1
Thursday 15 Dec 2016 18:17

شام میں دہشتگردوں کی عبرتناک شکست اور پاکستانی فوج کی ذمہ داریاں

شام میں دہشتگردوں کی عبرتناک شکست اور پاکستانی فوج کی ذمہ داریاں
تحریر: تصور حسین شہزاد

شام کے مشرقی شہر حلب کو آخرکار سرکاری فوج نے دہشتگردوں سے بازیاب کروا ہی لیا۔ حلب پر داعش اور اس کی ہم خیال دہشتگرد تنظیموں القاعدہ اور لشکر جھنگوی العالمی نے 2012ء سے قبضہ کر رکھا تھا۔ فوج کی جانب سے پیش قدمی کا شہریوں نے بھرپور خیر مقدم کیا۔ فوجیوں پر پھول برسائے گئے۔ ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور فوج کی کامیابی پر رات کے وقت ہی شہری سڑکوں پر نکل آئے اور اپنی "آزادی" کا جشن منایا۔ جی ہاں یہ آزادی شامی فوج نے اپنے عوام کو اُن دہشتگردوں سے دلائی ہے، جن کو بی بی سی سمیت تمام مغربی میڈیا باغی کہہ اور لکھ رہا ہے۔ یہ باغی نہیں بلکہ باہر سے شام میں جمع ہونیوالے دہشتگرد ہیں، جن کیخلاف پاکستان اور دیگر ممالک میں گھیرا تنگ ہونے پر یہ داعش میں شامل ہونے کیلئے وہاں پہنچے تھے۔

حلب کو دہشتگردوں کے ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر ان کے سرپرستوں کو اپنی یہ شکست بہت اذیت ناک محسوس ہوئی اور نام نہاد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے فوج کی پیش قدمی پر واویلا شروع کر دیا۔ فوج کی جانب سے پیش قدمی کے موقع پر دہشتگردوں نے عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ دہشتگردوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ وہ شہری فوج کو ان کی موجودگی کی اطلاعات پہنچا رہے ہیں۔ دہشتگردوں کی جانب سے عوام پر غیر انسانی مظالم ڈھائے گئے۔ انہیں زندہ جلایا گیا۔ زندہ شہریوں کو باندھ کر گاڑیوں کے نیچے کچلا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونیوالے بیان میں یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کی گئی کہ یہ مظالم (اچھے) دہشتگردوں نے نہیں ڈھائے بلکہ (بُری) شامی فوج نے ڈھائے ہیں۔ اوپر دکھائی گئی تصویر بی بی سی نے شائع کی ہے جبکہ اسے اے ایف پی (خبر رساں ادارے) نے جاری کیا ہے۔ مغرب کے ہزار جھوٹ کے باوجود سچ کی اپنی قوت ہوتی ہے۔ اوپر لگی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام فوج کے آنے اور دہشتگردوں کے فرار اور واصل جہنم ہونے پر جشن منا رہے ہیں۔ یہ تصویر مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے پر ایک طمانچے سے کم نہیں۔

شام کی صورتحال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے بھی دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ ایک طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون گھر بیٹھ کر یہ بیان جاری کر رہے ہیں کہ شامی فوج عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے، جبکہ اس کے برعکس شام کیلئے اقوام متحدہ کے ایلچی سٹیفان ڈی مستورا نے کہا ہے کہ وہ اس بات سے دہشت زدہ ہیں کہ شام میں حکومت مخالف باغی حلب میں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی حلب میں گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران ہونیوالے بے رحم اور بِلا امتیاز راکٹ حملوں میں متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دہشتگردوں کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے بھی استعمال کرنے کی اطلاعات ہیں، لیکن اس قانون شکنی پر اقوام متحدہ بھی خاموش ہے اور عالمی اداروں کو بھی سانپ سونگھ چکا ہے۔

مغربی میڈیا اور اس کے تکفیری ہم نوا مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ فوج اپنے عوام پر مظالم ڈھا رہی ہے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ فوج تو عوام کی محافظ ہوتی ہے۔ اس کا کام تو اپنے وطن کا دفاع ہوتا ہے، اپنے بندے مارنا نہیں۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس لئے جھوٹ بے نقاب ہوگیا۔ شام میں سرکاری فوج کی کمیٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل زید الصالح نے حلب پر پیش قدمی سے قبل اعلان کیا تھا کہ "دہشتگردوں کے پاس زیادہ وقت نہیں، انھیں یا تو ہتھیار ڈالنے ہوں گے یا مرنا ہوگا۔ اس اعلان کا واضح مقصد دشمن کو جان بخشی کا موقع دینا تھا۔ اس اعلان سے شامی فوج نے اتمام حجت کیا اور جب دہشتگردوں کی جانب سے ہتھیار نہیں ڈالے گئے تو حلب کو آزاد کرانے کیلئے فوج نے پیش قدمی کی۔ اس میں بہت سے دہشتگرد واصل جہنم ہوئے اور کئی فرار ہوگئے۔ بہت سے گرفتار ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ان گرفتار دہشتگردوں سے ہونیوالی تفتیش سے ان کے سرپرستوں کے نام بھی سامنے آجائیں گے۔

اُدھر برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کی فنڈنگ سے چلنے والے لندن میں قائم ادارے "سیرین آبزرویٹری ہیومن رائٹس" کے سربراہ کو بھی دہشتگردوں کی شکست پر بہت دکھ ہوا ہے۔ فوج کی فتح دیکھ کر وہ بھی بول اُٹھے کہ "حلب شہر میں قتل عام ہو رہا ہے" ان کی نظر میں قتل ہونیوالے دہشتگرد بھی انسان ہیں۔ ظاہر ہے جن کو ایم آئی سکس اور سی آئی اے جیسی ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہوگی وہ "انسان" تو ہوں گے اور ان کے حقوق بھی ہوں گے، اگر نہیں ہیں تو شام کے نہتے اور بے گناہ عوام کے حقوق نہیں ہیں، جنہیں دہشتگردوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹا ہے۔ مغرب کو اپنے اس دوہرے معیار پر شرم آنی چاہیے۔ انسانیت کے نام پر ادارے بنا رکھے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں، لیکن انہیں صرف غیر مسلم ہی انسان لگتے ہیں۔ کوئی کلمہ گو ان کی نظر میں انسان نہیں۔

شامی فوج کیخلاف پروپیگنڈہ کرنیوالوں کو اس خبر پر شرم سے ڈوب مرنا چاہیے، جس میں کہا گیا ہے کہ شامی فوج نے حلب پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد بھی دہشتگردوں کو نکلنے کا محفوظ راستہ دیا ہے اور انہیں بسوں میں سوار کرکے ان کی مرضی کے علاقے میں بھجوایا جا رہا ہے۔ شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق حلب کے علاقے رموسہ میں بسیں لا کر کھڑی کی گئی ہیں اور فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے دہشتگرد ان بسوں میں سوار ہو جائیں، انہیں محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ دہشتگردوں کے اس انخلاء کے بعد حلب ان ناسوروں سے مکمل طور پر پاک ہو جائے گا۔ بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ سیٹلائٹ اور ڈرون طیاروں کی مدد سے مغربی قوتیں حلب شہر  کی مانیرنگ کر رہی ہیں، دیکھا جا رہا ہے کہ وہاں زیادہ نقصان کس کا ہوا ہے اور دہشتگردوں کیساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، حلب کی مکمل آزادی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ حلب کی آزادی شام کی ہی نہیں بلکہ ایران اور روس کی بھی فتح ہے جبکہ اس شہر میں دہشتگردوں کی تباہی امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور دیگر اتحادیوں کیلئے پیغام عبرت ہے۔

ادھر عبرت ناک پسپائی کے بعد لشکر جھنگوی العالمی کے یوسف منصور خراسانی نے ایک پیغام جاری کیا ہے۔ جس میں حلب میں مار پڑنے کے بعد سٹپٹائے ہوئے باؤلے کتے کی طرح خراسانی نے پاکستان میں اپنے پیروکاروں کو اہل تشیع پر حملوں کی ترغیب دی ہے۔ یوسف منصور خراسانی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ حلب میں ہمارے ساتھ جو ہوا، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن یہ کہتا ہوں کہ آپ اگر شام میں آکر ہماری مدد نہیں کرسکتے تو نہ آئیں، لیکن اپنے آس پاس موجود شیعوں کو تو نشانہ بنا سکتے ہو۔ اس پیغام کے بعد پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ شام و عراق میں عبرتناک شکست کے بعد یہ دہشتگرد دوبارہ پاکستان کا رخ نہ کرلیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رفتار مزید تیزی کا تقاضا کر رہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اپنی ہر تقریر میں کہتے ہیں ہم نے دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا، لیکن وہی دہشتگرد الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں آ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ دہشتگرد اب کسی اور انداز میں فعال ہو رہے ہیں۔ اس پر پاک فوج کے نئے سربراہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔

پاکستان کے عوام نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر مطمئن ہیں۔ عوام اُسی دن سمجھ گئے تھے کہ آرمی چیف دہشتگردوں کا جینا محال کر دیں گے، جس دن پاکستان میں سعودی عرب کے غیر اعلانیہ سفیر علامہ ساجد میر اور طالبان کے غیر اعلانیہ سفیر مولانا فضل الرحمان نے شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ اس جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف نہ بنایا جائے۔ ان دونوں حضرات کی جانب سے جنرل قمر جاوید باجوہ پر "قادیانی" ہونے کا الزام بھی لگایا گیا، لیکن ان کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں اور پاک فوج کی کمان ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آ گئی ہے، جس میں "روح محمدی" بدرجہ اتم موجود ہے۔ جنرل قمر کے ساتھیوں کے مطابق ان کی کتاب میں ملک دشمنوں کیلئے معافی کا کوئی لفظ نہیں۔ جنرل قمر نے آتے ہی فوج کی کمان میں بھی تبدیلیاں کی ہیں، جن میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی تبدیلی بھی شامل ہے۔ فوج کی اعلٰی کمان میں ہونیوالی تبدیلیاں بھی اس بات کی دلیل اور امید ہیں کہ آنیوالا وقت دہشتگردوں کیلئے مزید سخت ہوگا۔ شام اور عراق سے بھاگنے والوں کیلئے پاکستان قبرستان ثابت ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 591974
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش