ناقل، ایضا،ص۲۶۴
5۔ الفتوحات المکیہ، ج۲،ص۱۲۱، ناقل ایضا، ص ۲۶۳
6۔ رسالہ مہمانی از پنچ مقولہ رسالہ افلاطون، ص۳۱۱، ناقل ایضا ص۱۱۴
7۔ پورنا مداریاں، دیدار با مرغ،ص۸، ناقل،عشق در مکتب غزالی،ص۵۶
8۔ بحار الأنوار (ط - بيروت) / ج‏37 / 74
خبر کا کوڈ : 585352
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Insha Allah ham sb ap samait mujh samait jald karbala mae qabr e muqaddas e imam aali mqam ki ziyarat ka sharaf hasil karaen ga. Insha Allah
ہماری پیشکش