0
Friday 25 Nov 2016 10:13

سفر عراق، محسوسات اور تاثرات

سفر عراق، محسوسات اور تاثرات
تحریر: سید اسد عباس
(نجف،عراق)

خداوند کریم نے پہلی مرتبہ اپنے حقیر عبد کو اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم، انبیائے کرام اور اولیاء اللہ کے مراقد کی زیارت کا شرف بخشا، جو مجھ جیسے گناہ گار انسان کے لئے واقعاً ایک لطف خداوندی ہے، جس کا شکر میں زبان، تحریر یا کسی اور ذریعے سے ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ بقول شاعر
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات کی
سید الشباب اہل الجنۃ حسین ابن علی اور شہدائے کربلا کے مراقد پر حاضری، میدان کربلا کا مشاہدہ، سید العارفین مولائے کائنات علی مرتضٰی کے مرقد اور دیگر انبیائے کرام منجملہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام کے مزارات پر حاضری، ائمہ اہل بیت علیھم السلام کے مراقد کی زیارت اور ان مقامات کی روحانی فضاوں میں سانس لینا واقعاً ایک عظیم سعادت ہے۔ خداوند کریم ہر انسان کو اس سعادت سے بہرہ مند کرے اور جو لوگ یہ سعادت پا چکے ہیں، انہیں بار بار اس سعادت کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ائمہ اہل بیت علیہ السلام سے مروی روایات میں ان اماکن کی زیارت کا بے پناہ ثواب بیان کیا گیا ہے۔ عراق کی سرزمین بہت سے انبیاء کا مسکن رہی، آج اس سرزمین پر ان میں سے بعض انبیاء اور اولیاء اللہ کے مزارات موجود ہیں، جن میں سے چند کے نام میں نے قبل ازیں لکھے، ان کے علاوہ عراق میں امام موسٰی کاظم، امام محمد تقی، امام علی نقی، امام حسن عسکری علہیم السلام نیز ان ائمہ کے اقرباء، اولادیں اور اصحاب مدفون ہیں۔ عراق کی سرزمین ابتداء سے ہی علم و حکمت کا مرکز رہی ہے۔ اس سرزمین پر بہت سے جید علماء و مجتہدین کے مزارات بھی مرجع خلائق ہیں۔ صوفیاء و عرفاء کا بھی ایک طویل سلسلہ ہے، جن کے مزارات اس سرزمین کا خاصہ ہیں۔

ہم میں سے بعض احباب اولیائے خدا کے مزارات پر حاضری کو خلاف اسلام تصور کرتے ہیں۔ میں عقیدتی و کلامی بحث میں داخل نہیں ہونا چاہتا، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ ان مزارات پر حاضر ہو کر انسان کو اللہ کی یاد آتی ہے، اس کی عظمت و جلالت، اس کے وعدوں کی ایفاء کا منظر نظر آتا ہے۔ ان مزارات پر حاضری اور کیفیت کا انسان کے باطن سے بہت گہرا تعلق ہے، انسان باطنی طور پر جس حالت پر ہو اسے ان اماکن پر ایسے ہی مناظر سے واسطہ پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال میرا ذہن اس حال و کیفیت میں نہیں کہ جو کچھ میں نے یہاں محسوس کیا ہے، اسے پوری طرح سے بیان کر سکوں، شاید آہستہ آہستہ میں ان تمام کیفیات کو مجتمع کرکے بیان کے قابل ہو جاؤں۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میرا یہ سفر کربلا، نجف، کاظمین اور سامرہ کی جانب نہیں بلکہ اپنے باطن کی جانب تھا، جس کے لئے میری ان مقامات پر حاضری ضروری تھی۔ ان ہستیوں کا کوئی بھی معتقد جب ان اماکن کی جانب سفر کرتا ہے تو وہ ملے جلے جذبات کا حامل ہوتا ہے، جس میں محبت، عقیدت، غم، احترام اور اخروی توشہ کے حصول کی خواہش کے جذبات زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ محبت و عقیدت کا منبع اہل بیت اطہار علیہم السلام کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وہ احادیث ہیں، جن میں ان ہستیوں کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔ غم کا منبع ان ہستیوں پر ہونے والے مظالم کی تاریخ ہے، ان ہستیوں کی عظمت کے مدنظر احترام کا ہونا ایک بدیہی امر ہے اور ان کے اماکن پر حاضری سے حاصل ہونے والے ثواب کا تذکرہ اس سعادت کے اخروی توشہ ہونے پر دلیل ہے۔

تاہم جب آپ یہاں پہنچ گئے اور مرقد سے روبرو ہوئے تو انسان کی عقل اور حواس جاتے رہتے ہیں۔ یہ بدحواسی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جاتی ہے، چونکہ ہر نئے لمحے میں ایک نیا منظر آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ اربعین حسینی کے موقع پر لاکھوں انسان کربلا میں جمع ہوتے ہیں اور نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں، چونکہ ہم نے نہ اس قدر اژدھام ایک جگہ دیکھا ہوتا ہے اور نہ ہی موجود حالت سے ہم پہلے کبھی درپیش ہوئے ہوتے ہیں، اس لئے ہمارا سابقہ تجربہ یہاں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہمارا ہی منہ تک رہا ہوتا ہے۔ آپ کے سامنے سے گزرنے والا ایک چہرہ دوسری مرتبہ آپ کے سامنے سے نہیں گزرے گا، اگر کوئی چیز بار بار آپ کو نظر آئے گی تو وہ فقط گنبد حسینی ہے، زمین ہے، آسمان ہے اور انسانوں کا ایک سمندر۔ انسان اپنی عقل، ذہن اور سابقہ تجربہ سے نئے حالات سے نبرد آزما ہوتا ہے، تاہم جو کچھ کربلا اور ان اماکن پر نظر آتا ہے، انسان کو نہ اس کا تجربہ ہے، نہ انسانی عقل اس کا تجزیہ کرسکتی ہے اور نہ اتنی فرصت ہے کہ معاملات کو درک کیا جاسکے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک سمندر ہے اور مجھے اپنے آپ کو اس کی موجوں کے سپرد کرنا ہے۔ یہ مشکل کام ہے جو عموماً ہماری زندگی میں نہیں ہوتا، لیکن کربلا میں یہی ہوتا ہے۔

میں مرقد امام عالی مقام پر متعدد بار گیا، ان کے گنبد کا نظارہ، ضریح پر پہلی نظر یہ سب کیفیات ایک پوری داستان ہیں، جن کو سمجھنے کے لئے وقت درکار ہے، عجیب ہیبت و جلال ہے، جس کا بیان شاید ممکن نہیں، جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا کہ ہر انسان اپنی باطنی کیفیت کے مطابق ان مناظر کو محسوس کرتا ہے، ممکن ہے کسی دوسرے فرد کو ان مقامات پر کچھ اور محسوس ہوا ہو، لہذا ان کیفیات کو بیان کرنا شاید مناسب نہیں۔ گھنٹوں انسان ٹکٹی باندھے سونے اور چاندی سے مزین ضریح امام عالی مقام کو دیکھ سکتا ہے، تاہم اس کو چھونا امکان سے باہر ہے۔ کم از کم اربعین حسینی کے موقع پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس میں دن و رات کی کوئی قید نہیں، شب و روز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے، جب اس ضریح اور حرم میں انسانوں کا اژدھام نہ ہو۔ کسی نے ہمیں کہا کہ اگر آپ نے ضریح کے قریب جانا ہے تو رات کا وقت اس کے لئے نہایت مناسب ہے، چونکہ اکثر زائرین دن بھر کی تھکن کے باعث آرام کر رہے ہوتے ہیں، لہذا اس وقت امکان ہے کہ آپ ضریح امام کے پاس پہنچ سکیں، تاہم یہی وہ وقت تھا جب اس ضریح میں انسانوں کے اژدھام کے سبب سانس لینا مشکل تھا۔

متعدد بار اس آرزو کے ساتھ سیدالشہداء کے مزار اقدس پر حاضری دی کہ ضریح مقدس کی جالی کو چھو سکوں، لیکن یہ آرزو تڑپ بن کر دل میں ہی رہ گئی۔ اس قدر ہجوم میں کسی حادثے کے بے پناہ امکانات ہیں، لیکن میں نے دیکھا کہ عمر رسیدہ بزرگوں سے لے کر کم سن بچوں تک عشاق ضریح امام تک پہنچنے کی سعی کر رہے ہیں، جو کچھ دیر سعی کے بعد تھک کر کچھ دور سے ہی شہید کربلا کی ضریح کو اپنی آنکھوں سے چومتے ہیں۔ ضریح امیر المومنین علی علیہ السلام پر بھی یہی کیفیت ہے، ان عتبات عالیہ کی انتظامیہ مقدور بھر زائرین کو سہولت مہیا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نظم و نسق، حفاظت، امانات کی تحویل کا ایک وسیع انتظام ہے، تاہم جب انسانوں کا سیل رواں رکنے کو نہ آئے، اس صورت میں خواہ کس قدر ہی بڑا انتظام کیوں نہ ہو، کم پڑ جاتا ہے۔ حج کے موقع پر سعودی عرب میں ہونے والے حادثات ہمارے سامنے ہیں، فقط پچیس لاکھ حجاج کے اجتماع میں ہلکی سی غلطی کسی بڑے نقصان کا باعث بن جاتی ہے، تاہم کربلا میں اس سے کئی گنا بڑا اجتماع کیسے منظم و استوار ہے، عقل اس پر دنگ ہے۔ ان عتبات کا انتظام حکومت عراق نہیں کرتی بلکہ یہ انتظام عراقی عوام کے ہاتھ میں ہے، جگہ جگہ موکب لگے ہیں، جس میں زائرین کے لئے خوراک، پانی اور آرام کا انتظام موجود ہے۔ دستشوئی، طہارت کے لئے باقاعدہ کنٹینرز موجود ہیں، جہاں وضو سے لے کر غسل تک کا انتظام ہے اور یہ تمام انتظام اتنی کثیر تعداد میں ہے کہ انسان کو انتظار کی زحمت سے نہیں گزرنا پڑتا۔

اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ اس وقت عراق میں کس کی حکمرانی ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ حسین ابن علی علیہ السلام عراق کے بلا شرکت غیرے حاکم ہیں اور ان کی حکومت عراقیوں کے قلوب پر قائم ہے۔ ہر عراقی اپنے آپ کو خادم حسین ابن علی تصور کرتا ہے اور حق خدمت ادا کرنے کے لئے دل و جان سے سرگرم عمل ہے۔ ڈرائیور سے لے کر سربراہ مملکت تک پوری مملکت خدمت زائرین امام حسین علیہ السلام میں سرگرم عمل ہے۔ عراقی عربوں کے مزاج میں بعض ناپسندیدہ چیزیں بھی ہیں، لیکن ان کی زائرین کی خدمت نے ان کی تمام تر خامیوں کو چھپا دیا ہے۔ ہم عراقیوں کی زندگی کے معمولات کا تصور بھی نہیں کرسکتے، وہ مکان بناتے ہیں تو زائرین کی خدمت کے لئے، گاڑی لیتے ہیں تو زائرین کی خدمت کے لئے، کمبل خریدتے ہیں تو زائرین کے آرام کے لئے، ان کا اوڑھنا بچھونا زائرین کی خدمت ہے۔ خداوند کریم اس قوم کو اس عظیم خدمت پر اجر عظیم عطا فرمائے۔ اللہ نے توفیق دی تو بعد کی اقساط میں مزید محسوسات اور تفصیلات گوش گزار کروں گا۔
خبر کا کوڈ : 586416
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش