0
Friday 6 Jan 2017 03:30

سکیورٹی ادارے... ہوشیار رہیں، بیدار رہیں

سکیورٹی ادارے... ہوشیار رہیں، بیدار رہیں
تحریر: محمد حسن جمالی

شام کے تجارتی مرکز شہر حلب میں پوری دنیا نے ایک بار پھر دیکھ لیا کہ بالآخر فتح ہمیشہ حق کا مقدر بن کر رہتی ہے اور باطل شکست و ریخت سے دوچار رہتا ہے۔ شام کے باشندے اور شام کے درودیوار گواہ ہیں کہ باطل قوتوں نے اہل شام پر کیا ظلم نہیں کیا، داعشیوں نے اپنے ناپاک اور مزموم مقاصد کے حصول کے لئے اہل شام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے، شامی بے گناہ عوام کو مارا پیٹا، ذبح کیا، دریا میں پھینک دیا، چھوٹے چھوٹے بچوں اور صنف نازک کو آگ میں جلا کر خاکستر کر دیا، خودکش دھماکوں کے ذریعے بے گناہ انسانوں کے اعضاء ہوا میں بکھیر دیئے، مقامات مقدسہ اور اصحاب کی قبور کی بے حرمتی کی گئی۔ اہل شام شیعہ سنی مسلمان چھ سال داعشی گروہ کے مظالم کا نشانہ بنتے رہے، لیکن شامی مسلمانوں کی مسلسل جدوجہد، مقاومت اور میدان میں ثابت قدمی کے مظاہرے نے بالآخر داعش کو کمر توڑ شکست دی۔ شہر حلب کو داعشی نجس وجود سے پاک کر دیا، لشکر داعش کے سرداروں کو زنانہ لباس میں عورت بن کر فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ حلب کی آزادی سے اہل شام اور مظلومین کی خوشی کی انتہا نہ رہی، انہوں نے اس آزادی کی خوشی میں خوب جشن منایا، ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور خدا کی بارگاہ میں شکر ادا کیا، لیکن یہ آزادی تکفیری گروہ اور داعش کے علمبرداروں کے لئے جہنم کا ایندھن ثابت ہوئی۔

حلب میں داعش کی شکست کے بعد جہاد النکاح کا فتوی دینے والے مولوی سے لے کر داعش کی شب و روز حمایت کرنے والے پوری دنیا میں پرییگنڈہ کا جال پھیلائے جا رہے ہیں۔ میڈیا پر مظلوم فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں کی تصاویر دکها کر یہ بتا رہے ہیں کہ دیکھو بشار الاسد نے شام میں مسلمانوں پر کتنے مظالم ڈھائے، مختلف اخبارات میں غلط مضامین شائع کروا کر دنیا کو یہ باور کرانے کی سعی لاحاصل کی جارہی ہے کہ شام میں چھ سال پر محیط جنگ شیعہ سنی فسادات کی جنگ ہے، جبکہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ خبیر و بصیر مسلمان جانتے ہیں کہ یہ مسلمانی لباس میں موجود کچھ منافقین، داعشی فکر رکھنے والوں کا پرپیگنڈہ ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شام میں شیعہ سنی مسلمان اتفاق و اتحاد کی طاقت سے لیس ہو کر اپنے مشترکہ اصل دشمن امریکہ و إسرائيل کے زرخرید غلام داعشی تکفیری گروہ سے نبرد آزما تھے، حق اور باطل کا معرکہ تھا، مسلمان اور کفار کا مقابلہ تھا، اگرچہ تعداد میں لشکر داعش کے خلاف مسلم مجاہدوں کی تعداد بہت قلیل تھی، لیکن استقامت اور نصرت الٰہی پر ایمان ہونے کے سبب داعش پر اہل شام کو فتح و کامیابی ملی، لیکن پاکستان میں موجود تکفیری عناصر مختلف طریقوں سے حلب کی آزادی کو غلامی میں، خوشی کو مصیبت میں بدلنے پر اپنی پوری توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔

فرزند زهراء (س) پر رونے والوں کو بدعتی قرار دینے والے حلب کی آزادی پر مسلسل گریہ و زاری، آہ و فغاں کرکے تھکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، جس کا ایک نمونہ 28 دسمبر 2016ء کو اسلام آباد و راولپنڈی سے شائع ہونے والے اذکار اخبار میں شائع شدہ داعشی دادا مولوی عبدالمعید مدنی کی ہزیان گوئی ہے، انہوں نے پورا آرٹیکل حلب میں داعش کے سقوط اور شکست پر نوحے ماتم اور آہ و بکا کے الفاظ سے بھر دیا ہے، اہل حق کے بارے میں ہزیان گوئی کرکے اپنے غم اور مصیبت کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر مولوی یاد رکھو؛ تم نے اپنی ہزیان گوئی پر مبنی تحریر شائع کروا کر اپنا اور پڑھنے والوں کا وقت ضرور برباد کیا ہے، ممکن ہے ان بکواسات کو لکھ کر تم اپنے سر کے تاج آقا سعودی عرب سے کچھ سعودی ریال حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے ہوں، مگر تم ان غلط باتوں کے ذریعے کبھی بھی مسلمانوں کو گمراہ نہیں کر سکو گے۔اس لئے کہ پوری دنیا میں مسلمان بیدار ہوچکے ہیں، سب جانتے ہیں کہ ان احمقانہ باتوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ بےشک مولوی صاحب آپ داعش کی شکست پر عشرہ بلکہ پورا سال ماتم کرتے رہو، غم مناتے رہو، لیکن یہ بات ذہن میں رکهو کہ عنقریب موصل میں بھی داعش شکست سے دوچار ہونے والی ہے، موصل کے مسلمانوں کو بھی داعش پر فتح ملنے والی ہے، موصل کے شیعہ سنی مسلمان بھی آزادی کا جشن منانے کی تیاری کر رہے ہیں، آپ ابھی سے موصل کا نوحہ بھی لکھنا شروع کر دیں۔

موصل میں شکست کھانے کے بعد داعش کا رخ پاکستان کی جانب مڑنے کا امکان زیادہ ہے، چونکہ پاکستان میں عبدالمعید مدنی جیسے داعش کے ہمفکر افراد بہت زیادہ ہیں۔ تکفیری سوچ کے حامل ٹولے کا نام کبهی طالبان ہے تو کبهی القاعدہ اور آج کل پوری دنیا میں داعش کے نام سے یہ ٹولہ اسلام اور مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے۔ پاکستان اس وقت تکفیری ٹولے کا مرکز شمار ہوتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق پاکستان میں اس وقت تکفیری سوچ کے خالق ابن تیمیہ و عبدالوہاب کا حقیقی وارث سعودی عرب 24000 دینی مدارس چلا رہا  ہے، جبکہ 1956ء میں ان مدارس کی تعداد صرف 244 تھی، یہ مدارس بھرپور طریقے سے تکفیری سوچ کو پروان چڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔ ان کے علاوہ ہزاروں دوسرے مدارس کو بھی ان کی طرف سے مالی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے فتوے صادر کرنے والے اور منافرت و حسد کے سوداگر بھی انہی مدارس میں موجود ہیں۔ یہی مفتی حضرات اس شجر ملعونہ کی جڑیں اور اس فتنے کے اصل محرک ہیں۔ یہ ڈالر و دینار کی خاطر منطق و استدلال اور حق و حقیقت سے منہ پھیر کر غلط فتوے بیچ رہے ہوتے ہیں۔

آپ ذرا لشکر جهنگوی العالمی کے امیر یوسف منصور خراسانی کے ذیلی انسانیت کی روح کانپ جانے والے فتویٰ کو پڑھ کر ذرا سوچیں کہ پاکستان میں مسلمانوں کے لئے ان وحشی درندوں کا خطرہ کتنا ہے۔(سقوط حلب نے ہم پر غم کے پہاڑ گرا ڈالے، مگر آہیں سسکیاں بھرنا، فیس بک ٹوئیٹر و سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع پر اسٹیٹس ڈالنا اور چند روز بعد معمول کی روٹین پر آجانا، یہ ان سانحات کا علاج نہیں اور نہ ہی اس سے امت مسلمہ کے درد کا مداوا ہوسکتا ہے..... میں پاکستان، ایران، ھندوستان، و دیگر ممالک میں رہائش پذیر امت مسلمہ کے دکھ کو اپنے دلوں میں محسوس کرنے والے سنجیدہ مسلمانوں، حلب کی چیخوں کو اپنے کانوں میں سننے والے غیرت مند مسلمان بھائیوں سے درخواست کروں گا کہ اپنے اپنے علاقوں میں کائنات کے اس غلیظ ترین کافر، نطفہ یہودیت، امت کے خبیث ترین دشمنوں کے خلاف جہاد شروع کریں۔ پاڑہ چنار، گلگت، کوئٹہ کے ہزارہ شیعوں کی کثیر تعداد شام میں مسلمانوں کے خلاف اندوہناک مظالم ڈھا رہی ہے، آپ ان علاقوں میں ان پر حملوں کا آغاز کریں.... شام جانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، شیعہ آپکے علاقوں گلی محلوں میں موجود ہیں، انکے خلاف وہیں قتال شروع کریں، واللہ آپ کا ضمیر بھی مطمئن ہوگا، امت کی نصرت بھی ہوگی اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کے دربار میں بے غیرتی، بے حسی اور تارک جہاد جیسے مجرمانہ افعال کے مرتکب ہونے جیسے جرائم سے بھی بری الذمہ ہونگے......
والسلام
خادم اسلام
امیر جماعت لشکر جھنگوی العالمی
یوسف منصور خراسانی
)

دوسری جانب پاکستان کو دہشتگردوں کے ناپاک وجود سے پاک کرکے ہی دم لینے کے دعویدار سابق جنرل راحیل شریف صاحب سعودی قیادت میں دہشتگردوں کی حمایت میں بننے والے نام نہاد اسلامی ملٹری الائنس کے باقاعدہ سربراہ مقرر ہوگئے ہیں۔ یہ سارے قرائن بتاتے ہیں کہ موصل سے شکست کھانے کے بعد داعش پناہ لینے کے لئے پاکستان کا رخ کریں گے، ایسے میں تمام حساس ادارے بالخصوص سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری سنگین ہو جاتی ہے، داعش کسی مخصوص گروہ کا دشمن نہیں، وہ انسانیت کے دشمن ہیں، بنابراین پاکستان کی سکیورٹی کے لئے ضروری ہے کہ تمام سکیورٹی ادارے ہوشیار رہیں، بیدار رہیں۔
خبر کا کوڈ : 597483
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش