1
0
Saturday 10 Dec 2016 16:01

اربعین حسینی اور میں

اربعین حسینی اور میں
محمد انور
I really appreciate your services. May Allah increase your toufeeq. InshAllah

ابرار
"...🖊ایسے ہی بس سننا چاہتا تھا کہ یہ کیا جواب دیں گے۔ میرے لئے نہایت دلچسپ تھا۔ بہت سے عراقیوں سے اور موکب لگانے والوں سے بھی میں نے یہی سوال پوچھا۔
ایک نے کہا: میں تمام زندگی اپنے مولا حسین (ع) کا شکر گزار ہوں، وعدہ کر چکا ہوں کہ اپنی زندگی کے ختم ہونے تک حسین (ع) کے زائرین کی خدمت کروں گا۔
دوسرے نے کہا: امام حسین (ع) کے زائر کو کھانا کھلانا بہت ثواب کا کام ہے۔ کسی نے کہا امام کے زائر کی خدمت کرنا ایسے ہےو جیسے امام حسین (ع) کی خدمت کی جائے۔
لیکن ایک جواب میرے دل کو بہت شدت سے چھو کر گزرا۔۔۔۔۔۔
ایک گندمی رنگ جوان جو کھجوروں کی ٹرے لے کر صبح سویرے سڑک کے درمیان کھڑا تھا۔ ٹرے لے کر میری طرف آیا۔ میں نے اس میں سے ایک کھجور لی اور پوچھا: اتنے دنوں سے اپنا گھر اور کاروبار و زندگی چھوڑ کر یہاں زائرین کی خدمت کے لئے کیوں آئے ہو؟
اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے، اس نے غمگین انداز میں اپنے آنسووں کو ضبط کیا۔ اس کا لہجہ عراقی تھا، البتہ اس نے فارسی میں جواب دیا:
"ہر سال اسی امید پر دل کو خوش رکھتا ہوں کہ شاید کھجوروں کی اس ٹرے کو میں امام زمانہ (عج) کے آگے پیش کر چکا ہوں۔۔۔۔۔۔ بس یہی"!

سید میثم ہمدانی
اربعین حسینی علیہ السلام کے موقع پر کربلا کی سرزمین گویا اپنی وسعت کو پھیلا کر امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والے لاکھوں زائرین کو اپنے اندر سمو لیتی ہے اور ایک ماں کی طرح جیسے وہ اپنے کسی بچے کو بھوکا پیاسا نہیں دیکھ سکتی، یہ سرزمین بھی اسی طرح اپنے امام کے چاہنے والوں کو سیراب کرتی ہے۔ جس طرح کربلا کا واقعہ حیران کن اور تعجب انگیز معجزہ نما ہے، اسی طرح امام حسین علیہ السلام کے چہلم پر کئی لاکھ زائرین کا دسیوں دن تک بغیر کسی فکر اور دنیاوی مشکل کے ہزاروں کلومیڑ پیدل سفر کرنے کا حماسی انداز بھی معجزہ نما ہے۔ یہاں سے جانے والے کچھ زائرین نے بتایا کہ جب انہوں نے کراچی سے لاہور جاتے ہوئے ٹرین میں کچھ اہلسنت بھائیوں کیلئے اپنے اربعین کے واقعات اور یادوں کو بیان کیا تو وہ کہنے لگے: بھائی ہم نے پہلے بھی یہ باتیں سنی ہیں، لیکن سمجھتے تھے یہ جھوٹ ہے، اگلے برس اگر جائیں تو ہمیں ساتھ لے کر جائیں۔ یہ زائرین بتا رہے تھے کہ ان اہلسنت برادر نوجوانوں نے ہمارے فون نمبر لئے اور اپنا رابطہ نمبر دے کر ہم سے وعدہ کیا کہ اگلے سال ہمیں بھی امام حسین علیہ السلام کے چہلم پر عراق کی زیارات پر اپنے ساتھ لے چلیں۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین!


آقای سید
السلام علیک یا ابا عبدالله الحسین، اقا جون دلمون براتون تنگ شده، اجازه زیارت بفرمایید۔ اقا جون من میخواهم در مدرسه درس خونم، اقا جون پدر و مادر مرا شفا بده، اقا جون قسمتم بکن تا بیام حرم۔ اقا جون کربلایی کن، اقا جون نینوایی کن۔

میم نون خان

(ہندو ہوں مگر دشمن شبیر نہیں)
میں اگرچہ ایک ہندو ہوں اور یونان کی راجدھانی ایتھنز سے ایک دور دراز جگہ پر رہتا ہوں، لیکن دنیا میں کسی کے ساتھ بھی ظلم و زیادتی کی صورت میں میری ہمدردیاں مظلوم کے ساتھ ہی ہوتی ہیں چاہے کشمیر ہو یا فلسطین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہندو کے فون سے پہلے تو میں گبھرایا، لیکن رام لال کی سوچ سے مجھے ایک اچھے انسان کی خوشبو محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو میں نے استفسار کیا، جناب میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟؟ ؟؟ ؟؟ ؟؟
وہ بولا کہ مجھے آپکا نمبر ظاہراً آپ کی کسی تحریر کے ذریعے سے ملا ہے۔ دراصل، آپ سوشل اور پرنٹ میڈیا کی طاقت کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، اسی لئے اگرچہ آج تک میں مالی مشکلات کیوجہ سے ہندوستان نہیں جا سکا، لیکن جب بھی میڈیا پر اجتماع کھمبہ میلہ میں دریائے کنگا جمنا میں سادھوں کو آشنان کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے گناہ بھی دھلتے محسوس ہوتے ہیں۔
اسپین جانا تو ناممکن ہے، لیکن وہاں ہونے والے tomato fight ٹماٹروں والے جشن کی تصویروں اور ویڈیوں کو جب دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ جیسے ابھی مجھے بھی ایک ٹماٹر لگ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہولی اور دیوالی کے اجتماع میں رنگ اور روشنیاں دیکھوں اور اپنا بدن رنگا رنگ ہوتا محسوس نہ ہو کیسے ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرسمس (مسیحیت کا اجتماع) میں اگرچہ آپ نے شرکت تو نہیں کی ہوگی، لیکن میڈیا پر اس کی تصاویر سے آپ کو بھی ایک اپنائیت کا احساس ہوتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میکسیکو اور فرانس میں running of bulls بیلوں کے آگے دوڑنے والے اجتماع کی جب میڈیا پر تصاویر دیکھوں تو یوں لگتا ہے جیسے ابھی مجھے بھی ایک بیل کا سینگھ لگ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولینٹاین ڈے پر ایک دوسرے کو پھول دینے والی تصویر سے دور ہونے کے باوجو گلاب کے پھول کی خوشبو اپنے دماغ کو معطر کرتی محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Balloon Fiesta ہو یا lantern festival، میڈیا، تصاویر اور ویڈیو کی طاقت کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ ہم بھی فضاء میں لیمپ اور غبارے چھوڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے اس کی بات کو کاٹا اور پوچھا رام لال جی معذرت، لیکن آپ مجھے یہ سب کیوں بتا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ ہچکچاتے ہوئے بولا!
خان صاحب دراصل پہلے تو شیعہ کے بارے میں میری معلومات فقط چھریاں، چاقو، زنجیریوں اور تلواروں کی حد تک ہی ہیں، کیونکہ میں نے جب نیٹ پر یہ کلمہ لکھا تو زیادہ تر یہی نظر آیا، لیکن چند دن پہلے مجھے ایک مختلف قسم کی معلومات ملی ہے۔
دنیا میں سب سے بڑا انسانی اجتماع، عراق میں 25 میلین سے زیادہ انسان جمع

اس سے پہلے تو ہم ہندو لوگ فخر سے کہتے تھے کہ بزرگترین اجتماع دنیا ہمارا میلہ کھمنبہ ہوتا ہے، لیکن جب آپ لوگوں کے چہلم امام حسین کے اجتماع کی جذئیات کا علم ہوا تو مجھے آپ کا مقام اپنے سے بڑا نظر آیا، کیونکہ ہمارا اجتماع ہر سال نہیں ہوتا، جبکہ آپ حسین ابن علی سے اظہار عشق کیلے ہر سال چہلم پر اکٹھے ہوتے ہیں۔
اسکے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا دسترخوان
آپ لوگوں کی عبادت کیلئے دنیا کی سب سے لمبی 80 کلومیٹر کی لائن (نماز جماعت)، 400 کلومیٹر کا طولانی ترین جلوس، کسی ملک کی آدھی آبادی کی شرکت، وہ جگہ جہاں دنیا میں سب سے زیادہ خدمت کی جاتی ہے، ایثار و خلوص کی معراج، عشق و محبت کی انتہا، دنیا کی ہر نعمت جس کا تصور کریں، مفت آمادہ و تیار اور یہ سب عام لوگوں کی طرف سے حکومت کے تعاون کے بغیر۔ دنیا کے 60 سے زیادہ ملکوں کے لوگوں کی شرکت، وہ بھی کسی پرامن ملک میں نہیں بلکہ عراق جیسا ناامن ملک، دہشت کی علامت داعش کی موجودگی اور دھمکیاں، بم دھماکے، قتل و غارت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس کے باوجود میڈیا کا اس اجتماع کو کوریج نہ دینا ایک بڑا سوالیہ نشان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اخبارات اور رسائل جو نام نھاد اسلام کے دعویدار دہشتگردوں کی چھوٹی سی بھی حرکت کو بڑا بنا کر پیش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی کوشش کرتے ہیں، انکو عراق میں عشق، خلوص، محبت، ایثار، فداکاری اور خدمت کی اس عظیم درسگاہ کی تصویر سے آنکھیں چرائے بیٹھے رہنے کا حکم کیوں اور کس نے دیا ہے!!!!!!!!
عالمی میڈیا کے، میڈیا کوریج دینے کے اپنے ہی بنائے ہوئے تین بنیادی اصول یعنی
🌷کثرت🌷
🌷استثنٰی🌷
🌷حیرت اور تعجب🌷
نجف اور کربلا میں مسلمانوں کے اس اجتماع میں کیوں بدل جاتے ہیں؟
کیا یہ تینوں کے تینوں اصول مکمل طور پر کربلا میں موجود نہیں؟
وہ کونسا ڈر اور خوف ہے جسکی وجہ سے آپ دنیا کی آنکھ سے اس اجتماع کو چھپانا چاہتے ہیں۔۔۔
اور پھر اچانک مجھے اپنے اس سوال کا جواب بھی مل ہی گیا، کیونکہ جیسے جیسے اس اجتماع کی تصاویر اور ویڈیو کو دیکھتا جاتا، اپنے اندر ایک عجیب احساس کو محسوس کرتا جاتا اور وہ یہ تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں خود جب اس اجتماع کو دیکھ رہا تھا تو یوں لگا جیسے ہزاروں کلومیٹر دور ہونے کے باوجود میں بھی اس اجتماع کے راہ کا راہی ہوں اور سپاہی ہوں، معذوری کے باوجود چلنے والوں کا ہمسفر، ان مظلوموں کا ساتھی، حتٰی چھوٹےچھوٹے بچوں کو خدمت کرتے دیکھ کر میرے چھوٹے بیٹے کے چہرے کے تاثرات بھی بدلنے لگے اور وہ بولا کہ باپو میں بھی یہاں جا کر ان بچوں کی طرح خدمت کرنا چاہتا ہوں، جب بڑی بڑی شخصیات امراء اور حتٰی حکومتی اور فوجی جرنیلوں تک جو زایرین کے جوتے پالش کرتے، بدن اور پاوں کو مالش کرتے دیکھا تو حیرت زدہ ہوگیا کہ
اے حسین ابن علی تیرے اندر وہ کونسی کشش اور مقناطیسیت ہے، جو بڑے سے بڑے انسان کو زایرین کی خدمت پر اس طرح مجبور کر دیتی ہے کہ لوگ زایرین کے پاوں تک چومتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔
جب وہ لیبک یاحسین کی صدا بلند کرتے تو میرے جسم کے ایک ایک حصے سے یاحسین یاحسین کی آواز بلند ہوتی محسوس ہوئی اور آخر میں جب امام حسین کے مزار مبارک کی تصویر اور ویڈیو دیکھی تو پورا  بدن جیسے اس ضریح مبارک سے لپٹ گیا ہو اور آنکھوں سے آنسووں کی برسات اور یہ امید کہ عاشقان امام حسین میں میرا نام بھی لکھ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ روتا جاتا اور اسکی سسکیوں کی آواز میرے دل پر عجیب اثر ڈالتی جاتی اور میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ محبت امام حسین میں میرا خلوص زیادہ ہے یا رام لال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سوچ رہا تھا کہ دشمن آخر کیوں امام حسین اور حسینت کی اس خبر کو میڈیا پر نہیں آنے دیتا؟
کیونکہ انکو ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی رام لال عاشق حسین بن جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ہاں کہیں ایسا نہ ہو یورپ، امریکہ، آفریقہ یا ایشیاء کا کوئی عیسائی کرسچن اس شمع حسینی کا پروانہ نہ بن جائے۔ کسی یہودی کے دل میں عشق حسین ابن علی جوش مارنے نہ لگ جائے، کوئی سرخ، سیاہ، سفید یا گندمی رنگ والا شخص لبیک یاحسین کے فلگ شگاف نعرے لگا کر استعمار کے ایوانوں کو نہ ہلا دے۔ کوئی عرب سلفی وہابی اپنے یزیدی آقاوں سے بغاوت کر کے حر نہ بن جائے، کویی آفریقہ میں شیخ زکزاکی نہ بن جائے۔ خوف ہے انکو کہ کہیں کوئی مقصد امام حسین سمجھ کر امام حسین کی طرح وقت کے ظالم سے ٹکرا نہ جائے۔۔۔ یا کم از کم اور کچھ نہیں تو کہیں حسین کی محبت میں حسین کے شیعوں سے پیار نہ کرنا شروع کر دے اور استعمار کو تو بشریت کو تشیع سے دور رکھنا ہے!
لیکن یاد رکھیں کہ!
انسان کو  بیدار تو  ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

جمال رضوی
سلام، اربعین کی مشی میں پاکستانی موکب کا اگر ذکر نہ ہو تو واقعاً ان مومنین کے ساتھ انصاف نہ ہوگا۔ اللہ ان لوگوں کی زحمات قبول کرے، ان لوگوں نے جو پاکستانی کھانے کھلائے اور جو پاکستانی ماحول۔ ارے بھائی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے انچولی میں ہوں۔ اللہ قبول کرے

عبدالرحمان، خوشاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس دفعہ اربعین پر جانے کا موقع ملا، واقعاً جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔ ایک تو ہم لوگ عراقیوں کی مہمان نوازی پر دل دے بیٹھے۔ اتنا خلوص، اتنی محبت اللہ ان کی توفیقات میں اور اضافہ فرمائے۔ ہم لوگ زہدان کے راستے ایران میں داخل ہوئے تھے۔ کوئٹہ سے بارڈر تک کا (اپنے ملک کے اندر کا سفر) خوف زدہ اور توہین آمیز سفر شاید کسی ملک کی حکومت نے اپنے باشندوں کو فراہم نہ کیا ہو، جو ہماری حکومت نے ہمیں مہیا کیا اور پھر بارڈر پر جو ذلت پاکستانی ایف سی اہلکاروں اور ایف آئی اے حکام کی طرف سے ہمارے نصیب آئی، وہ تو نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے۔ خیر بارڈر کے اس طرف آئے تو ایرانی سرزمین پر کچھ ایرانی و پاکستان نوجوان اور علماء زائرین کے استقبال کے لئے موجود تھے جنہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور کچھ کھانے اور پینے کو دیا۔ وہ لوگ تو کہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس آرام کی جگہ بھی ہے مگر ہم لوگ جلدی جلدی عراق پہنچنا چاہتے تھے، کیونکہ ہمارے کچھ عزیز بائی ایئر نجف پہنچ چکے تھے، جن کے ساتھ ہم نے پیادہ روی کرنی تھی۔ اس وجہ سے ہم نے سامان اٹھایا، ٹیکسی لی اور زہدان بس ٹرمینل پر پہنچ گئے۔ وہاں سے قم آئے تو قم میں ایرانیوں نے پاکستانی اور افغانی زائرین کے لئے ایک موکب بنا رکھا تھا، جس میں ایک رات قیام کیا، جہاں پر زائرین کے لئے کھانے، نہانے اور آرام کا بہتر انتظام تھا۔ اس کے بعد اگلے دن قم سے شلمچہ روانہ ہوئے تو کافی تھکا دینے والا سفر تھا، یہ سفر ہم نے ایرانی ٹرین پر کیا، جس پر ہم رات کو قم سے سوار ہوئے تو اگلے دن شام 5 بجے کے قریب خرم شہر یا زیرو پوائنٹ پہنچے۔

ایران کی طرف کچھ موکب بنے ہوئے تھے، جن میں کھانے پینے اور آرام کی سہولت دی جا رہی تھی، مگر ہم لوگ ویزہ دکھاتے exit تک پہنچ گئے، کافی سخت چیکیکنگ تھی۔ عراقی تو ویزہ دیکھتے ہی کہتے تھے کہ ھلابیکم زائر اور ایک منٹ میں انٹری اور ہم اس طرف۔ اس طرف سے ایک عراقی سم خریدی، تاکہ دوستان سے نجف میں رابطہ کیا جا سکے اور کھجوریں کھائیں، نماز کا وقت ہوگیا تھا، جلدی جلدی مغرب کی نماز پڑھی اور ٹیکسی لے کر نجف کی طرف روانہ ہوئے تو بصرہ سے کچھ پہلے کچھ دیہاتی لوگ گاڑیاں روک رہے تھے، ہم سمجھے کی بھائی پاکستان کی طرح کوئی ڈکیتی کی واردات ہے، مگر آگے جاکر پتہ چلا کہ دیہاتی لوگ زائرین امام حسین (ع) کو روک رہے تھے کہ شام کا کھانا کھائیں اور آرام کریں۔ ہمارے ڈرائیور نے گاڑی چلانی چاہی تو ایک دیہاتی گاڑی کے سامنے لیٹ گیا کہ پاکستانیوں کو ضرور گھر لے کر جانا ہے، یہ بہت مشکل سے زیارت پر آتے ہیں۔ (یہ بات ڈرائیور نے عراقی دیہاتی کو بتائی کہ ہم لوگ پاکستانی ہیں) خیر وہ لوگ ہمیں گھر لے گئے کھانا کھلایا اور چائے پیش کی۔ ایک دوست نے کہا کہ یہ ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ خیر رات کو 2 بجے کے قریب نجف پہنچے۔
باقی اگلی قسط میں۔

نامعلوم
ماشاءاللہ اچھا سلسلہ ہے۔ اس طرح بہترین سفرنامے تخلیق ہونگے، جو ہماری قومی میراث بنیں گے۔ خدا اسلام ٹائمز کو مزید فروغ اور توفیقات عطا کرے۔

علی بھائی
سلام، میرے خیال میں پیادہ روی اربعین، امام زمان (عج) کے ظہور سے پہلے انسانیت کو معراج کی بلندیوں تک پہنچانے کیلئے زمینہ سازی ہے۔ جیسے اخلاق، ایثار، محبت، رحم، مناجات، قربانی، رحمدلی، دعا و عبادات، راہ خدا میں خرچ اور دوسروں سے روابط کے اعلٰی معیار وغیرہ۔

خبر کا کوڈ : 590385
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Muhammad Anwer
China
I really appreciate your services. May Allah increase your toufeeq. InshAllah
ہماری پیشکش