0
Friday 25 Nov 2016 11:30

حلہ میں داعش کے ’’بہادروں‘‘ کا ہلہ

حلہ میں داعش کے ’’بہادروں‘‘ کا ہلہ
تحریر: ثاقب اکبر

اہل مغرب کے ذرائع ابلاغ داعش کو بہت جلاد، بہادر بنا کر پیش کرتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو داعش سے خوفزدہ کیا جائے۔ ابھی حال ہی میں انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس نے گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں بتایا ہے کہ اس وقت دنیا کا امیر ترین دہشت گرد گروہ داعش ہے اور وہ ساٹھ سے اسی لاکھ افراد کو کنٹرول کرتا ہے، اس کے پاس تیس سے پچاس ہزار تک جنگجو موجود ہیں۔ ساٹھ سے اسی لاکھ افراد کو کنٹرول کرنے سے مراد یہ ہے کہ جن قصبوں اور شہروں پر اس کا قبضہ ہے، وہاں آبادی کی کل تعداد اتنی ہے۔ تاہم اس وقت تک عراق کے کئی ایک قصبے اور موصل شہر کا ایک حصہ داعشیوں سے آزاد ہوچکا ہے، اس طرح سے رپورٹ میں بتائی گئی یہ تعداد ایک سال قبل کی صورت حال پر منطبق ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میدان جنگ میں یہ ’’بہادر‘‘ پرلے درجے کے بزدل ثابت ہوئے ہیں۔ خاص طور پر ان کی قیادت جب بھی کوئی خطرہ محسوس کرتی ہے تو فرار کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ موصل کا جب عراقی فوج اور عوامی رضاکار فوج نے محاصرہ کیا تو داعش کے کمانڈروں کے فرار کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ ابو بکر بغدادی اپنی بیویوں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ فرار کرتا رہتا ہے اور اب موصل سے بھی اس کے فرار کی خبریں آ رہی ہیں بلکہ شاید اسے فرار کروایا جا رہا ہے۔ وہی لوگ جو ان سے مسلمانوں کوڈراتے رہتے ہیں، ان کی حسب ضرورت حفاظت کی ’’ذمہ داری‘‘ بھی ادا کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ گروہ امیر ترین کیسے بن گیا اور آج اس کے پاس دو ارب ڈالر کی خطیر رقم کیسے جمع ہوگئی۔ کون ہے جو داعش کا سمگل کیا ہوا تیل خریدتا ہے اور کون ہے جو تیل نکالنے اور پھر اسے منتقل کرنے کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ شام اور عراق کے علاقوں سے تیل ترکی کے راستے سے گزر کر اسرائیل اور پھر یورپ کی مارکیٹوں میں کیسے پہنچتا ہے۔

یہ ’’بہادر‘‘شہروں میں بم بلاسٹ کرتے ہیں، ہسپتالوں پر حملے کرتے ہیں، قبروں اور مزاروں کو اکھاڑتے ہیں، ریستورانوں اور ہوٹلوں پر دہشتگردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ گذشتہ روز کربلا سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک پرامن شہر حلہ پر کربلا سے آنے والے خالی ہاتھ نہتے زائرین کو ٹرک بم کے ذریعے سے دہشت گردی کا نشانہ بنانا، ان درندوں کی’’بہادری‘‘ کا ایک اور ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ کربلا میں محتاط اندازے کے مطابق امام حسین کے چہلم کے موقع پر تقریباً تین کروڑ سے زیادہ زائرین موجود تھے۔ ان میں ہندوستان، پاکستان، ایران، افغانستان، قطر، کویت، سعودی عرب، شمالی افریقہ، بحرین، متحدہ عرب امارات، ترکی، مصر، یورپ ، آسٹریلیا اور باقی دنیا سے گئے ہوئے زائرین شامل تھے۔ ان زائرین میں صرف شیعہ ہی نہ تھے بلکہ اہل سنت کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی، کربلا اور نجف سے سوشل میڈیا پر آنے والی تصویریں اس بات کی بھی شہادت دیتی ہیں کہ ان زائرین میں غیر مسلم بھی شامل تھے۔ ہم نے عیسائی، سکھ، ہندو اور دیگر ادیان کے مذہبی راہنماؤں کو امام حسین کے حضور اس موقع پر محبت کا خراج دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ صرف ایران سے عراق کے لئے جو ویزے جاری کئے گئے ان کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔ پاکستان سے تقریباً 50 ہزار دوہرا ویزا صرف ایرانی سفارتخانے نے جاری کیا۔ ان تمام زائرین کی حفاظت اور خدمت جس انداز سے عراقی عوام اور حکومت نے کی ہے، لفظوں میں نہ اسے خراج تحسین پیش کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کی عکاسی کی جاسکتی ہے۔

داعش نے پہلے ہی چہلم شہدائے کربلا کے موقع پر دہشتگردانہ حملے کی دھمکی دی تھی، لیکن عراقی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے داعشی تکفیریوں کے شدت پسندوں کی ایک کارروائی اس وقت ناکام بنا دی، جب انھوں نے اربعین کے موقع پر کربلا کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تھی۔ ان میں چھ خودکش بمبار مغربی قصبے عین تمر میں داخل ہوئے تھے۔ ان میں سے پانچ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا، جبکہ چھٹے خودکش بمبار نے خود کو اڑا دیا تھا۔ جس سے آٹھ شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس موقع پر داعش کی دیگر تمام کوششوں کو بھی ناکام بنا دیا گیا اور جب چہلم کا دن کامیابی سے پرامن طور پر گزر گیا تو اپنے گھروں اور ملکوں کو لوٹتے ہوئے وحشی داعشیوں نے حلہ میں مذکورہ کارروائی کی ہے۔ داعش کی خبر رساں ایجنسی عماق نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے اس حملے میں 200 کے قریب افراد کو ہلاک اور زخمی کیا ہے۔ داعشیوں اور ان کے سرپرستوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ لوگ جو کربلا کے شہیدوں کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے جاتے ہیں، وہ شہادتوں اور شہیدوں سے قلبی نسبت رکھتے ہیں۔ انھیں ایسے حملوں کے ذریعے شہداء سے اظہار مودت و محبت سے روکا نہیں جاسکتا۔ حرم امام حسین میں زیارت کے لئے جانے والے قافلوں پر پہلے بھی بہت سے حملے کئے جاچکے ہیں، بہت سے زائرین شہید کئے جا چکے ہیں، سامرہ اور کاظمین، نجف اور کربلا، کئی مرتبہ خون میں نہا چکے ہیں، لیکن دنیا جانتی ہے کہ عاشقان شہادت کے قافلوں کی تعداد کم نہیں ہوئی بلکہ روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

آپ گذشتہ دس برس ہی کو سامنے رکھیں اور نجف و کربلا کے راہیوں کو شمار کرنا شروع کریں۔ اس راستے کے راہی جانتے ہیں کہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوبوں سے محبت خود آنحضرتؐ سے محبت کا فطری اور ناگزیر تقاضا ہے۔ کسی بھی ملک سے جب کوئی شخص یا قافلہ امام حسین کی زیارت کے لئے روانہ ہوتا ہے تو آج کے ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اس کے علم میں ہے کہ عراق میں ان دنوں کیا گزر رہی ہے۔ داعش اور اس جیسے دیگر گروہوں کی دن رات کی سفاکانہ کارروائیوں کی خبریں ان کے کانوں سے ٹکراتی رہتی ہیں اور سوشل میڈیا پر وہ خاک و خون میں لوٹ جانے والے مظلوموں کی فلمیں اور تصویریں دیکھتے رہتے ہیں، جو عراق کے مختلف شہروں میں داعشی تکفیریوں کے ہولناک حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اپنا مال دنیا صرف کرکے، اپنا آرام تج کرکے، خوف اور وحشت کی فضاؤں کے سامنے مسکراتے ہوئے عاشقان کربلا دیوانہ وار اپنے گھروں سے نکلتے ہیں، انھیں بارود سے نہیں ڈرایا جاسکتا۔ دنیا گواہ ہے کہ جس بستی اور جس قصبے میں کسی زائر کربلا کی لاش واپس آتی ہے، وہاں سے اگلے برس لوگ یوں نکلتے ہیں کہ فیض کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہو جاتی ہے:
قتل گاہوں سے چن کے ہمارے علَم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
خبر کا کوڈ : 586417
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش