4
0
Saturday 10 Dec 2016 09:21

سفر عراق اور مشاہدات( 2)

سفر عراق اور مشاہدات( 2)
تحریر: نادر بلوچ

مشی، اس کے اثرات، تاریخ اور موجودہ عراق پر بعد میں بات کریں گے، لیکن فی الحال اپنے قارئین کو عراق کی گذشہ 50 سالہ تاریخ اور درپیش بحرانوں سے سرسری آگاہ کرتے ہیں۔ عراق کی سرزمین مسلسل بحرانوں سے گزر رہی ہے، تقریباً 24 سال تک بلاشرکت غیرے صدام حسین اقتدار پر قابض رہا، 1980ء میں ایران پر جنگ مسلط کی اور 8 سالہ طویل جنگ کے ٹھیک 2 سال بعد یعنی 1990ء میں صدام حسین کویت پر چڑھ دوڑا، صدام حسین کے متعدد ایسے اقدامات تھے، جنہوں نے ناصرف عراق کو عالمی سطح بلکہ خطے میں بھی چاروں اطراف سے تنہا کر دیا، 22 ستمبر 1980ء سے شروع ہونیوالی ایران عراق جنگ 8 سال بعد یعنی اگست 1988ء میں اختتام پذیر ہوئی، لیکن اس جنگ نے تقریباً 10 لاکھ انسانوں کو نگل لیا۔ صدام حسین نے ایران سے یہ جنگ ایسے وقت میں شروع کی تھی، جب ایران میں رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا تھا اور انقلابیوں نے ایک اسلامی حکومت کا احیاء کیا تھا، ایران عراق جنگ کا باعث دریائے شط العرب بتایا جاتا ہے۔ مگر مبصرین کے خیال میں شط العرب کو محض ایک بہانہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور عراق نے امریکی ایما پر ایران پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں سوائے شام کے برطانیہ، اسرائیل سمیت تقریباً تمام عرب ممالک غیر اعلانیہ طور صدام حسین کو مکمل سپورٹ کر رہے تھے۔ 1990ء میں کویت پر حملے کے بعد تمام مذکورہ ممالک جو ایران کیخلاف جنگ میں عراق کے اتحادی تھے، صدام حسین کے مخالف ہوگئے اور عراق ایک بار پھر ایک نئے بحران سے دوچار ہوگیا۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ مسلسل اس بات پر مصر رہا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ ان ہتھیاروں کو صرف 45 منٹ میں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ عراق پر جوہری ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے کا الزام بھی لگا، اس لئے عراق پر فروری 2003ء میں امریکہ نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ لیکن امریکہ آج تک یہ الزامات ثابت نہ کرسکا، حتٰی اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کچھ عرصہ قبل یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ غلط معلومات کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا گیا، جس پر وہ معافی چاہتے ہیں، اگرچہ امریکی برطانوی گٹھ جوڑ میں شامل ملکوں کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے امریکی برطانوی گٹھ جوڑ کے کئے جانیوالے دعووں کی تائید بھی نہیں کی تھی، تاہم اس گٹھ جوڑ نے عراق حملہ کر دیا، اپریل 2003ء میں سقوط بغداد کے بعد صدام حسین روپوش ہوگئے۔ تاہم 14 دسمبر 2003ء کو بدترین ڈکٹیٹر کو اس کے آبائی علاقے تکریت سے ایک کارروائی کے دوران گرفتار کر لیا گیا، یوں 30 ستمبر 2006ء میں صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

صدام حسین کی پھانسی کے بعد عراق میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے، جو اب داعش کے فتنے کی شکل میں ظہور پذیر ہیں۔ امریکہ عراق سے تو نکل چکا ہے لیکن اپنے پیچھے تباہی اور بربادی چھوڑ گیا ہے، امریکہ کی تاریخ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، اپنے پیچھے فرقہ واریت، لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر فسادات اور تباہی چھوڑ کر جاتا ہے اور یہی حال اس نے عراق کا کیا۔ امریکہ نے ابوبکر البغدادی کو خود رہا کیا اور بعد میں اس کے ذریعے داعش کو منظم کرکے عراق پر ایک نئی جنگ مسلط کر دی، جو اب اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ امریکہ کا نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مخالف امیدوار ہلیری کلنٹن پر داعش کو جنم دینے اور اس کی مدد کرنے کا ذمہ دار قرار دے چکا ہے۔ یاد رہے کہ داعش نے کم وقت میں تکریت اور موصل سمیت عراق کے کئی علاقوں تک پیشرفت کر لی تھی، حتیٰ کئی آئل ریفائنریز قبضے میں لے لی تھیں، لیکن اب داعش سے تکریت سمیت متعدد علاقے چھن چکے ہیں اور اب موصل میں فیصلہ کن جنگ جاری ہے۔

دہشتگردی کیخلاف اس جنگ میں امریکہ اور عرب ممالک ایک طرف ہیں، جبکہ مزاحمتی بلاک ایران، شام، عراق اور روس دوسری طرف ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ شام کے مشرق میں واقع حلب بھی داعش اور جھبۃ النصرہ سے مکمل طور پر آزاد ہونے کے قریب ہے۔ اس نئی جنگ کا مقصد عراق اور شام کو کمزور کرکے لیبیا کی طرح حکومتوں کو گرا کر لبنان پر چڑھ دوڑنا تھا اور اپنی مرضی کی حکومتوں کا قیام تھا، ان تمام اقدامات کا مقصد اسرائیل کو تحفظ دینا تھا۔ مسلسل جنگوں کے باعث عراق میں خواتین کی شرح بڑھ رہی ہے، 50 سال سے جاری مختلف جنگوں میں مسلسل قربانیوں کے باعث مردوں کی تعداد کم ہوگئی ہے، جنگ کے آثار ہر طرف دکھائی دیتے ہیں، کمزور عراقی حکومت تاحال عراق کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ مرکوز نہیں کر سکی، یہی وجہ ہے کہ داعش کیخلاف جنگ میں ایران عراق کی پشت پر کھڑا ہے۔ عراق میں لوکل حکومتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

داعش نے عراق میں ایسے بدترین مظالم ڈھائے ہیں، جن کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، مخالفین کو تیل چھڑک کر زندہ آگ میں جلانا، ٹینکوں کے نیچے دیکر مارنا اور پانی میں ڈبو ڈبو کر مارنا داعش کے دہشتگردوں کا وطیرہ بن چکا ہے، انسانوں کو ایک ہی لائن میں کھڑا کرکے خنجر کے ذریعے گردنیں اڑنے اور سروں میں گولیاں مار کر قتل کرنے کی ویڈیوز تک نشر کی گئیں۔ یہ ویڈیوز ایک عام انسان نہیں دیکھ سکتا، داعش کے فتنے سے فقط شیعہ ہی نہیں بلکہ اہلسنت اور عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ داعش کی جانب سے اصحاب رسول کے مزارات تک کو بم نصب کرکے اڑا دیا گیا، حتٰی سامرہ میں پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی آل تک کے مزارات کو نشانہ بنایا گیا، اب بھی ان مزاروں کو منہدم کرنے کیلئے اس فتنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔ بغداد اور کربلا سمیت دیگر علاقوں میں بارود سے بھری گاڑیوں کے ذریعے کاررائیاں کرکے ہزاروں انسانوں سے زندگی کا حق چھینا جا چکا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ موصل میں آخری معرکہ جاری ہے، جس میں عراقی آرمی کیساتھ رضاکار فورس بھی یہ جنگ لڑ رہی ہے، اس رضا کار فورس میں ریاست میں مقیم تمام طبقات شامل ہیں۔

مشی کے راستوں پر بھی اس جنگ کے حوالے سے آگاہی کیلئے بڑی سکرینیں نصب کی گئی تھیں، جن کے ذریعے عربی زبان میں لوگوں کو آگاہ کیا جا رہا تھا اور داعش کیخلاف تشویق دلائی جا رہی تھی، داعش کے ہاتھوں مارے جانیوالے عراقی شہداء کی تصاویر بھی جگہ جگہ نصب کی گئی تھیں، حتیٰ وہ علماء جو داعش کے فتنے کیخلاف محاذ جنگ پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے، ان کی قربانیوں کا بھی تذکرہ سننے کو ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ داعش کی جانب سے پھیلائے جانیوالے خوف کے باوجود کروڑوں انسانوں کا سمندر مشی میں شرکت کیلئے کربلا پہنچا، جو ایک بڑی کامیابی تصور کی گئی۔ مشی سے متعلق جو راقم نے درک کیا وہ یہ ہے کہ نجف سے کربلا پیادہ روی دراصل اپنی انا کو فنا کرنا، ایثار و قربانی کی لازوال مثالوں کو زندہ کرنا، انسانوں کا احترام اور اسلام کے صحیح پیغام کو اجاگر کرنے کا نام مشی ہے۔ کئی جگہوں پر دیکھا کہ اگر راستے میں کسی کو غلطی سے دھکا لگ بھی گیا تو جس کو دھکا لگا وہ معافی کا خواستگار دکھائی دیا۔

کربلا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ گذشتہ سالوں کی نسبت اس سال عوام کی شرکت بہت زیادہ ہے، داعش کے خوف پھیلانے کے تمام تر حربوں کے باوجود تقریباً 3 کروڑ 60 لاکھ لوگوں نے مشی میں شرکت کی اور داعش سمیت ان تمام طاقتوں کو پیغام دیا کہ تم بےگناہ انسانوں کو مار کر خوف کی فضا قائم نہیں کرسکتے، تم اپنے اہداف میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ داعش نے اس سال بھی زائرین کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا، 10 صفر کو سامرہ اور 22 صفر کو حلہ کے مقام پر ایرانی زائرین کی بسوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد زائرین شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے، 17 صفر کے بعد سامرہ میں سکیورٹی صورتحال کے باعث 15 کلو میٹر پہلے گاڑیوں کو آگے نہیں جانے دیا جا رہا تھا، لیکن اس کے باوجود زائرین پیدل چل کر مقدس مقامات تک پہنچے۔
خبر کا کوڈ : 590045
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Iran, Islamic Republic of
سلام بھائی
اس کالم کا ہمارے خیال میں اگر نام عراق جنگ زدہ ملک اور جنگوں کی تاریخ یا اس جیسا کچھ رکھ لیتے تو بہتر تھا۔ کیونکہ آپ نے سارا کالم تو عراق کی جنگی تاریخ اور وہاں داعشی فتنے پر لکھ دیا ہے۔ اس میں سفر عشق اور مشاہدات کہاں ہیں۔؟؟؟
Pakistan
عبداللہ بھائی
اس سے پہلے والا کالم سارا پیادہ روی اور مشاہدات پر بنی تھا، یہ کالم اسی کا ہی تسلسل ہے، اگر گذشتہ کالم پڑھتے تو آپ کو یہ گلہ کرنے کی ہرگز ضرورت نہ پڑتی۔ اس کالم میں گذشہ پچاس سال کو اس لئے ایڈ کیا کیونکہ داعش ایک ایسا فتنہ سامنے آیا ہے، جس نے عراق کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ اس لئے داعش سے پہلے کا بیک گراونڈ بیان کرنا بھی ضروری تھا، دوسرا سکیورٹی کی ابتر صورتحال کے باوجود تین کروڑ سے زائد لوگوں کا مشی میں شریک ہونا یقیناً ایک بڑا عمل ہے۔ اگلی قسط میں پاکستانی زائرین کو درپیش مسائل پر بات ہوگی۔
نادر بلوچ
Pakistan
ماشاءللہ کمال کر دیا ہے۔
شاهد عباس سندهو
Kuwait
جزاک اللہ نادر بلوچ بھائی
آپ نے مسلمان حکمرانوں کے غلط و ظالمانہ فیصلوں اور اُمت میں فساد برپا کرنے کی یاد دہانی کروا کر مشی کے ایمان فروز عمل سے اُمت کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم تاریخ کے ظالم یزیدیوں سے نہ کبھی ڈرے نہ کبھی اپنے اصولوں سے ہٹے، ہم صبر و استقامت کی اس زمین پہ تمام انسانیت پہ ایک پُروقار انسانی تہذیب رکھتے ہیں، جو حسینی ہیں اور لبیک یاحسین ع کہتے ہوئے ہر ظلم و بربیت برداشت کرکے بھی شدت اور خونی مزاحمت کی طرف نہیں جاتے، امن سے اس زمین کی اشرف المخلوق انسان کی انسانیت کے حُسن کو نکھار کر دکھاتے ہیں کہ یہ ہے اصل انسانیت۔
ہماری پیشکش