8
0
Sunday 11 Dec 2016 17:41

فلسطین کے حالات پر ایک تازہ نظر

فلسطین کے حالات پر ایک تازہ نظر
تحریر: عرفان علی

فلسطین کے مغربی کنارے نامی چھوٹے سے علاقے پر حکمران جماعت الفتح کی ساتویں کانگریس تقریباً چھ سال بعد منعقد ہوئی، جس میں اس جماعت کی مرکزی کمیٹی کے 18 اور انقلابی کمیٹی کے 80 اراکین کا انتخاب عمل میں آیا۔ فلسطینی خبر رساں ادارے وکالۃ الانباء فلسطینیہ مستقلہ  ”سما الاخباریہ“  نے 4 دسمبر 2016ء کو مرکزی کمیٹی کے انتخابات کے نتائج کی خبر نشر کی۔ اس کے مطابق (جعلی ریاست) اسرائیل کی جیل میں قید مروان ال برغوثی کے حق میں سب سے زیادہ  938 ووٹ کاسٹ کئے گئے۔ جبریل رجوب جو ماضی میں فلسطینی سکیورٹی کے انچارج رہ چکے ہیں، ان کے حق میں 936 ووٹ ڈالے گئے۔ محمد اشتیہ 798 ووٹ، حسین الشیخ 791، محمود العالول 745، توفیق الطیراوی 745، صائب عریقات 672، الحاج اسماعیل 665، جمال محیسن655، احمد حلس 645، ناصر القدوہ 645، محمد المدنی 610، صبری صیدم 583، عزام الاحمد 549، عباس زکی 543، روحی فتوح 488، دلال سلامۃ 477 اور سمیر الرفاعی 645 ووٹ حاصل کرکے مرکزی اراکین کی حیثیت سے منتخب ہوچکے ہیں۔

محمود عباس الفتح کے بدستور قائد رہیں گے۔ یاسر عرفات کی رحلت کے بعد سے وہ فلسطینی انتظامیہ کے صدر تھے۔ 2009ء میں ان کہ صدارت کی سرکاری میعاد ختم ہوچکی، لیکن وہ بدستور صدر بھی ہیں اور اپنی جماعت کے قائد بھی۔ ان کے لئے خطرہ بننے والے غزہ کے محمد دحلان اور ان کی سکیورٹی فورسز کو غزہ میں حماس نے جون 2007ء میں نکال باہر کر دیا تھا۔ بعد ازاں 2011ء میں فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے ان پر قتل اور مالی بدعنوانی کے الزامات لگا کر انہیں الفتح سے خارج کر دیا گیا تھا۔ البتہ الفتح میں محمود عباس کے مقابلے میں ان کا گروپ بھی طاقتور سیاسی مخالف کے طور پر موجود رہا تھا۔ 2009ء میں محمد دحلان الفتح میں تھے تو الفتح کے 2000 عہدیداروں نے کانگریس میں شرکت کی تھی، لیکن اس مرتبہ الفتح کانگریس میں 1400 عہدیداران نے شرکت کی۔ فلسطینی مبصرین میں سے بعض کی رائے یہ ہے کہ تعداد کی کمی محمود عباس گروپ کی دانستہ کوشش تھی کہ سیاسی مخالف گروہ کو کانگریس میں شرکت نہ کرنے دی جائے۔

محمد دحلان آج کل متحدہ عرب امارات میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ 3 نومبر 2016ء کو فلسطین کی آئینی عدالت جو محمود عباس نے قائم کی تھی، نے فلسطینی اراکین پارلیمنٹ کو احتساب سے حاصل استثناء کو ختم کر دیا ہے۔ اس پر محمود عباس کے سیاسی مخالف اراکین نے کہا ہے کہ مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لئے یہ فیصلہ سنایا گیا ہے اور خاص طور پر اس فیصلے کا اطلاق محمد دحلان پر ہوگا اور شاید اب ان پر مقدمات چلائے جائیں۔ محمود دحلان نے اکتوبر میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک کانفرنس منعقد کی، جس کا عنوان تھا ”فلسطینی کاز کا مستقبل۔“ اس کے علاوہ وہ غزہ کی پٹی میں اپنے حامیوں کے ذریعے سے کبھی کبھار مظاہرے یا اجتماعات منعقد کرواتے رہتے ہیں۔ یورپ اور لبنان میں مقیم فلسطینی مہاجرین کے درمیان بھی ان کے حامی سرگرم ہوچکے ہیں۔ مصر کی ال سیسی حکومت دحلان گروپ کو مستقبل کی فلسطینی قیادت کا اٹوٹ انگ دیکھنا چاہتی ہے۔ دحلان خود صدارت کے امیدوار نہیں بلکہ وہ صہیونیوں کے قیدی مروان البرغوثی کو مستقبل کا صدر بنانا چاہتے ہیں۔ محمود عباس اکیاسی بیاسی سال کے ہوچکے ہیں اور حال ہی میں انہیں دل کا دورہ بھی پڑا تھا۔ اس وقت فلسطینی معاملات میں عرب ممالک کا چار کا ٹولہ زیادہ دلچسپی لے رہا ہے یعنی سعودی عرب، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات۔

محمود دحلان کوئی گمنام یا معمولی شخصیت نہیں ہے۔ وائی ریور کانفرنس میں یاسر عرفات کی قیادت میں جو فلسطینی وفد شریک ہوا تھا، اس میں ابو علاء احمد قریع، ابو مازن محمود عباس، صائب عریقات، جبریل رجوب اور محمود دحلان بھی شامل تھے۔ ابو علاء احمد قریع اب الفتح کی مرکزی کمیٹی میں شامل نہیں رہے۔ امریکی سی آئی اے کے تحت صہیونی و فلسطینی مذاکرات میں بھی محمود دحلان ایک اہم اور مرکزی کردار تھے۔ دحلان اور جبریل رجوب دونوں صہیونیوں کی قید میں رہنے کی وجہ سے عبرانی زبان بھی سیکھ چکے ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جارج ٹینیٹ نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب At the Center of the Storm کے باب چہارم میں دحلان کے کردار کا مختصر تذکرہ کیا ہے، جبکہ امریکی حکومت کے صہیونی مذاکرات کار ڈینس روس جو 1988ء سے سال 2000ء تک امریکی نمائندہ برائے مشرق وسطٰی تھے، نے اپنی کتاب The Missing Peace:The Inside Story of teh Fight for Middle East Peace میں محمود دحلان کے کردار کا 62 الگ الگ صفحات پر تذکرہ کیا ہے۔

فلسطین کے خبر رساں ادارے سوا نیوز کی 29 اگست 2016ء کی خبر کے مطابق مذکورہ چار عرب ممالک کی جانب سے محمود عباس کو تاکید کی گئی ہے کہ مفاہمت پر توجہ دیں۔ انہوں نے محمود دحلان سے مفاہمت پر زور دیا۔ اس پر محمود عباس خفا ہوگئے۔ 5 ستمبر کو صفا نیوز ایجنسی کی خبر تھی کہ محمود عباس نے چار کے ٹولے کے اعلامیے کے ردعمل میں کہا کہ کوئی انہیں ڈکٹیشن نہ دے کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ فلسطینی انتظامیہ کے چینل پر نشر ہونے والے بیان میں انہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہوگا کہ سب فلسطینی شناخت پر زور دیں اور سب سے یہ کہیں کہ یہاں وہاں جو خفیہ روابط ہیں، یہ سب بہت ہوچکا۔ اگر کسی کے بیرونی روابط ہیں تو وہ خود ہی منقطع کر دے، ورنہ ہم منقطع کرنا جانتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم فیصلہ ساز انتظامی قوت ہیں، کسی کو بھی ہم پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہے کہ ہم سے یہ باتیں کہے۔ ہم فلسطینی بن کر کام کریں اور فلسطین ہم سے یہی چاہتا ہے۔

محمود عباس نے حماس سے قربتوں کا آغاز کر دیا ہے۔ الفتح کانگریس کے افتتاحی سیشن میں حماس کے وفد نے شرکت بھی کی تھی۔ محمود عباس نے اپنے خطاب میں خالد مشعال کے مثبت پیغام پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ فلسطین کے قانون ساز ادارے (قومی اسمبلی) کے حماسی رکن احمد حاج علی نے کہا کہ وہ خالد مشعال کی نیابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حماس نے اس کانگریس میں شرکت کرکے درحقیقت اس آمادگی کا اظہار کیا ہے، جو فلسطینیوں کی قومی مفاہمت، فلسطین کی بہتری کے فیصلوں اور مطلوب قومی مفاہمت کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ الفتح سمیت سارے فلسطینی گروہوں سے مفاہمت کے خواہشمند ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک آزادی فلسطین میں حماس اور الفتح دونوں رکن کے طور پر شامل ہیں۔

اس وقت غزہ کی پٹی کا عملی کنٹرول حماس اور مغربی کنارے کے محدود علاقے کا محدود کنٹرول محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کے پاس ہے، لیکن دونوں کا مینڈیٹ ختم ہوچکا ہے، کیونکہ طویل عرصے سے نہ تو پارلیمنٹ کے الیکشن ہوئے ہیں اور نہ ہی صدارتی الیکشن۔ لہٰذا اس وقت دونوں فریقوں سمیت سارے فلسطینی گروہوں کو ایک نگران عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کرنا چاہیے اور اس کے تحت پارلیمانی اور صدارتی الیکشن منعقد کرواکے فلسطینیوں سے نیا مینڈیٹ لینا چاہیے، تاکہ انہیں عوامی legitimacy حاصل ہوسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان سارے فلسطینی گروہوں کو تحریک آزادی فلسطین کو فعال بنانا چاہیے، تاکہ آزادی کی تحریک بغیر تعطل کے جاری رہے۔ فلسطین قومی کانفرنس کا اجلاس بھی طویل عرصے سے نہیں ہوا ہے، اس کے جلد اجلاس کا انعقاد بھی ایک اہم چیلنج ہے۔ یہ ہے فلسطین کی تازہ ترین سیاسی صورتحال، جس پر قارئین کو ایک طویل عرصے کے بعد اپ ڈیٹ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 590781
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
برائے مہربانی یہ بھی بتا دیں کہ کہاں سے ترجمہ کیا ہے، تاکہ قارئین خود بھی اصل منبع کا مطالعہ کرسکیں۔
Ali Raza
Pakistan
I think, the writer has mentioned the sources of his references. But the issue is that, they are in English language. I hope you are very efficient at English
عرفان
Pakistan
ترجمہ تو کہیں سے بھی نہیں کیا ہے۔ البتہ معلومات کے منابع لکھے ہوئے ہیں۔ اگر آپ میں پڑھنے کی لیاقت ہے تو ان ۵ عدد منابع کا حوالہ اس تحریر میں موجود نظر آجاتا۔ بہرحال خدا آپ کے مطالعہ اور جو پڑھتے ہیں انہیں سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ فرمائے، ورنہ خود اپنی جگ ہنسائی کا سبب بن سکتے ہیں۔
At the Center of the Storm
Peace:The Inside Story of the
Fight for Middle East Peace
وکالۃ الانباء فلسطینیہ مستقلہ ”سما الاخباریہ“
صفا نیوز ایجنسی
سوا نیوز
امید ہے اپنے دفاع پر مجھے معاف فرمائیں گے۔ عرفان
Ali Raza
Pakistan
Will Hamas follow the footprints of Fatah or vice verse? Or both keep continue their respective paths?
This is the most interesting question and only time will tell if Hamas win over Fataha vice verse?
Very good write-up Irfan Sahab. Keep up the good work.
Dr shah Hussain
United States
Bohat shukria bhai , Palestine key masala per aap ney achi information hamain dein, ba hasiat Pakistani keh jis mulk ko saadat hasil hey keh jab ghasib hukoomat qaim hoi us waqt hee Quaid e Azam Mohammad Ali Jinnah RA ney use na jaiz hukoomat qarar dia tha aor Palestinian awam sey muhabbat Har Pakistani kerta hey, hamaree wazarat e kharja tak bhee yeh tehreer pohanchnee chahiyeh
بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
بہت اچھے عرفان بھائی، زور قلم اور زیادہ ھو
Roozi
فاضل تجزیہ کار نے فلسطین کی تازہ سیاسی صورتحال کا آگاهانه تجزیہ و تحلیل پیش کرکے مظلوم فلسطینی ملت سے ہمدردی رکھنے والے آزاد انسانوں تک حقائق پہنچائے ہیں۔
ماشاءاللہ و جزاک اللہ
Sabir Abo Maryam
Pakistan
Mashallah Irfan Bhai Ap ki Palestine issue ky sath sincerity Qabil-e-Tehseen hai or hamesha ap is ahem masla ko roznama express samait degar websites pr ujagar krty hain, Khuda Ap ki tofiqat me mazeed Izafa farmay. Ameen
Ap ka mukhlis
Sabir Abo Maryam
Secretary General
Palestine Foundation Pakistan
www.plfpakistan.com
ہماری پیشکش