0
Sunday 11 Dec 2016 09:28

قطری شکاریوں کیخلاف احتجاج کرنیوالے کسانوں کی سنی جائے

قطری شکاریوں کیخلاف احتجاج کرنیوالے کسانوں کی سنی جائے
تحریر: طاہر یاسین طاہر

عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنی خواہشات کے گھوڑے کو ایڑ لگائے ہوئے محنت کشوں کی امیدوں کے ہر باغ اور اس گل بوٹے کو مسل رہا ہے، جس سے غریبوں کے گھروں میں چولہا جلنے کی امید ہوتی ہے۔ بادشاہ، بادشاہوں کے دوست ہوا کرتے ہیں، ابدی حقیقت یہی ہے۔ ریاستوں کے مدنظر ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں حکمران طبقہ ذاتی تعلقات کو ہی خارجہ و داخلہ پالیسی کا اہم ستون سمجھتا ہے۔ یہ رویہ پاکستانی عوام کے اجتماعی سیاسی شعور کی توہین ہے۔ پاناما لیکس پر قطری شاہی خاندان کا خط از خود اس بات کی علامت ہے کہ شاہی خاندان اور شریف خاندان کے باہمی تجارتی و ذاتی روابط کس حد تک مستحکم و مضبوط ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب قطری شاہی خاندان اپنی "شکار گاہ" پہنچا تو ان کا استقبال وزیراعظم کے بیٹے نے کیا اور انھوں نے ضیافت بھی وزیراعظم کے گھر میں اڑائی۔ ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ اللہ کے بعد ہمارا تکیہ، عجوہ کھجور، پاک چائنہ فرینڈ شپ اور "قطری کتری" شہزادوں کی دوستی پر ہے۔

یہ سیاسی و اساسی تکیہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے حکمران عوام پر اعتماد کے بجائے استعمار کے بڑے ایجنٹوں کی کاسہ لیسی کو ہی "جمہوریت" اور اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ تہذیبوں کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان جس کو پسند کرتا ہے، اس کے عادات و اطوار بھی اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ بے شک ہمارے "جمہوری" حکمران جو 249 ارب پتی بھی ہیں، ان کی زندگیوں اور طرز حکومت میں "عرب" مہربانوں کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی ہمارے ہاں جمہوریت ہے۔ ایک خاندان سے دوسرے خاندان کے گرد طواف کرتی جمہوریت۔ اس جمہوری طواف کے چکر میں کبھی پیپلز پارٹی آگے نکل جاتی ہے تو کبھی نون لیگ۔ گاہے اس جمہوری طواف کے"چکر کھیل" میں آمرانہ چکر بازی لے جاتے ہیں۔ آمرانہ "چکر بازوں" کو عدلیہ "انصاف" بھی دیتی ہے اور اس انصاف کی توثیق پارلیمان بھی کرتی ہے۔ یہی تاریخ ہے۔ کیا ملکوں کے تعلقات پرندوں کے شکار پر بنتے بگڑتے ہیں یا ملکی و قومی مفادات پر؟ پاکستان شاہد دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں باقاعدہ عرب شہنشاہوں کو دعوت نامے جاری کرکے اپنے ہی کسانوں کی فصلیں اجاڑنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

ڈان کی ایک خبر کے مطابق قطر کے شاہی خاندان کے افراد کی جانب سے تلور کے شکار کے دوران مبینہ طور پر چنے کی فصل کو نقصان پہنچانے پر احتجاج کے دوران کسانوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوگئی۔ یہ جھڑپ پنجاب کے ضلع بھکر کی تحصیل مانکیرا کے علاقے ماہنی میں ہوئی۔ لاوڈ اسپیکرز کے ذریعے اعلانات کے بعد مظاہرین ماہنی کے علاقے میں جمع ہوئے اور عرب شکاریوں کے کیمپوں کی طرف مارچ شروع کیا، تاہم پولیس نے انہیں وہاں پہنچنے سے قبل ہی روک دیا۔ پولیس نے مظاہرین سے کہا کہ وہ پرامن طور پر منتشر ہوجائیں، لیکن مظاہرین نے منتشر ہونے کے بجائے شکاریوں سے فوری طور پر علاقہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ عرب شکاری پورے سیزن کے دوران پیدا ہونے والی فصل کو تباہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے دوبارہ کیمپوں کی طرف مارچ کرنے پر پولیس نے ان پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دیں۔ اس موقع پر مظاہرین نے شکاریوں اور حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے۔ بعد ازاں مانکیرا کے اسسٹنٹ کمشنر موقع پر پہنچے اور مظاہرین سے مذاکرات کئے۔ مذاکرات کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ مظاہرین کا وفد شاہی خاندان کے افراد سے ملاقات کرے گا، جس میں طے کیا جائے گا کہ آیا یہ مسئلہ معاوضے کی ادائیگی کے ذریعے خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ سال بھی جب قطری شکاریوں کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا تو انہوں نے علاقے میں ہسپتال اور اسکول تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس سلسلے میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ دریں اثتا وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے تلور کے شکار پر لگائی جانے والی پابندی کو اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے گذشتہ برس کہا تھا کہ خطے میں موجود افراتفری کے باعث مذکورہ پابندی سے ہمارے تعلقات عرب ریاستوں سے مزید کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ گذشتہ سال 19 اگست کو تلور کے شکار پر لگائی جانے والی پابندی کے فیصلے کا اثر نو جائزہ لینے کے لئے وزارت خارجہ کی جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ یہ پٹیشن خیلجی ریاستوں کے ساتھ ہمارے خارجہ تعلقات پر براہ راست اثر انداز ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے ہے۔ اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین روکنی بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تلور کے شکار کے لائسنس جاری نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن وفاق نے زور دیا تھا کہ مذکورہ معاملہ پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ہے اور اس قسم کے معاملات میں اعلٰی عدلیہ مداخلت کرنے سے گریز کرتی ہے۔ تلور کے شکار پر پابندی کے فیصلے پر اثر نو جائزے کے لئے سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ شکاری پرندے باز سے شکار کرنا مشرق وسطٰی کی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے خارجہ تعلقات میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ خلیجی ریاستوں کے شہزادوں کو خوش کرنا ہے، جبکہ ان بادشاہوں کے شکار کی وجہ سے کسانوں کا جو اجتماعی نقصان ہوتا ہے اور ان کی سیزن بھر کی جو محنت کسی امیر بادشاہ کے شوق کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے، اس پر ابھی تک کوئی ریاستی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ اگر واقعی خلیجی ریاستوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کا مدار تلور کے شکار پر ہے تو پھر جن کسانوں کا نقصان ہوتا ہے ان کو معاوضہ بھی دلوایا جائے اور ان علاقوں میں خلیجی ریاستوں کے تعاون سے تعلیم و صحت کے میدان میں کام کا آغاز بھی کروایا جائے۔ نیز جن علاقوں میں عرب بادشاہ تلور کا شکار کرنے آتے ہیں، ان علاقوں کے ہنر مند افراد اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے ممالک میں اچھی نوکریاں بھی دیں۔ کیونکہ اگر خارجی تعلقات کو ہی مستحکم کرنا ہے تو ریاست اپنے کسانوں اور ان کی نسلوں کے مفادات کا بھی تحفظ کرے، بصورت دیگر حکمران طبقہ اپنے ذاتی تعلقات اور کاروبار کے استحکام کے لئے پاکستانی عوام کے مستقبل کو تباہ نہ کرے۔
خبر کا کوڈ : 590630
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش