1
0
Friday 23 Dec 2016 14:53

اسرائیل غمزدہ ہے

اسرائیل غمزدہ ہے
تحریر: صابر کربلائی

اسرائیل کیوں نوحہ کناں ہے؟ کیوں غمزدہ ہے؟ اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے، سادہ سا جواب ہے کہ شام میں حلب کا علاقہ کہ جسے اسرائیل داعش اور النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کی آماجگاہ کے طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دیکھنا چاہتا تھا اور اسرائیل کی خواہش تھی کہ اس کے نتیجہ میں شام کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے یا پھر کم از کم بشار الاسد اتنا کمزور ہو جائے کہ مستقبل میں مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو عملی طور پر مدد نہ کرے، جیسا کہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے شام ہی وہ واحد ملک ہے، جس نے کسی بھی سطح پر اسرائیل کے ساتھ کوئی ربط قائم نہیں کیا بلکہ مظلوم فلسطینیوں کی، یہاں تک کہ دمشق میں فلسطینی تنظیموں کو دفاتر اور دیگر مالی، سیاسی و اخلاقی حمایت جاری رکھی، اسی بات کی سزا دینے کے لئے 2011ء میں اسرائیل اور امریکہ سمیت مغربی اور عربی سامراج کے پیدا کردہ دہشت گرد گروہوں کے ذریعے شام کو نشانہ بنایا گیا۔ اب اسرائیل غمزدہ ہے، کیوں غمزدہ ہے؟ کیونکہ حلب شہر جہاں پر اسرائیل کا مالی سرمایہ اور بڑی مقدار میں اسلحہ بھی نیست و نابود ہوا ہے، ساتھ ساتھ اسرائیل کے وہ منصوبے بھی ناکام ہوگئے ہیں جو اس نے شام کے لئے بنا رکھے تھے، کیونکہ حلب میں موجود داعش اور النصرہ فرنٹ کی شامی افواج کے ہاتھوں ہونے والی شکست نہ صرف ان دہشت گردوں کی شکست ہے، بلکہ ان کے تمام مغربی و عربی آقاؤں بشمول امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، فرانس اور خطے کی عرب بادشاہتوں کی بھی شکست ہے، جو ان دہشت گردوں کو مالی اور مسلح مدد فراہم کرنے میں اسرائیل کے ہم پلہ تھیں۔

شام کے شہر حلب کی دہشت گردوں کے چنگل سے ہونے والی آزادی پر اسرائیل اور اس کے تمام ہمنواؤں کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ حلب کی آزادی پر گریہ کریں، نوحہ پڑھیں اور غمزدہ ہوں، کیونکہ اب شام کے بعد عراق کے شہر موصل میں بھی ان صیہونی اور عربی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور عنقریب موصل بھی ان داعشی دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد ہوگا۔ اسرائیلی غمزدگی اور افسردگی کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں کے نتیجہ میں اسرائیل کے بارے میں دنیا کہا کرتی تھی کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے، لیکن اسرائیل کے اس گھمنڈ کو لبنان کی سرزمین کو آزاد کروانے والے چند ہزار جوانوں نے پہلے 2000ء میں خاک میں ملا دیا اور دوسری مرتبہ پھر اسرائیل اپنے جن عزائم کے ساتھ لبنان میں 2006ء میں داخل ہوا تھا کہ لبنان پر قبضہ کے بعد شام اور پھر عراق پر قبضہ، تو اس مرتبہ بھی لبنان کے انہی چند ہزار جوانوں نے اسرائیل کو تاریخ کی بدترین رسوائی اور شکست سے دوچار کیا تھا۔اس شکست کے بعد اسرائیل نے براہ راست جنگ کرنے کی پالیسی کو ترک کر دیا اور عراق میں امریکہ کی مدد سے امریکی افواج کے زیر انتظام چلنے والی بدنام زمانہ جیلوں گوانتا ناموبے اور ابو غریب کی جیلوں میں قید کچھ دہشت گردوں کو تربیت فراہم کرنا شروع کی اور پھر 2011ء میں انہی دہشت گردوں کو شام اور پھر بعد میں عراق میں پہنچا دیا گیا، تاکہ اسرائیل کے 2006ء میں چکنا چور ہونے والے خواب کو عملی جامہ پہنایا جائے، لیکن اس مرتبہ بھی اسرائیل کو 2000ء اور 2006ء میں لبنان میں ملنے والی بدترین رسوائی سے کئی گنا زیادہ بڑی رسوائی اور ذلت کا سامنا ہوا ہے، کیونکہ اسرائیل اپنے تمام تر ناپاک منصوبوں میں شکست کھا چکا ہے۔

یہ بات یاد رہے کہ شام میں داعش کے پہنچائے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک آفیشل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام کو غیر مستحکم کرنے والی دہشت گرد قوتوں کے ساتھ اسی سے زائد ممالک سے آئے ہوئے لوگ دہشت گردوں کی ہمنوائی میں شامی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے کوششوں میں مصروف عمل ہیں، جبکہ ماضی میں ذرائع ابلاغ پر ایسی رپورٹس اور تصاویر سمیت ویڈیوز بھی منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وزیراعظم نیتن یاہو باقاعدہ گولان کی پہاڑیوں پر قائم اسرائیلی اسپتالوں میں شام میں زخمی ہونے والے داعشی دہشت گردوں کے علاج معالجہ کے دوران ان کی عیادت کر رہا ہے۔ اسرائیل کو داعش اور النصرہ فرنٹ جیسی دہشت گرد تنظیموں سے بہت امیدیں وابستہ تھیں، لیکن حلب کی آزادی کے بعد اب امریکہ نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ امریکہ سمیت اسرائیل اور تمام مغربی سامراجی قوتوں کو شام میں بدترین شکست ہوئی ہے، جبکہ ان مغربی و عربی سامراجی قوتوں کے مقابلے میں روس، چین، ایران اور شام نے جو استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ دیدنی ہے۔

بہرحال حلب میں اسرائیل کو شکست ہوئی ہے اور اب اس شکست کا بدلہ شاید وہ مسلمان دنیا میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر نکایں گے۔ ایک سادہ سی بات یہ ہے کہ مسلم دنیا کو باور کرنا ہوگا کہ اگر کسی دہشت گرد گروہ کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل ہیں تو کیا ہمیں اس دہشت گرد گروہ کی حمایت میں آواز اٹھانی چاہئیے؟ یا یہ کہ حلب کی دہشت گردوں کے چنگل سے آزادی پر جس طرح امریکہ اور اسرائیل اور مغربی سامراج منفی پراپیگنڈا کرکے فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں تو کیا یہ عرب بادشاہتوں اور اسی طرح پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک میں ان عرب بادشاہوں کے دوستوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ حلب کی آزادی پر نوحہ کناں ہوں؟ سوال یہ اٹھتا ہے کہ صرف حلب پر ہی نوحہ کیوں؟ پورے شام کا نوحہ کیوں نہیں؟ جی ہاں سوچنا ہوگا کہ کیا امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ سمیت مغربی اور عربی سامراج کے مقاصد ایک جیسے تو نہیں ہیں؟ یا یہ کہ ہم بھی نا دانستگی میں امریکہ او اسرائیل کے اسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔؟

حلب کی آزادی کے بعد سب سے زیادہ مذہبی جذبات کو پاکستان کی سرزمین میں ابھارا جا رہا ہے اور اس حوالے سے ہماری اسلامی تنظیمیں ماشاء اللہ بہت زیادہ ہی سرگرم نظر آرہی ہیں، جو کہ گذشتہ پانچ برس تک اس وقت تک سکوت میں تھیں کہ جب تک حلب میں داعش اور النصرہ جیسی دہشت گرد سفاک تنظیمیں معصوم شہریوں کا قتل عام کر رہی تھی، اب جبکہ حلب آزاد ہوا ہے تو نہ جانے کیوں ان سب نے مل کر امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لے لیا ہے۔ کاش یہ جلسے اور جلوس مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں ہوتے، جو گذشتہ 68 برس سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں، کاش یہ احتجاج اور صدائیں یمن کے مظلوم لوگوں کے لئے اٹھائی جائیں، جو گذشتہ دو برس سے عرب سامراج کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، جہاں ایک نماز جنازہ کے اجتماع پر عرب سامراجی حکومتوں کی بمباری سے سات سو بے گناہ افراد شہید ہو جاتے ہیں۔ کاش یہ احتجاج اس شدت کے ساتھ میرے مظلوم کشمیریوں کے لئے ہوں، جو ہندوستانی افواج کے مظالم کے باعث نابینا ہو رہے ہیں، کاش یہ صدائیں عراق کے مظلومین کے لئے ہوتیں، جن کو داعشی دہشت گردوں نے سفاکانہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا۔

کاش خود پاکستان کے شہداء کے قاتلوں سے انتقام کے لئے یہ احتجاج اور صدائیں بلند ہوتیں تو آج پاکستان میں ایک بھی دہشت گرد کا وجود نہ ہوتا، لیکن حلب کی آزادی کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ داعش اور القاعدہ سمیت تمام شدت پسند نظریات، جس کا موجب و بانی امریکہ اور اسرائیل ہیں، پاکستان میں بھی بھرپور انداز سے موجود ہیں، چہ جائیکہ حالیہ بیان میں وزیراعظم صاحب نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں داعش اور القاعدہ نہیں، لیکن عملی طور پر کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، بیلجئیم سمیت پورا یورپ جو کل تک داعش کا حامی تھا، اسرائیل کے تحفظ کی خاطر داعش کی مدد کرنے میں بھی مصروف عمل تھا اور ان کا ساتھ دینے والوں میں خطے کی عرب بادشاہتیں بھی قدم بہ قدم ساتھ تھیں، آج اپنی بدترین شکست کو چھپانے کے لئے اس کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ مسلم دنیا میں فرقہ واریت کی آگ کو پھیلا دیا جائے، تاکہ حلب کی رسوائی اور شکست کا بدلہ مسلم دنیا کو کشت و خون میں غلطاں کرکے لیا جائے۔ بہر حال حکومت کی ذمہ داری ہے کہ داعش کی سوچ کو پنپنے سے پہلے ہی مار دے، وگرنہ ایسا نہ ہو کہ ماضی میں دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی ضرب عضب کی کوششیں بھی ماند پڑ جائیں۔
خبر کا کوڈ : 593803
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
اچھا کالم هے. اخبار میں بهی دیجیے
ہماری پیشکش