12
1
Sunday 18 Dec 2016 16:39

حلب ہی کیوں، پورے شام کا نوحہ لکھو!

حلب ہی کیوں، پورے شام کا نوحہ لکھو!
تحریر: عرفان علی

شام کے شمالی صوبے حلب کے تازہ ترین حالات کے بارے میں جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کے جواب میں صرف اور صرف سو فیصد سچ پر مبنی حقائق ہی پیش کر دیئے جائیں تو کافی ہوگا۔ کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے مفرور سرغنہ نے کہا کہ حلب کا نوحہ نہیں لکھوں گا۔ لیکن ہماری درخواست یہی ہوگی کہ حلب ہی نہیں پورے شام کا نوحہ لکھو اور ضرور لکھو۔ پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کے لئے شام اور پاکستان کے حالات کو عمل اور ردعمل ظاہر کرنے سے کیا حاصل! پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی نہ تو افغانستان و عراق میں امریکی جنگ کے بعد شروع ہوئی اور نہ ہی شام میں جاری موجودہ دہشت گردی سے اس کا کوئی تعلق جوڑا جاسکتا ہے، اس لئے کہ مفرور سرغنہ خود اپنے ہی ناجائز تکفیری گروہ کی پیدائش اور جائے ولادت پر توجہ دے۔ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کب اور کہاں تشکیل پائے تھے؟ تب عراق میں صدام اور شام میں وہ حافظ الاسد حکمران تھے کہ جن کی مدد آل سعود کی وہ وہابی بادشاہت کیا کرتی تھی، جو مذکورہ پاکستانی گروہوں کی آنکھوں کا نور تھے بھی اور ہیں بھی۔ یہ ہوئی نوحے کی ابتدا! حافظ الاسد اور تکفیریوں کے پیرو مرشد آل سعود کے تعلقات اس لئے اچھے تھے کہ آل سعود کو فلسطین کے مسئلے پر شام کے اس علوی حکمران سے کچھ ’’رعایتیں‘‘ درکار تھیں۔ اور جب لبنان میں 1970ء کے عشرے میں خانہ جنگی ہوئی تھی، تب بھی سعودی عرب سمیت پوری عرب لیگ نے لبنان میں شام کی موجودگی حمایت کی تھی۔ ان تعلقات کی تفصیلات اور سعودی عرب نے ناجائز صہیونی ریاست کے مفادات اور امریکی صہیونی ایجنڈا کی تکمیل کے لئے جو معاونت کی اس کی تفصیلات جاننے کے لئے شہزادہ بندر بن سلطان کے دوست ولیم سمپسن کی کتاب ’’دی پرنس‘‘ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔

حلب سمیت پورے شام کے حالات پر نوحے کے لئے آپ کو ہیلری کلنٹن کی خود نوشت "ہارڈ چوائسز‘‘ کا مطالعہ اس لیے بھی کرنا ہوگا کہ وہ 21 جنوری 2009ء سے یکم فروری 2013ء تک امریکا کی وزیر خارجہ کی حیثیت سے شام پر مسلط کردہ امریکی صہیونی و سعودی جنگ کے معاملات کی خود نگران تھیں۔ ان کی مذکورہ کتاب کے 19ویں باب Syria, A Wicked Problem میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک بشمول سعودی عرب، قطر اور ترکی کی جانب سے شام کی منتخب جمہوری حکومت کو دہشت گردوں کے ذریعے گرانے کی سازشوں کا ذکر بھی ہے۔ امریکی سفیر رابرٹ فورڈ کی خدمات بھی بیان کی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کو ہیلری کلنٹن کس طرح ڈکٹیشن دیا کرتی تھیں، اس کا بھی تذکرہ ہے۔ یہ کتاب 2014ء ہی میں شایع ہوگئی تھی اور جنگ کی صورتحال ایسی تھی کہ دشمن ہیلری کلنٹن بھی حزب اللہ لبنان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئی۔ لکھا کہ First, even a relatively small group might be able to give a big psychological boost to the opposition and convince Assad's backers to consider a political solution.
Hezbollah gave credence to this view on the other side, when they helped shift the war in Assad's favor by deploying only a few thousand hardcore fighters.
Second, and more immediately, our action-or inaction-had consequences for our relationships with our regional partners. It wasn't a secret that various Arab states and individuals were sending arms into Syria. But the flow of weapons was poorly coordinated, with different countries sponsoring different and sometimes competing armed groups.

یہ جو ’’کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ فارمولا کے تحت نام نہاد مجاہدین کی فوج جمع تھی، ابھی پہلے اس کا حساب کتاب ہونا باقی ہے کہ انہوں نے آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کے کتنے آدمی مارے؟ اس کا شمار بھی کرلیں کہ مختلف ممالک نے جو مختلف گروہوں پر سرمایہ کاری کر رکھی تھی، انہوں نے امریکی و صہیونی اسلحہ جو انہیں براہ راست ملا یا سعودی عرب و قطر یا دیگر ممالک کے توسط سے ملا، اس کے ذریعے کیا گل کھلائے۔؟ یا پھر خلیفہ رجب طیب اردگان جس کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ ناجائز و جعلی ریاست اسرائیل کے اس وقت کے حکمران شمعون پیریز نے ترک پارلیمنٹ سے خطاب کیا
تھا اور جس کی حکومت نے پاکستان اور فلسطین کے غاصب اسرائیل کے مابین تعلقات قائم کروانے کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا (۱) نے شام کی جنگ میں جو کردار ادا کیا، اس کا بھی حساب کتاب نوحے میں بیان ہونا چاہیے۔ حلب میں کیا ہوا، اس کی ایک مثال یہ خبر بھی ہے۔ Clashes intensify between U.S.-backed groups in northern Syria امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ میں 28 اگست 2016ء کو یہ رپورٹ آئی کہ امریکی حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان مسلح تصادم میں شدت آگئی۔ یہ جرابلس کے علاقے کی صورتحال تھی جو صوبہ حلب کا ہی حصہ ہے۔

شام اور ترکی کے کردوں کی اکثریت بھی سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے، لیکن ان پر خلیفہ رجب طیب اردگان کے حکم پر بمباری کی گئی، اس کا تذکرہ بھی نوحے میں ہوجائے تو عدل کے تقاضے پورے ہوجائیں گے۔ اس سے تسلی نہ ہو تو نوحے کا اگلا بند واشنگٹن پوسٹ کی اس خبر سے بھی نکالا جاسکتا ہے۔ U.S. Special Operations forces begin new role alongside Turkish troops in Syria 16 ستمبر 2016ء کی یہ خبر بتاتی ہے کہ ترکی کی حکومت کی درخواست پر شام کے صوبہ حلب کے شہر جرابلس اور الرای میں امریکا کی اسپیشل فورسز ترکی کی افواج کے شانہ بشانہ اپنے تربیت یافتہ گروہوں کی مدد کے لئے پہنچی تھی۔ اس خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ: Pentagon appears to have set up a line of communication between the two groups to ensure they remain focused on fighting the Islamic State and not each other.
U.S. personnel operating with Turkish forces and Syrian opposition forces will provide the same train, advise and assist support they have been providing to other local partners in Syria fighting [the Islamic State]," Davis said.امریکا کے محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جیف ڈیوس نے جو کہا ہے وہ من و عن بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ خبریں حلب سے متعلق ہیں، اس لئے حلب کے نوحے میں اس کا بھی تذکرہ ہو جائے تو مناسب رہے گا۔

آخر میں شام پر مسلط کردہ اس جنگ کے ایک اور اہم کردار لیون پنیٹا کے موقف کو بھی پیش کر دیا جائے۔ لیون پنیٹا 2009ء سے 2011ء تک امریکی سی آئی اے کے سربراہ اور 2011ء سے 2013ء تک امریکا کے وزیر دفاع یعنی پینٹاگون کے سربراہ تھے۔ سال 2014 ء ہی میں ان کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب Worthy Fights شایع ہوئی۔ اس کے 17ویں باب "I Cannot Imagine the Pain" میں انہوں نے لکھا کہ امریکا نے مئی 2011ء میں بشار الاسد کی شامی حکومت پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اگست 2011ء میں امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں نے بشار الاسد سے مطالبہ کیا کہ وہ اقتدار چھوڑ دے، جبکہ عرب لیگ نے نومبر 2011ء میں عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کر دی۔ انہوں نے امریکا کی مجبوریوں اور بے بسی کا ذکر بھی کیا کہ شام لیبیا نہیں تھا۔ اسے لیبیا کی طرح جھکانے کے لئے 75000 تا 90 ہزار فوجی درکار تھے۔ امریکی قومی سلامتی کاؤنسل میں بہت سے آپشنز زیر بحث آئے۔ جس کے بعد امریکی حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ اردن اور جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ مل کر علاقائی سطح کے (اتحاد کے ذریعے جواب دینے کیلئے) کوآرڈی نیٹ کیا جائے۔ شامی باغیوں کو سپورٹ اور رہنمائی دی جائے۔ شامی حکومت کے فضائی دفاعی نظام کا جائزہ لیا جائے، تاکہ وقت پڑنے پر اس کو کنٹرول کیا جاسکے۔

لیون پنیٹا نے بہت ہی اہم نکتہ پیش کرکے پوری دنیا کو پیغام دے دیا ہے کہ Syria is a dangerous place, and invading it would have reaped great suffering and the loss of many American lives. It was not another Libya. حلب سمیت پورے شام کے مصائب کا نوحہ لکھنے کے لئے میرے پاس تاریخی حقائق پر مشتمل بہت زیادہ مواد موجود ہے۔ میری خدمات حاضر ہیں۔ لیکن نیابتی جنگ لڑنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اس جنگ کے مہرے ہیں اور علامہ اقبال کے مطابق فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ۔ یہاں شاطر صہیونیت زدہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ سعودی عرب، قطر، ترکی، اردن سمیت سارے مسلمان ممالک افغانستان کی جنگ میں بھی امریکا کے اتحادی تھے۔ ترکی افواج نیٹو فورسز میں شامل تھیں۔ ان حکمرانوں کے آسرے پر لڑنے والے بے چارے صہیونی جنگ کا ایندھن بننے کے باوجود بڑی بڑی باتیں کرنے سے باز نہیں آتے۔
خبر کا کوڈ : 592714
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

فرحان رضا
بالکل زبردست 👍👍👌👌
بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
بہت اچھے عرفان بھائی۔ خدا قوت
Nasir
Iran, Islamic Republic of
ماشاء اللہ خدا آپ کی قلم میں مزید طاقت دے اور ہمیشہ دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔
Roozi
ٹھوس شواہد و حقائق پر مشتمل تجزیہ ہے۔
امت مسلمہ امریکہ و صیہونیت کی سازشوں سے خبردار رہے جو تکفیری دہشت گردوں کو اسلامی سرزمینوں کی تباہی و بربادی کے لیے استعمال کر رہے ہیں
محمد حسن جمالی
Iran, Islamic Republic of
احسنت برادر گرامی حق اور صداقت پر مبنی تحریر خدا مزید توفیق دے۔
بہت خوب عرفان بھائی۔
نادر
Pakistan
very good article, Masha Allah.
Dr Sarwar
Pakistan
Very true
میثم ہمدانی
Romania
ما شاء اللہ عرفان بھائی بہت خوب
Iran, Islamic Republic of
بات کو صرف حلب تک محدود رکھ کر دندان شکن جواب دیا جانا چاہیے۔ خراسانی کون ہے ذرا اس کی اصلیت سے بھی پردہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حلب میں اھل سنت کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ہے، وہ ضرور اس تحریر میں شامل کیا جانا چاہیے، تاکہ اھل سنت کو بھی اصل حقائق کا پتہ چلے۔
Pakistan
بات حلب تک ہی محدود ہے۔ ضرورت تو بہت ساری چیزوں کی ہے اور بہت سارے لوگ ہیں جن سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ دیگر زاویوں سے بھی صورتحال بیان کریں۔ ان شاء اللہ دیگر لوگ بھی اظہار خیال فرمائِیں گے۔
ِعرفان علی
Pakistan
سارے برادران، بزرگان، و دوستان جنہوں نے رائے دی، ان کا ممنون و مشکور ہوں۔ آپ کہیں گے تو اس موضوع پر مزید لکھا جاسکتا ہے۔ التماس دعا۔
ہماری پیشکش