0
Thursday 8 Dec 2016 12:12

ایرانی معاشرہ اور بی بی سی

ایرانی معاشرہ اور بی بی سی
تحریر: سید اسد عباس

بی بی سی اردو کی مورخہ 6 دسمبر 2016ء کی ایک خبر جو تہران میں قیام کے دوران میں میری نظر سے گزری کچھ یوں ہے۔ ایران میں "جسم فروشی پھیلانے کے الزام میں" 12 افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔ خبر کی تفصیل کچھ یوں درج ہے: ایران میں اطلاعات کے مطابق فیشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے 12 افراد کو آن لائن پوسٹ کی گئی تصاویر کے ذریعے "جسم فروشی پھیلانے" کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ان 12 افراد پر ملک میں جسم فروشی پھیلانے، آن لائن فحش تصاویر کی اشاعت کے ذریعے بدعنوانی کو فروغ دینے، فیشن شوز کے ذریعے مسلمانوں کو بدعنوانی پر اکسانے اور "عریانیت کی مغربی طرز ثقافت کو پھیلانے" جیسے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ حوالہ ایران کی ہی لیبر نیوز ایجنسی کا دیا گیا ہے اور کچھ تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جیسا کہ جیل بھیجے جانے والے 12 افراد میں سے آٹھ خواتین اور چار مرد شامل ہیں اور انھیں پانچ ماہ سے لے کر چھ برس کے درمیان سزا دی گئی ہے۔ ان افراد کے وکیل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا گیا کہ محمود تراوت کے مطابق ان افراد پر فیشن انڈسٹری میں کام کرنے کے علاوہ دو سال تک بیرون ملک سفر کرنے کی بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

خبر کا اختتام ان الفاظ سے کیا گیا: ایران کے قانون کے مطابق خواتین پر عوامی مقامات میں سر ڈھاپنا لازمی ہے۔ خبر کو پڑھ کر پہلا تاثر جو ذہن میں ابھرتا ہے یہی ہے کہ ایران میں مذہبی جنونیوں کی حکومت ہے، جو کسی قسم کی آزادی کو برداشت نہیں کرتے اور ڈنڈا بردار شرطے سڑکوں پر گھوم رہے ہیں، تاکہ بے پردہ خواتین کو سزا دلوا سکیں۔ مزید یہ کہ وہاں عوام کو حکومتی شکنجے کا سامنا ہے اور شہری آزادیاں حاصل نہیں ہیں۔ اس تاثر سے جو بات مزید ذہن میں ابھرتی ہے، یہ ہے کہ جب شہری آزادیاں مفقود ہیں تو دیگر حقوق کب دستیاب ہوں گے۔ خبر کو مزید پر تاثیر اور قابل وثوق بنانے کے لئے تفصیلات مہیا کی گئی ہیں۔ حالانکہ حقیقت پیدا کئے گئے تاثر کے بالکل برعکس ہے۔ سفر زیارت کے دوران مجھے ایران کے چند شہروں کے سفر کا تجربہ ہوا۔ عراق اور ایران کے مابین موجود مہران بارڈر سے شہر قم تک مجھے ایرانی آبادیوں، شہروں، شاہراہوں اور افراد کے مشاہدے کا تجربہ ہوا۔ قم اور تہران میں اپنے قیام کے دوران میں مجھے ان شہروں کے بازاروں میں جانے کا اتفاق ہوا، تہران میں دو تفریحی مقامات برج میلاد اور دریاچہ شہدائے خلیج فارس پر جانے کا موقع ملا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بندہ شارجہ اور دبئی کی ریاستوں میں بھی چند ماہ مقیم رہا ہے، ان ریاستوں کی ثقافت اور سماج کو بھی قریب سے دیکھا۔ تہران کے ذکر کردہ تفریحی مقامات پر جا کر انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان خلیج فارس کی کسی ریاست میں گھوم رہا ہے۔

کوئی عبا پہنے یا فقط سکارف، بال پورے چھپائے یا کچھ عیاں رکھے کوئی قید و بند نہیں۔ کہیں شرطے نہیں دیکھے جو لوگوں کو زبردستی پردہ کروا رہے ہوں یا بے پردہ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر پابند سلاسل کر رہے ہوں۔ ترقی کا یہ عالم ہے کہ تہران شہر کی کشادہ سڑکوں پر اژدہام کے سبب ٹریفک سست روی کا شکار رہتی ہے، تاہم کبھی رکتی نہیں۔ ایرانی قوم کی بعض خصوصیات ایسی دیکھیں جو واقعاً لائق تقلید ہیں۔ کسی شاہراہ، گلی کوچے، پارک، مارکیٹ میں مجھے تجاوزات نظر نہ آئیں اور بے پناہ تلاش کے باوجود جگہ جگہ بکھرا پڑا کوڑا نہ دیکھا۔ ہر گلی، کوچے کے نکڑ پر کوڑا دان بنے ہوئے ہیں اور ایرانی شہری اپنے ملک کی شاہراہوں کو اپنے گھر کی مانند صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ ایران کے بعض شہروں میں پینے کے پانی کی کمی ہے، ان شہروں میں صاف پانی کی اے ٹی ایم مشینیں لگی ہیں، کارڈ ڈالیں اور نہایت کم قیمت پر پانی حاضر۔ مہران بارڈر سے لے کر شہر قم تک اور شہر قم سے شہر تہران تک ایران کے شہر رات کے وقت روشنیوں کے شہر کا سماں پیش کرتے ہیں۔ ہر جانب برقی قمقمے، گیس کی فراوانی، ہیٹر جسے ایرانی زبان میں بخاری کہا جاتا ہے، صبح سے شام تک چلتے ہیں، کسی کو کوئی فکر نہیں کہ زیادہ بل آئے گا۔ ایک ایرانی دوست سے پوچھا کہ آپ کے ہاں بجلی اور گیس کا کیا نرخ ہے تو ان صاحب نے کہا سستی ہے۔ استفسار کیا کہ پاکستان میں بجلی اس نرخ پر ملتی ہے تو ان صاحب نے کہا کہ ہم نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی، جس سے اندازہ ہوا کہ یہ سہولیات اس قدر ارزاں ہیں کہ لوگ یونٹ کی قیمت کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوتے۔

ایران کے سرکاری چینلز پر پارلیمنٹ کے بعض سیشن دیکھے، ایک منظر جو ذہن میں ٹھہر گیا یہ تھا کہ اس پارلیمنٹ میں خواتین کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، ایرانی نوجوان روبوٹ سے لے کر گاڑی تک اور گاڑی سے لے کر ایٹمی توانائی تک ہر شعبہ زندگی میں معجزے دکھا رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئیرنگ، زراعت، طب، میڈیکل سائنس، نینو ٹیکنالوجی غرضیکہ جدید سائنس کا کونسا شعبہ ہے جس میں ایرانی قوم ترقی نہ کر رہی ہو۔ مگر یہ تمام باتیں مغربی میڈیا پر نہیں بیان کی جاسکتیں، وہاں تو یہی خبر دی جائے گی، جس سے اس معاشرے کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں غلط تاثر ابھرے۔ ایرانی خبر رساں ادارے پر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم دکھائی گئی، جو ایران کے مختلف شہروں میں مفت طبی سہولیات مہیا کرتی ہے، یہ ٹیم زاہدان گئی اور وہاں کے مقامی افراد کے تاثرات ریکارڈ کئے گئے۔ مجھے یہ تاثرات سن کر حیرت ہوئی کہ پاکستان میں زاہدان اور اس کے باسیوں کے حوالے سے کیا تاثر عام ہے اور یہاں کیا حالت ہے۔ ایران میں بعض سائٹس اور سوشل میڈیا چینلز پر پابندی ہے۔ اس پابندی کی ایک وجہ بی بی سی جیسے اداروں کی ایسی خبریں ہیں، جو معاشرے میں انارکی پھیلاتی ہیں۔ ان تمام پابندیوں کے باوجود اگر کوئی ایرانی آن لائن ایسی حرکات کر رہا ہے، جو ایران کی معاشرتی اقدار اور ثقافت کے سراسر خلاف ہیں تو وہ بڑی مہارت اور دیدہ دلیری کے ساتھ ایسا عمل انجام دے رہا۔۔۔ جس کی تحقیق ضرور ہونی چاہیے کہ آیا یہ عمل اپنی ذاتی حیثیت میں انجام دیا جاتا ہے یا کسی کی ایما پر۔۔۔
خبر کا کوڈ : 589792
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش