3
0
Tuesday 22 Nov 2016 21:32

اے اہل عراق

اے اہل عراق
تحریر: توقیر ساجد

نجف سے کربلاء پیدل چلنے والے زائرین کی خدمت کا سلسلہ جاری تھا۔ رپورٹر علی بسیجی نے عراقی خادم سے دریافت کیا کہ جب یہ کروڑوں لوگ اپنے اپنے وطن لوٹ جاتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے۔ دن رات زواروں کی خدمت کرنے والے شخص نے کہا جب یہ عشاق یہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں تو گویا ہماری روح ہی نکل جاتی ہے، ایک طویل انتظار کا سلسلہ شروع ہو جاتا کہ کب اربعین کے دن آئیں گے اور ہم زائرین کی خدمت کریں گے۔ یہ جذبہ صرف ایک موکب پر موجود عراقی کا نہیں ہے بلکہ تمام خادمین کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ یہ صدام کے دور حکومت کے خاتمہ کے دنوں کی بات ہے کہ جونہی کوفہ، بصرہ اور بغداد کے اہل تشیع نے میڈیا کے ذریعے سے یہ جانا کہ صدام کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے تو انہی دنوں ایام عزاء تھے۔ عزاداروں نے پیدل ہی کربلاء کا رخ کیا، اس سے قبل خفیہ راستوں سے کربلاء کی طرف جاتے تھے، کہونکہ صدام کے دور حکومت میں ہزاروں اہل تشیع کو شہید کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ کربلاء کے لئے بڑی شاہراوں کی بجائے خفیہ راستوں سے جایا جاتا تھا۔ اس سفر کے دوران اہل تشیع راستوں پر رات میں سفر کرنے والوں کے لئے چراغ سے روشنی اور زمین پر تیر کے نشان سے رہنمائی کرتے تھے، اگر کوئی مسافر راہ مل جاتا تو اس کی گھر میں خدمت کی جاتی۔

صدام کی حکومت کے خاتمہ تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، لیکن ظالمانہ حکومت کا تختہ الٹا تو اہل تشیع بھی پیدل نجف، بغداد، بصرہ اور کوفہ سے روانہ ہوئے۔ پیدل چلنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ اس موقع پر موجود عالمی میڈیا نے دکھایا کہ صدام کے جانے کے بعد یہ لوگ کس قدر بیتابی سے پیدل کربلاء کی طرف گامزن ہیں۔ پیدل چلنے والوں کیلئے عراقیوں نے خدمت کیلئے چائے، پانی اور کھانوں کا انتظام کیا، رفتہ رفتہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ اربعین اور عاشور کے دنوں میں پیدل کربلاء کی طرف سفر میں زائرین کی تعداد بڑھنے لگی اور اس بات کو دنیا نے میڈیا ذریعے سے جانا، یہ وہی میڈیا جو اب کروڑوں زائرین کا پیدل سفر سکھانے قاصر ہے، لیکن اب کی بار گذشتہ سال سے زیادہ زائرین نے شرکت کی اور اگلے سالوں میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کربلا کی طرف سفر کا آغاز کس زائر نے کیا، جبکہ آئمہ معصومین (ع) کے فرامین کے مطابق اس کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے۔ معروف اہلسنت محقق محمد عامر حسینی لکھتے ہیں کہ 20 صفر المظفر 61ھ کو جابر بن عبداللہ الانصاری کی کربلا آمد اور وہاں پہ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت والے واقعے کو چھپایا گیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش بھی ہے کہ اہل بیت اطہار کا سیاسی کیمپ جسے بجا طور پہ کبار صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کے ایک بہت بڑے دھارے کی مدد حاصل تھی، اسے ایک اقلیتی ٹولہ بناکر دکھایا جائے اور قیام حسین کے بعد پیدا ہونے والے ردعمل کو بھی ہلکا سا ارتعاش بناکر دکھایا جائے۔ جابر بن عبداللہ الانصاری کی کربلا آمد کے بارے عطیہ بن سعد بن جنادہ کوفی روایت کرتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ الانصاری نے فرات پہ پہنچ کر اچھی طرح سے غسل کیا، پھر بازار سے جا کر نئے کپڑے خریدے اور قبر امام حسین کا رخ کیا اور اس دوران آپ نے ذکر حسین جاری رکھا اور جب یہ قبر امام حسین پہ پہنچے تو انہوں نے اپنے آپ کو قبر امام پہ گرا دیا۔

قبر کو اپنے گالوں سے مس کیا اور اتنا روئے کہ غش کر گئے۔ جب اٹھے تو انہوں نے قبر پہ کھڑے ہوکر کچھ یوں کہا بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خاتم النبین کے بیٹے ہیں اور دو وصیت والے کے بیٹے ہیں۔ آپ سلیل ہدایت ہیں اور جن کو کسا میں چھپایا ان میں آپ کا نمبر پانچواں ہے، آپ سید النقبا کے بیٹے ہیں اور عورتوں کی سردار فاطمۃ الزھرا کے بیٹے ہیں۔ آپ کی حیات طیب، آپ کی موت طیب اور میں گواہی دیتا ہوں آپ پہ جو گزرا، وہ ویسے ہی ہے جیسے آپ کے بھائی ابن زکریا پہ گزرا تھا۔ جابر بن عبداللہ الانصاری کی 20 صفرالمظفر 61ھ کو قبر امام حسین رضی اللہ عنہ حاضری کے بعد سے مسلم سماج کے اندر سے ہر 20 صفرالمظفر کو کربلا حاضری کی ایک روایت شروع ہوئی اور آج تک یہ جاری و ساری ہے اور اسے قریب قریب سبھی مذاہب کے ماننے والوں نے اس روایت کو شرف قبولیت بخشا ہے، یہ ایک عالمی فیسٹویل بن گیا ہے اور یہ انسانیت سے محبت اور ظلم کے خلاف تجدید عہد کرنے والا ایونٹ بن گیا ہے۔

بے شک اہل سنت اور اہل تشیع کے نزدیک 20 صفر المظفر یعنی اربعین کی ایک مذہبی حیثیت اور تعبیر ہے، لیکن عالمی سطح پہ اس کی ایک عمومی اور مطلق اہمیت بن گئی ہے اور یہ امام حسین کے عالمی استعارہ بن جانے سے جڑی ہے۔ 30 ہزار کی لشکر یزید کی فوج کے سامنے 72 افراد کی امام حسین (ع) کے ساتھ مزاحمت کی یاد بن جانے والا یہ ایونٹ ان سب شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے والا واقعہ بن چکا ہے اور اس دن کو زندہ کرنے کا کریڈٹ جابر بن عبداللہ الانصاری اور عطیہ بن سعد بن جنادہ کوفی کو جاتا ہے۔ عطیہ نے جبر و ظلم کے خلاف تاریخی مزاحمت کو اتہاس کے پنوں پہ محفوظ رکھنے کی بہت بڑی قیمت ادا کی۔ اسے کوفہ سے جلاوطن ہونا پڑا، پھر اس نے فارس میں محمد بن قاسم ثقفی کے ہاتھوں بڑا تشدد سہا اور سو کوڑے کھائے، خراسان میں جلاوطنی کاٹی اور پھر وہاں سے بھی روپوشی کی زندگی گزاری اور 61ھ کے بعد سے مسلسل اس نے بنو امیہ کے خلاف زیر زمین لڑائی کی، وہ بیک وقت ایک مجاہد آزادی بھی تھے اور ساتھ ساتھ وہ مظلوموں کی تاریخ کے شاہد اور گواہ بھی تھے۔

کروڑوں زائرین کی خدمت انجام دینے اور اس عظیم سفر کا آغاز کرنے والے صحابی جابر بن عبداللہ الانصاری اور سفر زیارت کی روایت کو زندہ کرنے پر پر دنیا بھر کے عاشقین امام عراقیوں کے ساتھ ساتھ جابر بن عبداللہ الانصاری اور عطیہ بن سعد بن جنادہ کوفی کا شکریہ ان الفاظ سے کرتے ہیں۔
تم شریف لوگوں میں سے ہو
تم کریم لوگوں میں سے ہو
امام حسین کی خدمت و محبت کیلئے
جو کچھ ہے سب لٹا رہے ہو
پروردگار برکت ڈالے
تمہاری نعمتوں میں اضافہ کرے
ہم آپ کے شکر گزرا ہیں
ان تمام سخاوتوں میں
ان قربانیوں پر
جو امام کی راہ میں پرخلوص ہیں
خبر کا کوڈ : 585982
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

توقیر ساجد
Pakistan
کالم پڑھنے والوں سے فیڈ بیک کی گزارش ہے
نذر حافی
Iran, Islamic Republic of
دل میں اتر جانے والی تحریر ہے۔ خدا اور زیادہ قوت قلم عطا کرے۔
توقیر ساجد
Pakistan
استاد محترم شکریہ
ہماری پیشکش