2
0
Wednesday 4 Jan 2017 11:43

حلب کی آزادی، چور مچائے شور

حلب کی آزادی، چور مچائے شور
تحریر: طاہر عبداللہ

حلب کے آزاد ہونے پر ایسا کیا کچھ ہوگیا کہ عرب مغرب اتحادی ممالک اور پاکستان میں اُن کے غلامان، محبان و عاشقان اِتنے تلملا رہے ہیں۔ ایک طرف حلب کے باسی اپنی آزادی کا جشن منا رہے ہیں تو دوسری طرف شکست خوردہ ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ایک طبقہء فکر سوگ منا رہا ہے۔ واہ کیا جماعت اسلامی ہمدردی اور ہم فکری اُخوت کا پرچار ہے! اپنے ملک میں تیس سال سے جاری دہشت گردی اور اُس سے متاثر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کی مالی معاونت کے بینرز اور پوسٹرز تو دُور کی بات، اِن جماعتوں، جمعیتوں اور دفاعی کونسلوں نے کبھی بھی ملک دشمن دہشت گردوں کی کھل کر مذمت نہیں کی، بلکہ متاثرین کی زبانی دلجوئی تک نہیں کی۔ ہاں ایک کام ضرور کیا، وہ یہ کہ ہزاروں محب وطن فوجی جوانوں کی شہادت کو مشکوک ضرور بناتے رہے۔ لگتا ہے مستقبل قریب میں موصل، اَدلب اور رَقہ شہروں کی متوقع آزادی پر بھی ایسی تباہی و بربادی اور چندے صدقات کے پوسٹرز اور بینرز تیار ہوچکے ہوں گے۔ حلب میں قتل عام اور بربریت کا ویسا ہی پروپیگنڈہ، شوروغوغا اور واویلا کیا جا رہا ہے، جیسا کچھ ماہ پہلے مکہ معظمہ پر یمنی حوثیوں کی طرف سے میزائل حملے کا جھوٹا اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ استعماری سامراجی ممالک و عرب بادشاہتوں نے ملکِ شام اور حلب شہر کا آخر کیوں انتخاب کیا، اِس کے پسِ پردہ اُن کے کون سے گھناؤنے مقاصد اور مکروہ عزائم تھے۔؟

حلب شام کا خوبصورت اور 25 لاکھ آبادی پر مشتمل دمشق کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے۔ حلب کا مطلب "سفید" ہے، جس کی وجہء تسمیہ اُس کی مٹی کی سفید رنگت اور علاقے میں موجود سفید سنگ مرمر ہے۔ حلب شہر میں 86 فیصد مسلمان، 12 فیصد عیسائی اور چند سو یہودی آباد ہیں۔ اِس شہر کی خاص بات یہ کہ حلب شہر کے 74 فیصد باسی اہلِ سنت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ حلب شہر ترکی کی سرحد سے صرف 28 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ وادیءِ حلب آٹھ پہاڑوں کے گھیرے میں 420 مربع کلومیٹر علاقے پر پھیلا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ حلب شہر کے بالکل درمیان میں دریائے قویق گزرتا ہے، جو حلب شہر کی خوبصورتی کو اور دوبالا کر دیتا ہے۔ حلب میں زیتون اور پستہ کے بے شمار باغات ہیں اور زیتون کے تیل سے بنا حلب کا صابن یورپ میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ حلب کے صنعتی علاقے کا نام شیخ نجار ہے۔ جس میں دو ہزار سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ جس میں کپڑے، کمبل، دوا سازی، زرعی سامان، سونے کی ڈھلائی، قیمتی پتھروں اور سنگ مرمر کی کٹائی کے سینکڑوں کارخانے اور فیکٹریاں ہیں۔ صرف اگر سونے یعنی گولڈ کی بات کریں تو ایک سال میں تقریباً 9 ٹن سونے کا بزنس ہوتا ہے۔ صرف یہی شہر ملک کو 5 بلین ڈالر یعنی پانچ کھرب روپے سے زیادہ کا بزنس دیتا ہے اور پورے ملک کی پچاس فیصد مینو فیکچرنگ روزگار صرف یہی شہر فراہم کرتا ہے۔ دُنیا کا سب سے بڑا 13 کلومیٹر طویل، چھتا ہوا بازار بھی حلب میں واقع ہے۔ اِتنی بڑی اور طویل مارکیٹ کا ہونا واقعی بہت زیادہ تجارت اور کاروبار کی نشاندہی کرتا ہے۔

شام اور شامی لوگوں کی بدقسمتی کہ دُنیا کے چند مقتدر و طاقتور ممالک اور ایجنسیوں نے اپنے زُعم میں عراق و یمن کے ساتھ شام کے لوگوں کا بھی سیاہ و تاریک مقدر لکھ کر داعش، القاعدہ اور اِس جیسے درجنوں لشکروں اور جتھوں کے خونی ہاتھوں میں تھما کر شام میں اُتار دیا۔ دُنیا بھر سے تربیت یافتہ جنگجوؤں کی بھرتی اور روانگی کو تیز تر کر دیا گیا۔ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے محاذوں کو کافی حد تک بند کرکے ساری توجہ شام، عراق اور یمن پر مرکوز کر دی گئی۔ شام میں دُنیا بھر سے آئے شدت پسند درجنوں لشکروں کو ضم کرکے "باغی شامی فوج" کا نام دے کر مغربی اتحادیوں نے تربیت اور اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا، فنڈنگ عرب اتحاد کے حصے میں آئی۔ ترکی نے دُنیا بھر سے آنے والے جنگجوؤں کو شام میں پہنچانے اور زخمی جنگجوؤں کے علاج معالجے کا ذمہ لے لیا۔ اسرائیل نے بھی اِس کارِ شر میں حسبِ توفیق مدد کی حامی بھر لی۔ اکتوبر 2011ء میں غیر ملکی سازش اور منصوبہ بندی سے اندرونِ ملک منتخب جمہوری صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہروں کا آغاز سب سے پہلے اِسی صوبے حلب میں کرایا گیا، جس کی سرحد ترکی سے ملتی ہے۔ حلب کی عوام نے حکومت مخالف مظاہروں کا جواب ایک بھرپور ریلی کی شکل میں دیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اِس ریلی میں حکومت کی حمایت میں پندرہ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔

کچھ ماہ بعد دشمن اپنی اصلیت پر اُتر آیا، عوام کو مارنے اور حکومتی و سکیورٹی اداروں کو خوفزدہ کرنے کیلئے خودکش کار بم دھماکوں کا آغاز کر دیا۔ دُنیا بھر سے کرائے پر بھرتی کئے گئے 6 سے 7 ہزار شدت پسندوں کو حلب کی جانب بھیج کر مختلف علاقوں میں لڑائی کا آغاز کر دیا گیا۔ سب سے زیادہ نشانہ پولیس تھانوں، سکیورٹی اداروں اور عوامی مقامات کو بنایا گیا۔ شامی باغی گروہ نے مقامی لوگوں کے گھروں پرقبضہ کرکے اُن کو بنکر اور مورچوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ فوج اور پولیس سے مقابلے میں بے گناہ شہریوں کو ڈھال بنایا جاتا، جس سے سکیورٹی اداروں کو مشکلات کا سامنا رہا۔ شہر بھر میں کار بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔ حلب پر مکمل کنڑول حاصل کرنے کیلئے فری سیرین آرمی اور سیرین عرب آرمی نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ اِس فنڈڈ اور برانڈڈ لڑائی میں حلب کے ہزاروں برس پرانے تاریخی آثارِ قدیمہ کو تباہ کر دیا گیا۔ جس طرح داعش نے موصل میں حضرت دانیال نبی، حضرت یونس نبی اور حضرت عزیر نبی علیہما السلام کے مزارات بم دھماکوں سے اُڑا دیئے تھے، اُسی طرح یہاں پر بھی اُن کے پیروکاروں نے حلب کی تاریخی جامع مسجد کو آگ لگا دی اور کئی عیسائی عبادت گاہوں کو بھی جلا دیا گیا۔ ’’اسلامک فرنٹ‘‘ نامی تنظیم نے تاریخی حلب قلعہ، حلب میوزیم، کئی مساجد اور کلیساؤں کے تباہ کرنے کو عالمی میڈیا پر خود تسلیم کیا۔

یہ سوال تو بنتا ہے کہ جب حلب میں بربریت عروج پر تھی اور لوگوں کو باغیوں کا ساتھ نہ دینے پر کنوؤں میں پھینکا جا رہا تھا، گولیاں ماری جا رہی تھی، ذبح کیا جا رہا تھا اور دریائے قویق میں ہاتھ پاؤں باندھ کر دریا بُرد کیا جا رہا تھا تو کیا اُس وقت جماعت اسلامی و دیگرجماعتوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا اور پوسٹ پیڈ کالم نگاروں کے قلم کی روشنائی ختم ہوگئی تھی؟ جب 29 اپریل 2013ء کو لیوک موگل سن نے نیویارک ٹائمز میں اپنے آرٹیکل "The River Martyrs"میں لکھا تھا کہ حلب شہر پر قبضے میں 15 ہزار شہری تہہ تیغ کر دیئے گئے، جن میں ڈیڑھ ہزار وہ معصوم بچے مار دیئے گئے، جن کی عمر پانچ سال سے بھی کم تھی تو اُس وقت طیب اردگان اور پاکستانی ہمدردگان کہاں تھے۔؟ وہ پبلک پارک اور باغ جو ’’بوستانِ القصر‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا، جب قبرستان میں تبدیل ہوکر ’’باغِ شہداء‘‘ بن گیا تو حلب پر غاصبوں کے حامی کون سے کنٹریکٹ کی تکمیل میں مصروف تھے۔؟ جب حلب کے مردوں اور لڑکوں کی روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی تشدد زدہ لاشیں دریائے قویق میں بہانے پر اِس دریا کا نام تبدیل کرکے ’’دریائے شہداء‘‘ رکھا گیا تو جماعتی پرچارک کون سا اور پراجیکٹ سائن کر رہے تھے۔؟

جب 15 مارچ 2013ء کو انگلینڈ کے اخبار ڈیلی سٹار نے یہ خبر دی تھی کہ اِس بیرونی یلغار میں حلب کی ایک سو سے زائد فیکٹریوں میں اِس طرح سے لوٹ مار کی گئی جیسے مالِ غنیمت لوٹا جاتا ہے اور اُن فیکٹریوں کا قیمتی سامان اُسی طرح سیدھا ترکی بھیج دیا گیا، جس طرح شام کا لوٹا ہوا تیل ترکی کو بھیجا جاتا رہا ہے؛ اب حلب کے مونس و غمخوار اُس وقت کہاں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے؟ جب ظلم و ستم کی تاریک آندھی سے بچ کر شامی عربی لوگ نام نہاد عرب ممالک میں پناہ نہ ملنے کی وجہ سے یورپی ممالک کا تکلیف دہ اور پرُخطر سفر کر رہے تھے اور ایلان کردی جیسے معصوم اور پھول سے بچے، کشتیاں اُلٹنے سے یخ، ٹھنڈی اور بے رحم موجوں کا نشانہ بن رہے تھے؛ اُس وقت یہ مذکورہ انسانی حقوق کے علمبردار کون سے اجلاسوں اور میٹنگوں میں مصروف تھے۔؟  شام نے ہر محاذ پر درانداز اور جارح بیرونی دہشت گردوں کا مقابلہ جاری رکھا۔ جب شام کو بین الاقوامی سازش اور اُن کے عالمی نام نہاد سہولت کاروں کا بخوبی علم ہوا تو اُس نے بھی اپنے قریبی دوست ممالک روس، ایران اور لبنان سے مدد کیلئے باضابطہ رابطہ کیا۔ شام کی سرکاری درخواست پر ایران، روس اور لبنان کے رضاکار دستوں اور فوجی مشیروں کو شام میں تعنیات کیا گیا۔

صرف چار ملکی اتحادی فوج اور رضاکاروں کا مغربی و عرب اتحادی داعش اور باغی لشکروں کے ساتھ بھرپور لڑائی کا آغاز ہوا۔ شام پر مسلط کردہ جنگ میں اہم اور کلیدی کردار روسی فضائیہ نے سرانجام دیا۔ بالآخر جولائی 2016ء میں حلب میں موجود شر پسندوں اور اِنتہاء پسندوں کی آخری سپلائی لائن کو کاٹ دیا گیا۔ پانچ ماہ تک عالمی دہشت گردوں نے سپلائی لائن کی بحالی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن بے سود۔ جب دشمن کو اپنی شکست واضح نظر آنے لگی تو شرپسندوں کے پالن کاروں اور سہولت کاروں نے درمیان میں آکر دہشت گردوں کو محفوظ راستہ دینے کیلئے مذاکرات کئے۔ بین الاقوامی معاہدے کے تحت ایک نہیں دو نہیں بلکہ 300 خصوصی بسوں کا انتظام کرکے نہ صرف محفوظ راستہ دیا گیا بلکہ دہشت گردوں کی خواہش پر شام کے شہر اَدلب پہنچا دیا گیا۔ اگر شامی اتحاد چاہتا تو ہزاروں عوام کے ہزاروں قاتل دہشت گردوں کا خاتمہ کرسکتا تھا، لیکن شامی اتحاد نے مسلط کردہ جنگ کو بھی اسلامی اصولوں سے لڑا اور اپنے اَزلی دشمن کو اپنے ہی مقبوضہ شہر ادلب باحفاظت جانے دیا۔ اِس طرح 16 دسمبر 2016ء کو حلب شہر کو جدید اور مہذب دُنیا کے وحشی اور غیر مہذب غاصبوں، لٹیروں اور حملہ آوروں سے آزاد کرا لیا گیا۔

حلب کی جنگ کوئی عام جنگ نہیں تھی بلکہ بہت بڑی جنگ تھی۔ اِس لئے تو اِسے ’’جنگوں کی ماں‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے اور چار برس پر محیط اِس شہر کا محاصرہ جو شامی فوجیوں اور رضاکاروں نے کئے رکھا، کو سب سے طویل جنگی محاصرے کا نام دیا جا رہا ہے۔ حلب پر واویلا اور شور و غوغا غاصبوں اور چوروں کی طرف سے اِس لئے کیا جا رہا ہے کہ حلب کی آزادی سے تخلیق کاروں، سہولت کاروں اور حملہ آوروں کو تین محاذوں پر شکست ہوئی ہے۔ ایک تو یہ کہ ترکی سرحدی شامی صوبہ حلب میں 40 ہزار شدت پسندوں کے ہونے کے باوجود عرب مغرب اتحاد کی شکست کا مطلب اب شام میں زیادہ دیر ٹھہرنے کے اِمکان ختم ہوگئے۔ دوسرا عرب مغرب اتحاد حلب کو نوفلائی زون بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا، وہ بھی شرمندہءِ تعبیر نہ ہوسکا بلکہ ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ تیسرا اور بڑا مقصد اسرائیلی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے شامی فوج اور لبنانی حزب اللہ کو کمزور کرنا اور ایران کو تنہا کرکے باغی گروہوں اور لشکروں کیلئے ایک خود مختار علاقے کے قیام کی کوششیں تھیں، جو بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔ واضح سی بات ہے کہ حلب کے محاذ پر شکستِ فاش کی خفت، ہزیمت اور شرمندگی سے بچنے کیلئے لٹیروں، غاصبوں اور چوروں کے پاس شور مچانے کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں بچا۔
خبر کا کوڈ : 597052
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

حسن جمالی
Iran, Islamic Republic of
بہت زبردست لکھا برادر خدا کرے زور قلم اور زیادہ
نورسید
Pakistan
حلب کی فتح پر شور و غل یہ کہ شامی فوج نے حلب میں اپنی عوام کا قتل عام کیا!
کیسا قتل عام؟ کیا ۳۰۰ بسوں میں دہشت گردوں کو بیٹھا کر دہشتگردو ں کی خواہش کے مطابق جگہ پہنچانا عوامی قتل عام ہے؟
شامی فوج نے اپنی عوام کا قتل عام تو کجا، دہشت گردوں کا قتلِ عام بھی نہیں کیا!
ہماری پیشکش