QR CodeQR Code

انقلابی یمن میں وسیع البنیاد عبوری حکومت کا قیام

30 Nov 2016 14:22

اسلام ٹائمز: دنیا کا ضمیر جاگے یا نہ جاگے، امت اسلامی کو کھل کر خائن عرب حکمرانوں کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا چاہئے۔ اس کائنات میں آزادی و عدالت کے خدا کی بارگاہ میں مستضعفین کی فریادیں پہنچ رہی ہیں۔ سنت الٰہی یہی ہے کہ جو قوم اپنی حالت سدھارنے کے لئے کوشاں رہتی ہے، اس کے حالات بدل دیئے جاتے ہیں اور جہاں مستضعفین انصار اللہ کے جھنڈے تلے جمع ہوں، تو وہاں بھی حزب اللہ کی مانند معجزوں کی امید رکھنی چاہئے۔ یمن کی مظلومیت پر نوحہ کناں ضرور ہیں، لیکن یمن کی شام غریباں میں بھی مقاومت اسلامی کی استقامت کے چرچے یقیناً آسمانوں میں بھی ہوں گے۔ یمن کی آدھی سے زیادہ آبادی اور خاص طور پر دارالحکومت صنعا میں قائد مقاومت اسلامی یمن سید عبدالملک ال حوثی کی حرکت انصار اللہ کا کنٹرول یہ بتاتا ہے کہ
تیر تفنگ بمباران ھیچ اثر ندارند
از قدرت انصاراللہ سعودی ھا خبر ندارند


تحریر: عرفان علی

یمن کے دارالحکومت صنعاء میں اعلٰی ترین سیاسی کاؤنسل کے صدر صالح الصماد نے پیر 28 نومبر 2016ء کی شب ایک بیالیس رکنی وسیع البنیاد حکومت کے قیام کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ حرکت انصار اللہ اور اس کی اتحادی جنرل پیپلز کانگریس کی مشاورت سے تشکیل پانے والی اس نئی حکومت میں ایک وزیراعظم، تین نائب وزرائے اعظم، اکتیس وزراء اور سات وزرائے مملکت کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ پچھلی عبوری حکومت کے ڈاکٹر عبدالعزیز صالح ال حبتور کو وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رکھا گیا ہے۔ منگل 29 نومبر کو اس نئی حکومت کے اراکین نے حلف اٹھا لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس حکومت کے قیام کے بعد اعلٰی ترین سیاسی کاؤنسل کی ضرورت نہیں رہی۔ اس حکومت میں پورے یمن سے ان طبقات کو نمائندگی دی گئی ہے، جنہوں نے یمن پر سعودی اتحادی فوجی جارحیت و یلغار کی مذمت و مخالفت کی ہے۔ یہ عبوری حکومت نمائندہ عبوری حکومت کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔ اس میں ٹیکنوکریٹس، پروفیشنل افراد بھی ہیں، خواتین کی بھی نمائندگی ہے جبکہ مختلف سیاسی و قبائلی گروہوں کی بھی نمائندگی ہے۔

اس عبوری حکومت میں حسین عبداللہ مقبولی، اکرم عبداللہ عطیہ، جلال علی ال رویشان کو نائب وزرائے اعظم بنا کر علی الترتیب اقتصادی امور، داخلہ امور اور امور برائے قیام امن یعنی سکیورٹی انہیں تفویض کئے گئے ہیں، لیکن ان محکموں کے لئے علیحدہ سے وزراء بھی مقرر کئے گئے ہیں۔ محمد ناصر العاطفی کو وزیر دفاع ، احمد عبداللہ عقبات کو وزیر انصاف بنایا گیا ہے، وہ جج کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ انجینیئر ھشام شرف عبداللہ وزیر خارجہ، میجر جنرل محمد عبداللہ القوسی وزیر داخلہ، صالح احمد شعبان وزیر خزانہ، عبدہ محمد بشر وزیر تجارت، داخلی انتظام یعنی لوکل گورنمنٹ کے لئے علی بن علی ال قیسی، طلال عبدالکریم عقلان وزیر برائے سول سروس و انشورنس، علیا فیصل عبد اللطیف الشعبی وزیر برائے حقوق انسانی، یاسر احمد العواضی وزیر برائے منصوبہ بندی و بین الاقوامی تعاون، زکریا یحیٰی الشامی وزیر ٹرانسپورٹ، فائقہ السید باعلوی وزیر سماجی امور و روزگار، احمد محمد حامد وزیر اطلاعات، یحیٰی بدرالدین ال حوثی وزیر تعلیم، حسین علی حازب وزیر برائے اعلٰی تعلیم و سائنسی ریسرچ، محسن علی ال نقیب وزیر ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ووکیشنل ٹریننگ مقرر کئے گئے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالرحمان احمد المختار وزیر قانون، حسن محمد زید وزیر برائے جوان و کھیل، محمد محمد ال زبیری، انجینیئر نبیل عبداللہ ال وزیر کو وزیر برائے پانی و ماحولیات، زیاب محسن بن معیلی وزیر تیل (پٹرولیم ) و معدنی ذخائر، انجینیئر لطف علی الجر موزی وزیر بجلی و توانائی، (جج ) اشرف علی ال قلیصی وزیر اوقاف و ارشاد (رہنمائی)، جلیدان محمود جلیدان وزیر مواصلات و انفارمیشن ٹیکنالوجی، غازی احمد محسن وزیر زراعت و آبپاشی، ناصر محفوظ باقز قوز وزیر سیاحت، ڈاکٹر محمد سالم بن حفیظ وزیر صحت عامہ اور آبادی، عبداللہ احمد الکبسی وزیر ثفاقت، ٖغالب عبداللہ مطلق وزیر برائے پبلک ورکس اور سڑکیں، محمد سعید المشجری کو وزیر برائے اوورسیز یمنی امور کی وزارت گئی ہے۔ وزرائے مملکت میں احمد صالح القنع کو وزیر مملکت برائے قومی مفاہمت و قومی مکالمے کے نتائج سے متعلق امور سونپے گئے ہیں۔ علی عبداللہ ابو حلیقہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور و شوریٰ کاؤنسل، فارس محمد مناع نبیہ محسن ابو نشطان، رضیہ محمد عبداللہ، عبید سالم بن ضبیع، حمید عوض المزجاجی اور عبدالعزیز احمد البکیر کو بھی وزرائے مملکت مقرر کیا گیا ہے۔

ماضی میں بھی ہم انقلابیوں کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام پر لکھ چکے ہیں کہ یمن کی دگرگوں صورتحال کی وجہ سے انتظامی امور چلانے کے لئے عبوری حکومت قائم کرنا ایک سیاسی مجبوری ہے۔ لہٰذا اقوام متحدہ سمیت پوری عالمی برادری کو یمن کے انقلابیوں کی نئی کوشش کو بھی اس کے درست تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حسب توقع یمن کی مستعفی و مفرور سابقہ حکومت کے کار پردازوں نے اس نئی وسیع البنیاد حکومت کی مخالفت کی ہے اور یہ فطری بھی ہے، کیونکہ مستعفی و مفرور سابقہ صدر عبد ربہ ہادی منصور سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں اور سعودی بادشاہت کے اشاروں پر ہی عمل پیرا رہے ہیں۔ نئی حکومت کے حوالے سے انقلابیوں کا موقف منطقی ہے کہ یمن کے مسئلے کا قومی حل ڈھونڈنے میں مستعفی و مفرور سابقہ حکومت کے قائدین کی ہٹ دھرمی، اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے زرخرید نیابتی جنگ لڑنے والوں کی دہشت گردی مانع ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے یمن کے سیاسی حل کے بارے میں مذاکرات آج تک بے نتیجہ اس لئے ختم ہوتے رہے ہیں کہ عبد ربہ منصور ہادی کی قیادت میں یکجا فریق مخالف مائنس حوثی زیدی سیاسی سیٹ اپ کی شرط کی ضد پر قائم رہتے آئے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ صنعا کا کنٹرول غیر مشروط طور پر ان کے حوالے کر دیا جائے۔

یہ بھی کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ اقوام متحدہ کا ردعمل بھی منفی ہے۔ یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسماعیل اولد شیخ کا کہنا ہے کہ نئی عبوری حکومت کا قیام مذاکرات کی راہ میں نئی اور غیر ضروری رکاوٹ ہے، حالانکہ حوثی زیدی تحریک حرکت انصار اللہ کی جانب سے یقین دلایا جاچکا ہے کہ عبوری حکومت امن مذاکرات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ اقوام متحدہ پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا غلبہ ہے۔ جب تک روس اور چین اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں کسی ایشو پر کھل کر اور مستقل مزاجی سے کوئی پوزیشن نہ لے لیں اور اس کے لئے انتہائی قدم یعنی حق استرداد (ویٹو پاور) کے استعمال تک کا آپشن استعمال کرنے کا اشارہ نہ دے دیں، تب تک امریکا اور اس کے اتحادی اقوام متحدہ کے فیصلہ ساز طاقتور ادارے پر اپنی مرضی مسلط کرتا رہتا ہے، ورنہ چین اور روس سے سفارتی مشاورت پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یمن کا معاملہ بھی تاحال ایسے ہی ہے کہ اس مسئلے پر روس اور چین کا موقف اتنا سخت نہیں ہے کہ جتنا ہونا چاہیے تھا۔ ایسا ہوتا تو کم از کم اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اس مسئلے کا اتفاق رائے سے کوئی ایسا حل ضرور نکل آتا، جو منطقی اور قابل قبول ہوتا۔

اقوام متحدہ کے نمائندے کی سب سے بڑی غلطی اور نالائقی یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کی بنیاد کو فراموش کرکے تبصرہ کرتے ہیں، کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد نے یمن پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ چین اور روس اقوام متحدہ کے فورم پر سعودی اتحادی افواج کی جارحیت کے خلاف عالمی برادری کو یکجا کرتے، لیکن اس کے برعکس یہ دونوں ممالک بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کئی معاملات پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں، زبانی جمع خرچ سے یمن کی جنگ ختم ہونا ہوتی تو اب تک ہوچکی ہوتی۔ یمن میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ سعودی بادشاہت، اس کے بعض اتحادی ممالک اور ان کے زر خرید نیابتی جنگ لڑنے والے دہشت گردوں نے یمن کو لاشوں کے قبرستان اور زندگی کی علامت آبادیوں کو ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ سات ہزار سے دس ہزار یمنی شہید ہوچکے ہیں۔ غذائی قلت، تعلیم، صحت، روزگار سبھی کچھ تو یمن کے غیرت مندوں سے چھین لیا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ و دیگر سفارتکار سعودی عرب میں پناہ گزین مفرور مستعفی صدر اور دیگر افراد سے صلاح مشوروں کی آڑ میں مزید نئی سازشیں بنا رہے ہیں۔ امن مذاکرات فی الحال بے نتیجہ ہی ہیں۔ دنیا کا ضمیر جاگے یا نہ جاگے، امت اسلامی کو کھل کر خائن عرب حکمرانوں کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا چاہئے۔ اس کائنات میں آزادی و عدالت کے خدا کی بارگاہ میں مستضعفین کی فریادیں پہنچ رہی ہیں۔ سنت الٰہی یہی ہے کہ جو قوم اپنی حالت سدھارنے کے لئے کوشاں رہتی ہے، اس کے حالات بدل دیئے جاتے ہیں اور جہاں مستضعفین انصار اللہ کے جھنڈے تلے جمع ہوں، تو وہاں بھی حزب اللہ کی مانند معجزوں کی امید رکھنی چاہئے۔ یمن کی مظلومیت پر نوحہ کناں ضرور ہیں، لیکن یمن کی شام غریباں میں بھی مقاومت اسلامی کی استقامت کے چرچے یقیناً آسمانوں میں بھی ہوں گے۔ یمن کی آدھی سے زیادہ آبادی اور خاص طور پر دارالحکومت صنعا میں قائد مقاومت اسلامی یمن سید عبدالملک ال حوثی کی حرکت انصار اللہ کا کنٹرول یہ بتاتا ہے کہ
تیر تفنگ بمباران ھیچ اثر ندارند
از قدرت انصاراللہ سعودی ھا خبر ندارند


خبر کا کوڈ: 587677

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/587677/انقلابی-یمن-میں-وسیع-البنیاد-عبوری-حکومت-کا-قیام

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org