1
0
Tuesday 29 Nov 2016 14:05

عشق مہدیؑ اور اکابر اہل سنت

عشق مہدیؑ اور اکابر اہل سنت
تحریر: ثاقب اکبر

جو سرخی ہم نے جمائی ہے، یہ بہت بڑے موضوع کی حکایت کرتی ہے اور ضرورت بھی ہے کہ اس امر پر کماحقہ بات کی جائے۔ ہمارے کئی محققین نے اس موضوع پر قلم بھی اٹھایا ہے اور صدر اول اسلام سے لے کر آج تک کے اکابر علمائے اہل سنت کے نظریات اس باب میں نقل کئے ہیں۔ یہاں تک کے محدثین نے اس حوالے سے خصوصی باب باندھے ہیں۔ امام احمد ابن حنبل نے اپنی مسند میں اس حوالے سے 136 احادیث نقل کی ہیں۔ بہت سے علمائے اہل سنت نے امام مہدیؑ پر گراں قدر تصنیفات بھی یادگار چھوڑی ہیں، البتہ آج اس موضوع کے حوالے سے ہم مختصراً چند باتیں اپنے قارئین کی خدمت میں اس پس منظر میں پیش کرنا چاہتے ہیں کہ 27 نومبر کو لاہور میں متحدہ جمعیت اہل حدیث کے زیراہتمام اتحاد امت کانفرنس بعنوان ’’حضرت الامام محمد المھدی علیہ السلام کی تشریف آوری اور عالمی اسلامی حکومت کا قیام‘‘ منعقد ہوئی۔ دعوت نامے کی پیشانی پر ابی داؤد کی سنن اور حاکم کی مستدرک کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے، جسے شیخ البانی نے صحیح الجامع میں حسن قرار دیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے: ’’المھدی منی اجلی الجبھۃ، اقنی الأنف، یملأالارض قسطاوعدلاً، کما ملئت ظلماً وجوراً، یملک سبع سنین‘‘
اس کا ترجمہ یہ ہے: "مہدی مجھ سے ہوں گے، روشن کشادہ پیشانی والے، اونچی ناک والے، وہ دنیا کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی، ان کی حکومت سات برس ہوگی۔"

اس کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے نامور اور لائق احترام علماء نے شرکت کی۔ علماء کے علاوہ عوام کی ایک کثیر تعداد اس میں موجود تھی، خاص طور پر جماعت اہل حدیث کے سربراہ مولانا عبدالغفار روپڑی، ہدیۃ الہادی پاکستان کے سربراہ پیر سید ہارون علی گیلانی، جماعت الدعوۃ کے سینیئر نائب صدر پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی، جمعیت اتحاد العلماء کے ناظم اعلٰی قاری ضمیر اختر منصوری اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی راہنما علامہ شیخ محمد امین شہیدی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ متحدہ جمعیت اہل حدیث کے سربراہ حضرت علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری جو میزبان تھے، نے کانفرنس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس ملی یکجہتی کونسل کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے مشترکہ عقائد و نظریات کو اجاگر کرنے، اتحاد امت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے اور استحکام پاکستان کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے منعقد کی گئی ہے۔۔ جناب علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری جب سے ملی یکجہتی کونسل میں اپنی جماعت کی سربراہی کرتے ہوئے شامل ہوئے ہیں، اتحاد امت کے لئے ان کی مساعی اور جوش و جذبہ ہمارے لئے باعث تقویت ثابت ہوا ہے۔ انھوں نے بڑے خلوص کے ساتھ اتحاد امت کے اس پلیٹ فارم پر اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا ہے۔ یہ مذکورہ کانفرنس بھی ان کے اسی جذبے کا نتیجہ ہے، جس کے تحت وہ امت اسلامیہ کے درمیان عقیدتی مشترکات کو نمایاں کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ وہ علم و خلوص کے ساتھ ساتھ جدوجہد کی بھی علامت کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس موقع پر اس کانفرنس میں تمام علمائے کرام نے حضرت امام مہدیؑ کے حوالے سے اپنے اس ایمان کا اظہار کیا کہ وہ دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے ظہور فرمائیں گے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراؑ کی اولاد میں سے ہوں گے، حضرت عیسٰی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور وہ خانۂ کعبہ کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی دعوت کا آغاز کریں گے۔ وہ ظلم کے خلاف جہاد کریں گے اور آخر کار فتح مند ہوں گے۔ جہاں تک امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں عقیدے کا تعلق ہے تو تمام مسلمان اس پر متفق ہیں اور تمام مکاتب فکر کے محققین نے ایسی شاذ آرا کو اپنی تحقیق کی بنیاد پر مسترد کر دیا ہے، جنھوں نے اس سلسلے میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے علماء بھی ہیں، جنھوں نے حضرت امام مہدیؑ کے بارے میں صرف اپنے عقیدے اور ایمان کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان سے والہانہ عشق کے نمونے پیش کئے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کی خدمت میں اس سلسلے میں برصغیر پاک و ہند کے چند اکابر اہل سنت کی عبارات اور ایمان افروز نمونے ذیل میں پیش کرتے ہیں:

امام مہدیؑ کے متعلق شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا موقف
شاہ ولی اللہ اپنی کتاب ازالۃ الخفا میں لکھتے ہیں: "ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نص فرمائی ہے کہ امام مہدی قرب قیامت میں ظاہر ہوں گے اور وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک امام برحق ہیں اور وہ زمین کو عدل و انصاف کے ساتھ بھر دیں گے، جیسا کہ ان سے پہلے ظلم اور بے انصافی کے ساتھ بھری ہوئی تھی۔۔۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے امام مہدی کے خلیفہ ہونے کی پیش گوئی فرمائی اور امام مہدی کی پیروی کرنا، ان امور میں واجب ہوا جو خلیفہ سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ ان کی خلافت کا وقت آئے گا، لیکن یہ پیروی فی الحال نہیں بلکہ اس وقت ہوگی جبکہ امام مہدی کا ظہور ہوگا اور حجر اسود اور مقام ابراھیم کے درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت ہوگی۔‘‘

حضرت مہدی علیہ الرضوان کے نام ایک عجیب خط
خطبات حکیم الاسلام جامع کے مولف لکھتے ہیں کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب رحمۃ اللہ کے خطبات میں ایک عجیب قصہ لکھا ہوا ہے، جس میں نیکی کی حرص اور جستجو کی ایک ایسی مثال ہے، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے، ان اکابر علماء رحمہم اللہ کا ذہن نیکی کے معاملات میں وہاں تک پہنچا، چہاں ہر ایرے غیرے کی رسائی ممکن نہیں، ذیل میں وہ قصہ جوں کا توں نقل کیا جاتا ہے:
’’دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ ظاہری و باطنی علوم کے جامع تھے، نقشبندیہ خاندان کے اکابر میں سے تھے، آخر عمر میں ہجرت فرما کر مکہ مکرمہ آئے، وہیں ان کی وفات بھی ہوئی اور وہیں ان کی قبر بھی ہے، آپ کو آخر زمانے میں علامات قیامت کے ظہور خصوصاً حضرت مہدی کی قیادت میں عالمی ایمانی جدوجہد سے خصوصی دلچسپی تھی، حضرت مہدی کا ظہور مکہ مکرمہ میں ہونا تھا، دوسری طرف انھیں یہ حدیث بھی معلوم تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شیبی خاندان کو فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ کی کنجیاں سپرد کی ہیں اور بیت اللہ چونکہ قیامت تک باقی رہے گا، اس لئے مکہ میں چاہے سارے خاندان اجڑ جائیں، لیکن شیبی کا خاندان قیامت تک باقی رہے گا۔ چنانچہ! مولانا رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ کی جب آخری عمر ہوئی اور انھیں شدید اشتیاق تھا کہ حضرت مہدی کے ہاتھ پر بیعت اور ان کی قیادت میں جہاد نصیب ہو جائے، تو ان کو ایک عجیب ترکیب سوجھی کہ جب یہ خاندان قیامت تک باقی رہے گا، تو لا محالہ ظہور مہدی کے زمانے میں بھی رہے گا، جب حضرت مہدی کا ظہور ہوگا اور وہ کعبۃ اللہ کی دیوار سے ٹیک لگائے مسلمانوں کو بیعت کریں گے، تب کعبۃ اللہ کی کنجیاں شیبی خاندان کے کسی فرد کے ہاتھ میں ہوں گی۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر انھوں نے ایک حمائل شریف اور ایک تلوار لی اور ایک خط حضرت مہدی علیہ الرضوان کے نام لکھا۔"

اس خط کا مضمون یہ ہے:
’’فقیر رفیع الدین دیوبندی مکہ معظمہ میں حاضر ہے اور آپ جہاد کی ترتیب کر رہے ہیں، ایسے مجاہدین آپ کے ساتھ ہیں، جن کو وہ اجر ملے گا، جو غزوہ بدر کے مجاہدین کو ملا تھا، سو! رفیع الدین کی طرف سے یہ حمائل تو آپ کے لئے ہدیہ ہے اور یہ تلوار کسی مجاہد کو دے دی جائے کہ وہ میری طرف سے جہاد میں شریک ہو جائے اور مجھے بھی وہ اجر مل جائے۔‘‘ انہوں نے یہ تینوں چیزیں شیبی خاندان والوں کے سپرد کیں اور ان سے کہا کہ تمھارا خاندان قیامت تک رہے گا، یہ حضرت مہدی کے لئے امانت ہے، جب تمھارا انتقال ہو تو تم اپنے قائم مقام کو وصیت کر دینا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے قائم مقام کو وصیت کرے اور ہر ایک یہ وصیت کرتا جائے، یہاں تک کہ یہ امانت حضرت مہدی علیہ الرضوان تک پہنچ جائے۔‘‘(خطبات حکیم الاسلام:۲/۹۸)
جامعہ فاروقیہ/lib/ur/farooqia.com//http:۱۴۳۵/۰۱p/۲۲php

مولانا حسین احمد مدنیؒ کا ایک اہم اقدام
دارالعلوم دیوبند کے سابق سربراہ مولانا سید حسین احمد مدنی نے ایک کتاب ’’الخلیفۃ المہدی فی الاحدیث الصحیحہ‘‘ لکھی ہے۔ اس کے ابتدائیہ میں وہ لکھتے ہیں: ’’بعض مجالس علمیہ میں مہدئ موعود کا ذکر آیا تو کچھ ماہرین علم نے مہدئ موعود سے متعلق وارد حدیثوں کی صحت سے انکار کیا تو مجھے یہ بات اچھی لگی کہ اس موضوع سے متعلق مروی حسن و ضعیف روایتوں سے قطع نظر صحیح حدیثوں کو جمع کر دوں، تاکہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تبلیغ بھی ہوجائے۔ نیز ان حدیثوں کے جمع و تدوین سے ایک غرض یہ بھی ہے کہ بعض ان مصنفین کے کلام سے لوگ دھوکہ نہ کھا جائیں، جنھیں علم حدیث سے لگاؤ نہیں ہے، جیسے علامہ ابن خلدون وغیرہ یہ حضرات اگرچہ فن تاریخ میں معتمد و مستند ہیں، لیکن علم حدیث میں ان کے قول کا اعتبار نہیں ہے۔‘‘

سید نفیس الحسینی ؒ کا اظہار ایمان
عصر حاضر کے معروف دیوبندی عالم و بزرگ صوفی سید نفیس الحسینی نے ایک کتاب ’’الامام المہدی رضوان اللہ علیہ وسلامہ‘‘ پر ایک مختصر سی تقریظ لکھی ہے۔ یہ کتاب معروف دیوبندی عالم مولانا سید محمد بدر عالم مہاجر مدنی کی تالیف ہے، جو مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید ہیں۔ سید نفیس الحسینی کی یہ مختصر عبارت بہت ایمان افروز ہے: ’’ایک سال سے زائد عرصہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کے عوام و خواص میں ’’سیدنا الامام المھدی‘‘ رضوان اللہ علیہ و سلامہ، کی ذات اقدس مختلف انداز سے موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ ’’الامام المھدی‘‘ کے بارے میں سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشنگوئی حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اس میں تکرار کرے۔‘‘
امام مہدی علیہ السلام کے موضوع پر راقم کے پیش نظر بہت زیادہ سرمایہ فکر و نظر اور ثروت ایمان و ایقان موجود ہے، جو امت اسلامیہ کے ایک مشترکہ اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ امت کو جوڑنے کے لئے ایسے موضوعات کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے والے عناصر کا سدباب کیا جاسکے۔ ایسے عناصر کا بہترین جواب اتفاق و اتحاد ہی ہے اور اتفاق و اتحاد کی بنیاد امت اسلامیہ کے مشترکہ اعتقادات اور اعلٰی اسلامی مقاصد ہی ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 587439
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Iran, Islamic Republic of
بہت اچھا سلسلہ اس کو جاری رکھیں اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے.’’الامام المھدی‘‘ کے بارے میں سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشنگوئی حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔
ہماری پیشکش