0
Tuesday 27 Dec 2016 14:21

سندھ طاس معاہدہ اور ہمارا کمزور موقف

سندھ طاس معاہدہ اور ہمارا کمزور موقف
تحریر و ترتیب: عمران خان

ورلڈ بینک کے صدر جم یونگ کم نے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو فون کرکے سندھ طاس معاہدہ سے متعلق پاکستانی تحفظات و خدشات پر گفتگو کی ہے۔ یہ گفتگو اس خط کے بعد کی گئی ہے جو کہ اسحاق ڈار کی جانب سے عالمی بینک کے صدر کو لکھا گیا تھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ عالمی بینک کی جانب سے ثالثی چیئرمین مقرر نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کے مفادات کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق اس گفتگو میں وزیر خزانہ کی جانب سے صدر عالمی بینک کو درخواست کی گئی کہ پاک بھارت آبی تنازعہ کے حل میں مدد کریں۔ گرچہ بھارت کی جانب سے واٹر بم کے استعمال کی خبریں تو قدیمی ہیں، تاہم ان پانیوں پر کہ جن پہ پاکستان کا حق تسلیم شدہ ہے، نریندر مودی دور حکومت ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ انتہائی تیزی سے جاری ہے۔ دیگر ڈیموں کے ساتھ ساتھ بھارت نے دریائے سندھ کے پانی پر بھی دو انتہائی متنازعہ ڈیم ’’کشن گنگا اور اٹلے‘‘ کی تعمیر جاری ہے۔ ان ڈیموں پر پاکستان کے خدشات اور تحفظات کے سلسلے میں وزارت خزانہ کی جانب سے صدر عالمی بینک کو خط لکھا گیا تھا اور ان ڈیموں کی تعمیر روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم عالمی بینک نے ثالثی کے بجائے جوابی خط میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ دونوں ملکوں کے مابین ہے، لہذا دونوں فریق اسے آپس میں حل کریں۔ عالمی بینک کے اس خط کے جواب میں 23 دسمبر کو مذکورہ خط وزارت خزانہ نے کہا تھا کہ ثالثی میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کے مفادات اور سندھ طاس معاہدے کے تحت حقوق پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مذکورہ خط میں وضاحت کی گئی تھی کہ پاکستان ثالثی کی گذشتہ درخواست پر قائم ہے، جس میں بینک سے چیئرمین مقرر کرنے کا کہا گیا تھا اور مذکورہ مسئلے میں پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، اس لیے اسلام آباد چاہتا ہے کہ بینک جلد از جلد چیئرمین کو تعینات کر دے۔

پاکستان سمجھتا ہے کہ اس میں مزید تاخیر سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا جیسا کہ انڈیا دونوں منصوبوں پر دن اور رات کام کر رہا ہے اور جب وہ منصوبے مکمل ہوجائیں گے تو انھیں واپس کرنا مشکل ہوجائے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں ہوا تھا۔ جس کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریا بیاس، ستلج اور راوی جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاں سندھ، جہلم اور چناب کا کنٹرول دیا گیا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان پانی اور دریاوں کے استعمال اور مسائل کے حل کے لئے مستقل انڈس کمیشن بھی بنایا گیا، جس کے لیے دونوں ممالک کے کمشنرز بھی مقرر کیے گئے۔ 1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے۔ اس معاہدے کے فریق پاکستان اور ورلڈ بینک کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ کنیڈا، مغربی جرمنی، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی ہیں، جنھوں نے اس معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے فنڈز مہیا کئے تھے۔ اس معاہدے کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ میں تین مشرقی دریاوں کو مکمل طور پر بھارت کی تحویل میں دے کر پاکستان کو تقریباً 24 ملین ایکڑ پانی سے محروم کر دیا گیا، جس سے راوی اور ستلج کی خوشنما وادی محروم ہوتی چلی گئی۔ اس معاہدے کے دوسرے حصہ میں انڈس بیسن کے بقیہ تین مغربی دریاوں "سندھ، جہلم اور چناب" پر کشمیر کے کچھ یوٹیلیٹز کے علاوہ پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ پہلے حصہ کے مطابق بھارت تینوں مشرقی دریاوں کا تمام پانی استعمال کر رہا ہے۔ اب اس کی نظریں پاکستان کے حصہ میں آنے والے مغربی دریاوں پر ہیں، لیکن اس کے لئے سندھ طاس معاہدہ آڑے آتا ہے۔

اس بین الاقوامی معاہدے کو بھارت یا پاکستان یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کر سکتے۔ بارسلونا کنونشن کے مطابق اس معاہدے کو ختم کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ دونوں فریق کنونشن میں اس معاہدے کو تبدیل کرنے کی خواش ظاہر کریں۔ اس مقصد کیلئے بھارت نے ٹو ٹریک پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں اپنے طفیلیوں کے ذریعے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی بات کی تھی، تاکہ جب پاکستان کی طرف سے اس معاہدہ کو ختم کرنے کے بارے میں سوال اٹھایا جائے تو بھارت مجبوراً اس پر رضامندی کا اظہار کر دے اور پھر اپنا کھیل رچائے۔ یہ داو کامیاب نہ ہوا تو پاکستان میں اپنے حواریوں کو تحریک دیتے ہوئے انوائرمنٹ کا شوشہ کھڑا کرتے ہوئے اس منصوبہ کو تبدیل کرنے کا پلان بنایا۔ انوائرمنٹ کے لئے راوی اور ستلج کو پانی دینے کے حوالے سے بھارت نے تجویز اٹھائی تھی کہ اسے دریائے چناب پر دس ہزار کیوسک کی مارو ٹنل بنانے کی اجازت دی جائے، تاکہ چناب کے پانی کو راوی میں ڈالا جا سکے اور اس طرح پاکستان میں راوی اور ستلج کو پانی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس میں بھی ناکامی پر بھارت نے اس سلسلے میں اپنا آخری پتہ پاکستان میں مختلف جماعتوں کو ڈیموں کے خلاف تحریک دیکر کھیلا۔ دنیا کے کسی ملک میں ڈیموں کی تعمیر متنازعہ نہیں، مگر پاکستان میں نئے ڈیموں کی تعمیر کے معاملے پر وہ جماعتیں سرگرم ہیں، جو نہ صرف عوامی نمائندگی کی دعویدار ہیں بلکہ پاکستان سے محبت کا دم بھی بھرتی ہیں۔

معاہدہ سندھ طاس ورلڈ بینک کو پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے ہر قسم کے مسئلے میں ثالثی کا حق دیتا ہے۔ 12 دسمبر کو اپنے خط میں ورلڈ بینک کے صدر نے سندھ طاس معاہدے پر غیر جانبدار ماہر کی تقرری روکتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کو آبی تنازع جنوری تک حل کرنے کی مہلت دی تھی۔ ورلڈ بینک کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت نے آبی تنازع سندھ طاس معاہدے سے ہٹ کر حل کیا تو یہ معاہدہ غیر فعال ہوجائے گا۔ پاکستان نے بینک سے کہا تھا کہ ثالثی کی عدالت کے لیے ایک چیئرمین مقرر کیا جائے، تاہم انڈیا نے کسی غیر جانبدار ماہر کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا۔ بینک کے صدر کا کہنا تھا کہ میں ثالثی عدالت کا پینل تشکیل دینے کا سلسلہ روک رہا ہوں، جو دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں ایک اہم تنازع کو حل کرنے کا ذریعہ بنا تھا۔ تنازع میں شدت اس وقت آئی، جب ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان آنے والے پانی کو روکنے کی دھمکی دی تھی اور اگر مذکورہ دھمکی پر عمل درآمد ہوا تو یہ دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کا باعث ہوسکتا ہے۔ بینک کو بھیجی گئی ایک درخواست میں پاکستان نے زور دیا تھا کہ اگر فریق یہ کہے کہ تنازع دوسرے فریق یا غیر جانبدار فرد کی جانب سے حل نہیں کیا جا رہا اور بدستور جاری ہے تو ثالثی کی عدالت کسی بھی فریق کے کہنے پر قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بینک کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر متاثرہ فریق اس نتیجے پر پہنچے کہ دوسری حکومت مذاکرات میں تاخیر کر رہی ہے تو بھی ثالثی عدالت قائم کی جاسکتی ہے۔

پاکستان نے ورلڈ بینک کو بتایا کہ مذکورہ مسئلہ کو حل کرنے کیلئے بھارت سے دو طرفہ مذاکرات کا معاملہ پہلے ہی ختم ہوچکا ہے اور اس کیس کو ثالثی عدالت میں لے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انڈیا نے راٹلے منصوبے کے ڈیزائن کے حوالے سے پاکستان کو پہلی مرتبہ 2012ء میں آگاہ کیا تھا اور اس حوالے سے ہونے والے متعدد مذاکرات کے دوران پاکستان کی جانب سے اس کے ڈیزائن پر اعتراض اٹھائے گئے تھے۔ پاکستان کی جانب سے کشن گنگا منصوبے کے ڈیزائن پر اعتراض کے بعد دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے متعدد اجلاسوں میں اس پر بات چیت کی گئی، تاہم دونوں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ حالانکہ دونوں ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں کے ڈیزائن میں فرق ہے، تاہم دونوں منصوبوں پر معاہدے کی رو سے متعدد قانونی اور تکنیکی سوالات اٹھتے ہیں۔ کشن گنگا تنازع کیلئے قائم عدالت کی جانب سے اس منصوبے کیلئے جزوی اجازت دیئے جانے کے بعد پاکستان نے ان اعتراضات کو مارچ 2013ء میں ہونے والے ایک اجلاس میں ایک مرتبہ پھر اٹھایا تھا۔ پاکستان نے ورلڈ بینک کو یاد دہانی کرائی کہ معاہدے کے لیے ضروری ہے کہ ایک فریق کی درخواست پر دوسرے فریق سے بات چیت کیلئے دو ثالث مقرر کیے جائیں، اور اس درخواست کے 30 یوم کے اندر دوسرا فریق نامزد ثالثوں کے نام بتائے گا۔ پاکستان نے ان ذمہ داریوں کو پورا کیا اور انڈیا سے متعدد اجلاس بھی کئے گئے، تاہم دونوں فریقین کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے، جس کے بعد پاکستان نے ثالث مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کشن گنگا منصوبہ یا تو مکمل ہوچکا ہے یا تکمیل کے مراحل میں ہے، سچ تو یہ ہے، بھارت نے 12 اگست کو پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ وہ 20 اگست کو پلانٹ کے مردہ اسٹوریج کو بھرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ میں ورلڈ بینک رپورٹس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ الفاظ ہماری آنکھیں کھولنے کے کافی ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ کے تحت بنائے گئے تربیلا اور منگلا ڈیم سے فائدہ 1990ء تک ہوگا۔ اس دوران دریائے سندھ پر ایک ڈیم بنانا ہوگا، جو کالا باغ ڈیم ہوگا، اس کے بعد ہر دس سال میں ایک ڈیم تعمیر کرنا ہوگا، تاکہ پاکستان کی وادیوں کو زیر کاشت لایا جاسکے۔ یہی وجہ تھی کہ بھٹو مرحوم نے تربیلا ڈیم کے مکمل ہونے کے فوراً بعد کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کے احکامات جاری کئے تھے، مگر اس کے بعد عملی طور پر ہوا کیا۔؟ دیگر ڈیم تو ایک طرف ہم اسی کالا باغ ڈیم کو ہی مکمل نہیں کر پائے۔ آج بھارت دنیا کو یہ باور کرا رہا ہے کہ پاکستان قیمتی میٹھے پانی کو سمندر غرق کر رہا ہے۔ بھارتی موقف سے انکار ممکن بھی نہیں۔ پینے کا پانی پوری دنیا کیلئے زندگی کی علامت و امید ہے۔ دنیا سب سے زیادہ آج میٹھے پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ ہم ایک جانب بھارت سے تو لڑ رہے ہیں کہ وہ ان پانی پر ڈیم نہ بنائے جبکہ دوسری جانب ہم خود اس پانی کو سمندر میں ڈال رہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ میں ایک شق جو بھارت کو مدد دیتی ہے، وہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ مقدار سے زائد پانی یعنی جو پانی سمندر میں ضائع کیا جا رہا ہوگا۔ اس پانی پر جو ملک پہلے ڈیم بنائے گا، اس پر اسی ملک کا حق شمار ہوگا۔ بھارتی ڈیموں میں پانی کے ذخیرہ کی گنجائش سمندر میں گرنے والے پانی سے کم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ایمرجنسی بنیادوں پر ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کرے اور اس تعمیر کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کیخلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔ شائد اس طرح ہم وطن عزیز کو بنجر ہونے سے محفوظ بنا پائیں۔
خبر کا کوڈ : 595040
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش