0
Saturday 24 Dec 2016 11:13

انتظامیہ کی عدم توجہی، بھٹوں سے چائلڈ لیبر ختم کرنیکا منصوبہ دم توڑنے لگا

انتظامیہ کی عدم توجہی، بھٹوں سے چائلڈ لیبر ختم کرنیکا منصوبہ دم توڑنے لگا
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

مختلف حکومتی ادارے، غیر سرکاری سماجی تنظیمیں اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز وفاقی و صوبائی سطح پر بچوں کے ساتھ روا استحصال کے خاتمے اور معیاری زندگی کے حقوق سے انکار کے رویوں کے خلاف بھرپور اور جامع لائحہ عمل اپنانے کے دعویدار ہیں۔ چائلڈ لیبر ایک سماجی و معاشی مسئلہ ہے جس کے پس پردہ کئی عوام کار فرما ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، ناانصافی اور بچوں کے حقوق اور قوانین بارے شعور کا نہ ہونا بھی چائلڈ لیبر کی بنیادی وجوہات ہیں۔ چائلڈلیبر دنیا بھر کے تمام مروجہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق مجرمانہ فعل ہے۔ چائلڈ لیبر کا مطلب 14 سال سے کم عمر بچوں کی جسمانی مشقت ہے۔ ایک مستند سروے کے مطابق دنیا بھر میں 168 ملین بچے چائلڈ لیبر، جبکہ 85 ملین خطرناک پیشوں سے وابستہ ہیں۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی درست تعداد معلوم کرنے کے لئے آخری سروے 1996 میں ہوا تھا جسکے مطابق 2.9 ملین بچے دیہی، جبکہ 0.3 ملین شہری علاقوں میں مشقت کر رہے ہیں اور آج 19 سال بعد یہ تعداد خطرناک حد تک تجاوز کر چکی ہے۔ ایک اندازے کیمطابق 5 سے 14 سال کے 40 ملین بچے پاکستان میں کسی نہ کسی شکل میں چائلڈ لیبر سے منسلک ہیں۔

پنجاب میں یہ تعداد 35 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں ہونے والی چائلڈ لیبر کے دیہی رسدی ذرائع زراعت، لائیوسٹاک، فشریز اور دیگر ایگری کلچر شعبوں سے منسلک ہے، جبکہ شہروں میں زیادہ تر چائلڈ لیبر کی چین ورکشاپوں، خرادیہ کی دکانوں، ہوٹلوں، بھٹہ خشت اور کوڑا کرکٹ وغیرہ اکٹھا کرنے جیسے کاموں پر مشتمل ہے۔ شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں چائلڈ لیبر زیادہ ہے، کیونکہ دیہات میں بچے کسی ایسی فلاحی سکیم کا حصہ بننے سے قاصر رہتے ہیں جو انکی تعلیم و صحت کی بنیادی سہولیات پر مبنی ہے اور دیہات میں نہ ہی چائلڈ لیبر کے خاتمے کا کوئی موثر میکانزم موجود ہے۔ پاکستان کے ہر چوتھے گھر میں بچے ڈومیسٹک لیبر کر رہے ہیں۔ بچوں کی مشقت کے خاتمے میں پاکستان عالمی برادری کا ہم قدم ہے۔ حکومت پنجاب کے بھرپور اقدامات کے دعویٰ کے مطابق پنجاب میں بھٹہ خشت سے چائلڈ لیبر کا تقریبا خاتمہ یقینی بنایا گیا ہے، ہزاروں بچوں کو مشقت سے نجات دلا کر سکولوں میں داخل کروایا گیا، انہیں تعلیمی وظائف، مفت کتابیں، یونیفارم، جوتے، سٹیشنری اور دیگر تعلیمی سہولیات دی جارہی ہیں، اگلے مرحلے میں ہوٹلوں، ورکشاپس اور پٹرول پمپوں سے بچوں کو مشقت کا خاتمہ حکومت پنجاب کا ہدف بتایا گیا تھا۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے بیور آف سٹیٹسٹکس (BOS) نے ابتدائی طور پر 10 اضلاع میں چائلڈ لیبر بارے مستند اعداد و شمار حاصل کیے تھے، جبکہ باقی اضلاع میں پنجاب اربن یونٹ اور دیگر ادارے بھی یہ سروے شروع کر رہے تھے۔ 5 ارب روپے کے خطیر فنڈز سے ایک مربوط منصوبے کے تحت دو لاکھ 57 ہزار بچوں کو 7 ہزار 344 نان فارمل سکولوں میں داخل کروائے جانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح 14 سے 18 سال کے ایک لاکھ 18 ہزار نو عمر بچوں کو لٹریسی اینڈ سکلز سنٹرز میں ہنر سکھانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اسکے علاوہ محنت کش بچوں کے ایک لاکھ والدین کو ادارہ اخوت اور مائیکرو فنانس سنٹرز کے ذریعے بلاسود قرضے بھی فراہم کئے جانے کا عندیہ دیا گیا تھا، تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں۔ 180 ملین روپے سے صوبے کے 4 منتخب اضلاع میں چائلڈ لیبر کی بدترین اشکال کے خاتمے کا منصوبہ بھی جاری کیا گیا تھا۔ اسی طرح بھٹہ مزدوروں کے بچوں کے لئے 320 نان فارمل ایجوکیشن سنٹرز بھی قائم کئے گئے تھے۔ حکومت پنجاب کو چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی وجہ سے جنیوا میں ہونیوالی گلوبل لیبر کانفرنس میں شریک مختلف ملکوں کے وفود نے بھی بے حد سراہا تھا۔ امید کی جا رہی تھی کہ حکومت پنجاب دیگر سپلائی چین سے چائلڈ لیبر کے خاتمے میں بھی کامیاب ہو جائے گی۔

اسی طرح سال کے شروع میں گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے 14 جنوری 2016 ء کو اینٹوں کے بھٹوں پر سے مکمل چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لئے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا، جس میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا تھا کہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والا ہر بڑا مزدور تحریری طور پر بھٹہ خشت کے مالک کے ساتھ معاہدہ کریگا، جس میں وہ بھٹہ خشت کے مالک سے قرضہ لیتا تو وہ درج کریگا۔ اپنی اجرت کے بارے میں بتائے گا، جبکہ لئے گئے قرضہ کی واپسی کا شیڈول بنائے گا۔ ہر بھٹہ مالک آرڈیننس کے جاری ہونے کے 60 دن کے اندر اندر بھٹہ پر کام کرنیوالے مزدوروں سے یہ تحریری معاہدہ کریگا، اگر بھٹہ مالک یہ تحریری معاہدہ نہیں کرتا اور انتظامیہ کو پیش نہیں کرتا تو اس کے خلاف باؤنڈڈ لیبر کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ بھٹہ مالک مزدور کو چھ تنخواہوں (اجرتوں) سے زائد پیشگی ادائیگی یا قرضہ نہ دیگا اور اس کو رجسٹرڈ میں درج کرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقہ کے انسپکٹر سے منظوری بھی کروائے گا۔ آرڈیننس کی رُو سے کوئی بھی بھٹہ مالک بھٹہ پر کمسن بچے کو کام پر نہیں رکھے گا اور اگر وہ آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو اس کی ساری ذمہ داری بھٹہ مالک پر عائد ہو گی۔ انسپکٹر خلاف ورزی پر بھٹہ کو سیل کریگا اور مجسٹریٹ بھٹہ مالک کو 6ماہ کی قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے۔

اس آرڈیننس کا ایک خوب صورت پہلو یہ ہے کہ بھٹہ پر کام کرنے والے مزدوروں کے بچوں کی تعلیم کے لئے بھٹہ مالک ہی ذمہ دار ہو گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مزدور کا بچہ سکول میں جائے نہ کہ بھٹہ پر مٹی کی اینٹیں بنائے۔ اس آرڈیننس کے جار ی ہونے کے بعد پنجاب حکومت نے اپنی پوری مشینری کو متحرک کیا اور اس آرڈیننس پر عمل در آمد کیا، جس کی صورت میں پنجاب بھر میں قائم اینٹوں کے 2517 بھٹوں کو چیک کیا گیا، جن میں سے 500 سے زائد بھٹوں پر چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی پائی گئی۔ 498 بھٹہ مالکان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے 472 مالکان کو گرفتار کیا گیا اور 201 بھٹوں کو سیل کیا گیا۔ حکومت پنجاب کے اس اقدام کے باعث 22،368 بچوں کو بھٹوں پر سے کام چھڑوا کر سکولوں میں داخل کروا دیا گیا۔ صوبائی دارالحکومت میں ڈی سی او لاہور کیپٹن(ر) محمد عثمان اور سی سی پی او لاہور امین وینس نے خود لاہور کے بھٹوں پر چھاپے مارے اور تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد بچوں کو سکولوں میں داخل کروایا۔ 31 بھٹوں کو سیل کر کے 17 مقدمات درج کئے گئے۔ اسوقت کے ان قدامات سے اینٹوں کے بھٹوں سے چائلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ ممکن ہوتا ہوا نظر آرہا تھا، لیکن دیگر مینو فیکچر کمپنیوں سے بھی چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لئے عملی اقدامات کو مزید بہتر بنانیکی ضرورت باقی تھی۔ اینٹوں کے بھٹوں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے اقدامات یہ ظاہر کرتے تھے کہ حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لئے پوری طرح سنجیدہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ پنجاب حکومت کی طرف سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے شروع کیا گیا منصوبہ حکام کی عدم توجہی کے سبب سست روی کا شکار ہو کر ختم ہونیوالا ہے۔

سرگودہا کی ضلعی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق بھٹہ خشت سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کا منصوبہ روایتی سست روی اور ارباب اختیار کی عدم توجہی کا شکار ہے، دس ماہ کے دوران چھ ہزار بچوں میں سے ابھی تک 1500 کی تصدیق ہو سکی ہے، جبکہ بھٹہ خشت سکول غیر فعال ہونے لگے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومت نے خطیر فنڈز فراہم کئے تھے جو 6000 بچوں کیلئے کتب، جوتے، یونیفارم اور بھٹہ خشت مدارس کو فعال کرنے پر خرچ ہوئے، جبکہ محکمہ تعلیم کے حکام کو ہدایت کی گئی کہ وہ بچوں میں یہ سامان تقسیم کر کے سکولوں کو فعال کرنے کے بعد تمام ڈیٹا مانیٹرنگ ادارے کو فراہم کریں تاکہ عملدرآمد کا جائزہ لیا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق لیبر ڈیپارٹمنٹ کی مشترکہ ٹیموں کی طرف سے بھجوایا گیا ڈیٹا محکمہ تعلیم کے حکام پہلے ہی متنازعہ قرار دے چکے ہیں اور مبینہ طور پر فرضی اعداد و شمار کے باعث یہ معاملہ ضلعی محکموں میں بھی زیر بحث آ چکا ہے، جس کا کوئی نوٹس نہ لئے جانے کے باعث جہاں عملدرآمد سست روی کا شکار ہو چکا ہے، وہاں قائم ہونیوالے سکول بھی غیر فعال ہونے لگے ہیں، جبکہ بچوں کیلئے خریدا گیا سامان سٹوروں میں پڑا انتظامیہ کی ناقص منصوبہ بندی کی قلعی کھول رہا ہے۔ دوسری طرف ضلعی و صوبائی حکام کے مابین معمول کی مراسلت کے علاوہ تاخیر اور ناقص منصوبہ بندی کی ذمہ داری کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں اور کروڑوں روپے کے فنڈز فراہم کرنے کے باوجود یہ منصوبہ دم توڑتا نظر آ رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 594085
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش