0
Sunday 27 Nov 2016 12:11

پاک فوج کا نیا کمانڈر، خدشات، تحفظات اور توقعات

پاک فوج کا نیا کمانڈر، خدشات، تحفظات اور توقعات
تحریر: تصور حسین شہزاد

دنیا کی بہترین فوج کی کمان نئے کمانڈر کے پاس آچکی ہے۔ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ جنرل راحیل نے اپنے دور میں ایسے ایسے اقدامات کئے کہ پاک فوج کی عوام میں مقبولیت کا گراف بہت بلندی پر لے گئے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ پاکستان میں عوام اپنی مسلح افواج سے "جنون" کی حد تک پیار کرتے ہیں۔ گاؤں ہو یا شہر، جہاں سے بھی فوج کا کوئی ٹرک گزر جائے، کیا بچے اور کیا بوڑھے، ہر شہری سلیوٹ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور تو اور، دیہات کے ان پڑھ کسانوں نے بھی اپنی ٹرالیوں پر "پاک فوج کو سلام" جیسا جملہ لازمی لکھوا رکھا ہوتا ہے۔ یہ وہ بے لوث محبت کا اظہار ہے، جو ہر پاکستانی کے دل میں پاک فوج کیلئے ہے۔ پاکستان کے شہری اپنے بچوں کو فوج میں بھرتی کروانے کیلئے بے چین رہتے ہیں اور اس کام کو اپنے لئے سعادت سمجتھے ہیں۔ میں ایک ایسے بزرگ کو جانتا ہوں، جو بڑھاپے میں بھی سینہ تان کر چلتے، کوئی ان سے اس فخر کی وجہ پوچھتا تو وہ مونچھ کو تاؤ دے کر کہتے، "میرے تِن پتر فوج اِچ نیں" (میرے تین بیٹے فوج میں ہیں)۔ یہ بھی فوج سے محبت کا ایک انداز ہے۔

عوام کی پاک فوج سے محبت اپنی جگہ، فوج نے بھی کبھی اپنی قوم کو مایوس نہیں کیا۔ جنگ ہو یا کوئی قدرتی آفت، جیسے سیلاب یا زلزلہ، ہمیشہ پاک فوج نے ہی آکر حالات کو کنٹرول کیا ہے اور قوم کو اُس مشکل سے نجات دلائی ہے۔ یہ وہ کردار ہے جس کی وجہ سے عوام اپنی فوج سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اس عقیدت پر اتراتے بھی ہیں۔ جنرل راحیل شریف جب آرمی چیف بنے تو قوم نے جشن منایا، کہ شہداء کا وارث کمانڈر بن گیا ہے، انہیں اپنے وطن کی حرمت کا زیادہ احساس ہوگا، جس نے ملک کیلئے قربانی دی ہوئی ہو، وہ اس کی قدر بھی زیادہ کرتا ہے، یہی کچھ جنرل راحیل شریف نے کیا۔ آپریشن ضرب عضب شروع کیا، اسے کامیابی سے ہمکنار کیا، آج پاکستان میں دہشتگردی کا ناسور کافی حد تک کنٹرول ہوچکا ہے۔ ضیاءالحق نے جو کانٹے دار فصل کاشت کرکے فوج کو بدنام کیا تھا، فوج کے ہی سپہ سالار نے اسے ختم کرکے فوج کے دامن سے وہ داغ صاف کر دیا۔ آپریشن ضرب عضب میں فوج نے نمایاں کردار ادا کیا اور جو "اچھے اور برے" دہشت گردوں کی بات کرتے تھے، جنرل راحیل شریف نے ان کی بولتی بھی بند کر دی۔

نئے آرمی چیف نے 2019ء میں ریٹائرڈ ہو جانا ہے۔ جنرل قمر باجوہ کیلئے بہت سے چیلنج موجود ہیں، انہوں نے آپریشن ضرب عضب کو آگے بڑھانا ہے، کیوں کہ "پارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی" دہشت گرد ابھی بھی موجود ہیں، زیر زمین چھپے دہشت گردوں کو بھی باہر نکال کر انجام تک پہنچانا ہے۔ ان کے سہولت کار محفوظ مچانوں پر موجود ہیں۔ انہیں بھی بے نقاب کرنا ابھی باقی ہے۔ ضیاءالحق کے دور میں مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی، جس کا نقصان ہم نے قیمتی ترین جانوں کے ضیاع سے اٹھایا، جنرل راحیل شریف نے اپنے تیئں کوشش کی کہ اس منافرت کا خاتمہ کر سکیں، اب جنرل باجوہ کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں برداشت کے کلچر کو فروغ دیں، ہر پاکستانی صرف پاکستان سے محبت کرے، ایسا ماحول نہ بننے دیا جائے کہ نوجوان بیرونی قوتوں کے آلہ کار بنیں، اس کیلئے سول حکومت کو بھی اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔ نئے آرمی چیف کو کمان اس وقت ملی ہے، جب ایل او سی پر کشیدگی ہے، کشمیر میں بھارتی مظالم جاری ہیں، بھارت میں بھی الیکشن 2019ء میں ہونے ہیں اور یہی سال جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کا سال ہے، تو اس حوالے سے جنرل باجوہ کو انڈیا کو بھی لگام دینا ہوگی۔ بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل بکرام سنگھ نے اپنی حکومت کو خبردار تو کر دیا ہے کہ جنرل باجوہ پروفیشنل آدمی ہے، امید ہے بھارت ہوش کے ناخن لے گا اور ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند کر دے گا اور اگر نہیں کرے گا تو جنرل باجوہ خود سدباب کر لیں گے، جس کیلئے ہم پُرامید ہیں وہ تیاری کرچکے ہوں گے۔

ملک میں نان سٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے بھی ماضی قریب میں بحث چلی تھی، لیکن اچانک سعودی عرب نے دوبارہ ان "نان سٹیٹ ایکٹرز" کو گود لے لیا اور ان کو نئے مشن پر لگا دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر مذہبی امور بھی سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں اور وہاں سے "خصوصی احکامات" لے کر آئے ہیں اور پچھلی "کارکردگی رپورٹ" بھی پیش کرکے آئے ہیں، لگتا ہے اب نان سٹیٹ ایکٹرز کو جو ذمہ داری دی گئی ہے، وہ سعودی عرب کی غیر اسلامی و غیر انسانی پالیسیوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی ہے، کیونکہ یہی نان سٹیٹ ایکٹرز اب تواتر کے ساتھ ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ مکہ پر حملہ قابل قبول نہیں، حالانکہ مکہ پر حملہ ہوا ہی نہیں، یمن کی جانب سے سعودی جارحیت کے ردعمل میں آنے والے میزائل کو (جس کا نشانہ جدہ میں فوجی اڈہ تھا) پروپیگنڈہ کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ مکہ شریف پر حملہ تھا، لیکن دنیا نے سعودی پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا۔ اب پاکستان میں وہ مذہبی جماعتیں بھی سعودی عرب کے حق میں بول رہی ہیں، جو کبھی سعودی عرب کی مخالف سمجھتی جاتی تھیں، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے انہیں بھی "حصہ" دیدیا گیا ہے، اللہ کرے ہمارا یہ خدشہ درست ثابت نہ ہو، لیکن زمینی حقائق کا کیا کیا جائے، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔

ادھر کشمیر میں بھارتی مظالم جاری ہیں، یہ نان سٹیٹ ایکٹرز اب کشمیر چھوڑ کر سعودی عرب کی "خدمت" میں مصروف ہوچکے ہیں اور نہتے کشمیری پیلٹ گنز کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جنرل باجوہ صاحب، آپ کو اس حوالے سے بھی اپنا کو کردار ادا کرنا ہوگا، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، تو شہ رگ سے مودی کی گرپ کو چھڑانا ہوگا۔ عالمی سطح پر ہماری ساکھ بری طرح متاثر ہے، ہم کچھ کہتے ہیں اور دنیا کچھ سمجھتی ہے، ہم شور مچاتے ہیں کہ انڈیا زیادتی کر رہا ہے، دنیا ہماری ہمدردی اور حمایت کی بجائے آگے سے سوال داغ دیتی ہے کہ "نان سٹیٹ ایکٹرز کو آپ نے انڈے دینے کیلئے رکھا ہوا ہے۔" اس صورت حال کو کلیئر کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی ساکھ بچانے کیلئے نان سٹیٹ ایکٹرز کی قربانی دینا ہی پڑے گی۔ ان کیساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں میں کچھ کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں، وہ کالی بھیڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ پالیسی پر اثر انداز ہوتی ہیں، نئے آرمی چیف کو ان کالی بھیڑوں کا بھی محاسبہ کرنا ہوگا، جو اب بھی وہی ضیاءالحقی مائنڈ سیٹ رکھتی ہیں اور اب بھی ملک میں اہم ترین مکتب فکر کونشانے پر رکھا ہوا ہے، فوج کی نگاہ میں پاکستان کے تمام شہری مساوی ہونے چاہیں۔

جناب جنرل باجوہ صاحب، آپ کو محب وطن اور ملک دشمن طبقوں میں فرق کو بھی دیکھنا ہوگا، ایک طبقہ حب الوطنی میں ہزاروں جنازے اٹھا چکا ہے اور دوسرا طبقہ ملک دشمنی میں ہزاروں شہریوں کو قتل کرچکا ہے، قاتل اور مقتول، ظالم اور مظلوم، دونوں کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکا جائے، بیلنس پالیسی نہیں بلکہ مجرم کیخلاف پالیسی بنائی جائے۔ آپ اس معاملے میں کامیاب ہوگئے تو ملک سے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور ہماری سرحدیں بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ ملک میں آج بھی لال، پیلی مساجد موجود ہیں، جو نفرت کے نظریات پھیلا رہی ہیں، لیکن ریاست کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کوئی کارروائی اس لئے نہیں ہو رہی کہ سیاسی مفادات ہیں، لیکن فوج سیاسی نہیں ہوتی۔ فوج کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہی قومی مفاد کا تقاضا بھی ہے۔ پاک فوج نے آئندہ آنیوالے الیکشن شفاف کروا دیئے تو ایسی سیاسی قیادت اقتدار میں ہوگی، جو عوام کی منتخب کردہ ہوگی، چوری کا مینڈیٹ لانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور یہ کام صرف فوج کر سکتی ہے، کیونکہ الیکشن کمیشن میں بھی ایسی بھرتیاں ہوتی ہیں، جو تعلق اور رشتہ داریاں دیکھ کر کی جاتی ہیں۔

اس کیساتھ ہی کراچی کا معاملہ بھی ابھی ختم نہیں ہوا، ابھی بھی بہت سے دہشتگرد اور ان کے سہولت کار آزاد پھر رہے ہیں، ان کا محاسبہ بھی ابھی ہونا باقی ہے، فوج نے انتہائی مثبت رول ادا کیا ہے، لیکن مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، رینجرز نے کراچی میں فرقہ واریت کے حوالے سے اپنا دامن تھوڑا سا داغ دار کیا ہے، پاکستان کا اہم فرقہ اب بھی تحفظات کا شکار ہے کہ ڈی جی رینجرز کی کالعدم جماعت سے علیک سلیک سوالیہ نشان ہے۔ جناب چیف، ان تحفظات کو بھی دور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا، ہم مانتے ہیں کہ ماضی میں یہ نان سٹیٹ ایکٹر ملک کی ضرورت تھے، لیکن اب یہ ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، ملک کا دفاع ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ آپ کے پیش رو نے یہ مثال قائم کی ہے کہ فوج میں موجود کالی بھیڑوں کیخلاف ایکشن ہوا ہے، عوام اب بھی توقع کرتے ہیں کہ آئندہ بھی یہ "اصلاحاتی عمل" جاری رہے گا۔ نومبر 2019ء میں جب آپ آرمی سے ریٹائرڈ ہوں تو لوگوں کی آنکھوں میں آپ کیلئے آنسو ہونے چاہیے۔ جنرل راحیل شریف کیلئے عوام کا پیار آپ کے سامنے ہے، ہم چاہتے ہیں آپ ان سے بھی زیادہ پیار سمیٹ کر جائیں، لیکن اس کیلئے آپ کو کسی کی پرواہ کئے بغیر کام کرنا ہوگا، پاک فوج کو سلام۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 586860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش