0
Thursday 15 Dec 2016 21:59

حلب کی عظیم فتح، ممکنہ نتائج و اثرات

حلب کی عظیم فتح، ممکنہ نتائج و اثرات
تحریر: سعداللہ زارعی

حلب کی آزادی خطے کی سطح پر ایک اسٹریٹجک تبدیلی تصور کی جاتی ہے، لہذا ہم علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اس تبدیلی کو روکنے کیلئے بڑے پیمانے پر تگ و دو کے شاہد ہیں۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ، ترکی، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور دیگر کئی ممالک کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ حلب کے خلاف جاری شام آرمی اور اسلامی مزاحمتی بلاک کا فوجی آپریشن ناکامی کا شکار ہو جائے اور اس شہر پر ایسے دہشت گرد عناصر کا قبضہ باقی رہے، جنہیں وہ عالمی خطرے کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حلب کی آزادی حقیقت کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ حلب کی آزادی کیلئے جاری آپریشن کی بعض اہم خصوصیات اور اثرات درج ذیل ہیں:

1)۔ حلب کا معرکہ شامی حکومت اور آرمی اور نیز دہشت گرد عناصر کی نظر میں ایک فیصلہ کن معرکہ اور زندگی و موت کا مسئلہ جانا جاتا ہے۔ جب 2012ء کے مڈ میں دہشت گرد گروہوں نے حلب کی جانب پیشقدمی شروع کی اور دو سال کے اندر اندر انہوں نے حلب شہر سمیت صوبہ حلب کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو ان کی جانب سے ایک اہم اسٹریٹجی پیش کی گئی، جس کے مطابق حلب کو پورے شام میں بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہونا تھا۔ لہذا 2013ء اور 2014ء کے دوران مغربی اور عرب حکمرانوں اور میڈیا کی جانب سے اس موقف پر بہت زیادہ تاکید کی گئی کہ "صدر بشار الاسد کا اقتدار پر باقی رہنے کا کوئی امکان نہیں" اور یہ کہ "شام میں صدر بشار الاسد کیلئے کوئی جگہ نہیں۔" اس زمانے میں یہ موقف شام کی عمومی سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر ایک معمولی اور عام موقف دکھائی دیتا تھا، جس کا منشا مغربی اور عرب حکمرانوں کی جانب سے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے پر مبنی رجحانات تھے۔ لیکن حال ہی میں فاش ہونے والے بعض شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2012ء میں امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے، ترکی انٹیلی جنس ادارے ایم آئی ٹی، سعودی انٹیلی جنس، اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد اور قطر انٹیلی جنس کے سربراہان اور نیٹو کے دو اعلٰی سطحی کمانڈرز کا ترکی کے صوبے ہیٹے میں ایک انتہائی اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ صوبہ حلب کو شام سے علیحدہ کر دیا جائے، کیونکہ ان کی نظر میں یہ اقدام شام کو توڑنے اور اسے کئی نئی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لہذا شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر کی جانب سے حلب کی جانب پیشقدمی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت انجام پائی، جس کے پیچھے مذکورہ ممالک کے جاسوسی ادارے سرگرم تھے۔

2)۔ جب شام آرمی اور اس کی متحد قوتوں نے تکفیری دہشت گردوں کے خلاف حلب میں وسیع آپریشن شروع کیا تو وہی ممالک اور حکومتیں جو اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ پر زور دیتی آئی تھیں اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی تشکیل کا پرچار کرتی آئی تھیں، اس آپریشن کے خلاف میدان میں کود پڑیں اور اس آپریشن کو روک دینے پر زور دینے لگیں۔ جرمنی کی انجیلا مرکل نے حلب کی صورتحال کو انتہائی افسوسناک قرار دیا، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صدر بشار الاسد کو قاتل کہا، وائٹ ہاوس کے ترجمان نے حلب کے خلاف جاری آپریشن کو انتہائی خطرناک قرار دیا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی مشرقی حلب میں محاصرے کا شکار ہونے والوں کی نجات کیلئے بین الاقوامی مداخلت کا مطالبہ کر ڈالا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے حلب سے متعلق ہنگامی اجلاس بلا لیا اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل کچھ عرصہ خاموشی اختیار کرنے کے بعد اعلان کیا کہ نیٹو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے زیر سایہ شام میں ہر قسم کا کردار ادا کرنے کیلئے مکمل طور پر تیار ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے بادشاہ نے تمام عرب حکمرانوں کو منامہ میں اکٹھا کیا اور شام کو ایران کے اثرورسوخ سے آزاد کروانے پر زور دیا۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت بھی اس دوڑ میں پیچھی نہ رہی اور حلب کی مکمل آزادی سے 10 روز قبل دو بار دمشق کو اپنے ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ حلب کی آزادی کس قدر اسٹریٹجک اور اہم ہے۔ اس بارے میں سامنے آنے والے بیانات اور ردعمل کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن ممالک اور حکمرانوں نے حلب کی آزادی کیلئے جاری آپریشن کی شدید مخالفت کا اظہار کیا تھا، وہ وہی تھے جو 2012ء میں ترکی کے علاقے ہیٹے میں بیٹھ کر شام کو توڑنے کی سازشیں بنا چکے تھے اور اب تک دہشت گردوں کی حمایت میں کروڑوں ڈالر کے اخراجات کر چکے تھے۔ لہذا 2012ء کے آخری مہینوں میں شام کو توڑنے کا پیش خیمہ تصور کیا جانے والا صوبہ حلب آج 2016ء میں دہشت گرد عناصر کے قبضے سے مکمل طور پر آزاد ہوچکا ہے اور اس کی آزادی امریکہ کی مرکزیت میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی حتمی شکست کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حلب کی فتح علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر انتہائی گہرے اثرات کا باعث بنے گی۔

3)۔ حلب کی آزادی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شام کے باقی علاقے بھی دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کروا لئے جائیں گے۔ اگر حلب کی جغرافیائی، سیاسی اور سماجی صورتحال کا دیرالزور، رقہ، ادلب، قنیطرہ اور درعا سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حلب میں تکفیری دہشت گردوں کی پوزیشن سب سے زیادہ مضبوط تھی اور شام حکومت، آرمی اور اس کی اتحادی فورسز کیلئے مشکل ترین محاذ تصور کیا جاتا تھا۔ لہذا جب دہشت گردوں کا مضبوط ترین گڑھ اس قدر آسانی سے اسلامی مزاحمتی بلاک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو شام کے باقی علاقوں سے دہشت گرد عناصر کا خاتمہ کوئی مشکل اور بڑا کام نہیں، کیونکہ جغرافیائی اعتبار سے ان میں سے کوئی علاقہ بھی حلب جیسی صورتحال نہیں رکھتا۔ حلب ایک طرف سے ترکی کی سرحد سے ملتا ہے اور ترکی کے ساتھ اس کی 500 کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحدی پٹی ہے۔ دوسری طرف سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شام کے ہمسایہ ممالک میں ترکی ایسا ملک ہے جس نے شام میں سرگرم دہشت گردوں کی سب سے زیادہ مدد اور حمایت کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شام میں دہشت گرد عناصر سب سے زیادہ ترکی کے راستے داخل ہوئے اور ان کیلئے سب سے زیادہ اسلحہ اور لاجسٹک سپورٹ بھی ترکی سے ہی فراہم کی گئی۔ شام کے دیگر ہمسایہ ملک اردن میں اس قدر جرات نہ تھی کہ وہ کھل کر شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر کی مدد کرتا۔ اسی طرح اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم بھی شام کے بحران میں کھلم کھلا مداخلت کی پوزیشن میں نہ تھی، جبکہ شام کے دیگر ہمسایہ ممالک ترکی جیسی پوزیشن اور صلاحیت سے برخوردار نہ تھے۔ لہذا یہ کہنا درست ہوگا کہ حلب کی آزادی درحقیقت ترک حکومت کے خونی ہاتھوں کو باندھ دینے کے مترادف ہے، جبکہ ہیٹے کے کمان سنٹر میں موجود دیگر مداخلت کرنے والی قوتوں کے دروازے بھی بند ہوگئے ہیں۔

ایک طرف حلب شہر کی بڑی آبادی اور دوسری طرف شام حکومت کی جانب سے عام شہریوں کی جان کی حفاظت پر حد سے زیادہ تاکید اس بات کا باعث بنی کہ شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز انتہائی احتیاط سے حلب میں آپریشن انجام دیں۔ شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے موقع پر حلب شہر کی کل آبادی 73 لاکھ افراد پر مشتمل تھی، جن میں سے 90 فیصد سے زائد افراد شام حکومت کے حامی تھے، جبکہ اس وقت شام کے دو دیگر صوبوں قنیطرہ اور درعا کی مجموعی آبادی 21 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ اسی طرح شام بحران کے آغاز پر دیرالزور اور رقہ کی مجموعی آبادی 22 لاکھ کے قریب تھی۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ جب شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز نے انتہائی احتیاط برتتے ہوئے حلب جیسے وسیع اور گنجان آباد صوبے کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کروا لیا ہے تو شام کے دیگر صوبوں جیسے ادلب، دیرالزور، قنیطرہ اور درعا جن کی آبادی کہیں زیادہ کم ہے، بہت آسانی سے دہشت گردوں سے آزاد کروائے جا سکتے ہیں۔ پس شام حکومت کے مخالفین کی جانب سے حلب کی آزادی پر بلند ہونے والی آہ و زاری سے معلوم ہوتا ہے کہ شام آرمی اور اسلامی مزاحمتی بلاک مستقبل قریب میں بہت بڑی کامیابیوں سے ہمکنار ہونے والا ہے۔

4)۔ شام میں جاری بحران میں سب سے زیادہ نقصان امریکیوں کو پہنچا۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطٰی خاص طور پر شام سے متعلق جارج بش اور براک اوباما دونوں کی پالیسیوں کو ایک ساتھ شدید تنقید کا نشانہ بنایا تو بعض کا خیال تھا کہ ٹرمپ کا یہ موقف محض صدارتی مہم میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہے، جبکہ بعض دوسرے یہ کہنے لگے کہ ٹرمپ خود شام سے متعلق کوئی عقل مندانہ پالیسی اختیار کریں گے۔ لیکن یہ دونوں رائے صحیح نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو شام کی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال پر کسی قسم کا کنٹرول حاصل نہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ امریکہ نے جارج بش اور براک اوباما کے دورہ ہای صدارت میں خطے خاص طور پر شام سے متعلق شدت پسندانہ پالیسیاں اختیار کیں اور اب ڈونلڈ ٹرمپ معتدل پالیسی اختیار کرکے امریکہ کی بیمار سیاست کا علاج کرنے کی کوشش کریں گے، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ چاہے شدت پسندانہ پالیسی اختیار کرے یا معتدل پالیسی وضع کرے، وہ ہرگز شام اور دیگر مشابہہ ممالک کی سیاسی صورتحال پر اثرانداز نہیں ہو پائے گا۔ گذشتہ 16 برس کے دوران امریکہ نے خطے سے متعلق دونوں قسم کی پالیسیاں اپنا کر دیکھ لیا ہے اور اب ڈونلڈ ٹرمپ یہ اعتراف کرتے نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ کے اختیار میں کچھ بھی نہیں اور وہ اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں بے بس ہو چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 592056
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش