0
Friday 6 Jan 2017 15:40

پاکستان کا کسی بھی ملک کیخلاف یا عالمی امن کیلئے نقصاندہ کسی بھی اتحاد کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ

پاکستان کا کسی بھی ملک کیخلاف یا عالمی امن کیلئے نقصاندہ کسی بھی اتحاد کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ
رپورٹ: ایس جعفری

وفاق نے ملک کی خارجہ پالیسی کی آئندہ حکمت عملی کے حوالے سے گائیڈ لائنز طے کر لی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خارجہ پالیسی کی آئندہ حکمت عملی کی گائیڈ لائنز میں طے کیا گیا ہے کہ پاکستان کسی بھی ایسے عالمی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا، جو کسی بھی ملک کے خلاف ہو یا عالمی امن کیلئے نقصان دے ہو۔ پاکستان کسی بھی ملک کی ڈو مور پالیسی کو قبول نہیں کرے گا۔ پاکستان اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستان کی جانب سے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات متوازن پالیسی کے تحت ہی قائم رکھے جائیں گے۔ موجودہ تعلقات کو وسعت دینے کیلئے تمام سفارتی ذرائع استعمال کئے جائیں گے۔ پاکستان تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات اور مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی مذاکراتی پالیسی کو جاری رکھے گا۔ پاکستان کی جانب سے اسلامی ممالک کے درمیان مسائل کو او آئی سی کے پلیٹ فارم سے حل کرانے کیلئے بھی اپنی جاری کوششوں کو مذید تیز کیا جائے گا۔

پالیسی کے مطابق پاکستان اپنی سرزمین کسی بھی تنظیم کو دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں کرنے دے گا اور ملک سے دہشتگردی اور انتہاپسندی کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے مؤثر حکمت عملی کے تحت آپریشنز جاری رکھے جائیں گے۔ پاکستان عالمی سطح کے مسائل حل کرانے میں اپنا سفارتی کردار، براہ راست مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کے تحت ادا کرے گا۔ خارجہ پالیسی کی آئندہ حکمت عملی کے حوالے سے گائیڈ لائنز وفاقی حکومت کے حکام نے اعلیٰ ترین سطح پر کی گئی مشاورت میں طے کی گئی ہیں۔ وفاقی حکومت کے اہم ترین ذرائع کے مطابق اعلیٰ حکومتی سطح پر کی جانے والی مشاورت میں خارجہ پالیسی کے تمام پہلوؤں، پاک بھارت حالیہ کشیدگی، بھارت کی پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر کئے جانے والے پروپیگنڈے، بھارت کی پاکستان میں مداخلت، خصوصا را کی جانب سے بعض تنظیموں کو سپورٹ کرنے، افغانستان میں قیام امن، نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات، عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور اسلامی ممالک کے مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ملکی خارجہ پالیسی کی آئندہ حکمت عملی کے حوالے سے گائیڈ لائنز طے کرنے کی اطلاعات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں کہ جب ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں عام ہو چکی ہیں کہ دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر بننے والے سعودی عرب کی قیادت میں یمن پر حملہ آور نام نہاد فوجی اتحاد کو منظم کرنے کیلئے پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی بحیثیت عسکری مشیر، تقرری کے تمام معاملات حتمی مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے مزید یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سابق آرمی چیف اپنے دورہ سعودی عرب سے 9 جنوری کو وطن واپس آ رہے ہیں اور فوری طور پر اپنے ساتھ لے جانے کیلئے دو سے تین سابق لیفٹیننٹ جنرل، متعدد بریگیڈیئر (ر) اور کئی دیگر سابق فوجی افسران کو نئی کمان کیلئے بھرتی کریں گے۔ اس حوالے سے وہ اگلے 3 ماہ کے اندر پاکستان سے کم و بیش ایک بریگیڈ کے لگ بھگ سابق آرمی افسران جمع کرکے جنوری، فروری میں انہیں بھیجنے کا کام نہ صرف شروع کر دینگے، بلکہ مارچ کے آخر تک یہ مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔

جنرل (ر) راحیل شریف کی جانب سے سعودی فوجی اتحاد میں بحیثیت عسکری مشیر شمولیت پر پاکستانی عوام جہاں شدید حیرت کا اظہار کر رہی ہے، وہیں ان میں شدید غصہ پایا جا رہا ہے، عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ہم افغانستان میں سوویت یونین (موجودہ روس) کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بنے تھے، جس کے بعد آج تک پاکستان دہشتگردی، منشیات، اسلحہ کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، دوسروں کی جنگ کا حصہ بننے کے باعث پاکستان سینکڑوں ارب ڈالرز کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں پاکستانی فوجی و سیاسی قیادت نے تمام تر دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے سعودی یمن تنازعہ میں سعودی و عرب امارات کی خواہش کے باوجود اسکا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا، جو ایک انتہائی مثبت اقدام تھا۔ کیونکہ اگر پاکستان اس تنازعے میں الجھ جاتا تو پاک ایران تعلقات مزید بگڑ جاتے، اس تنازعے میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرکے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا، جسے تمام محب وطن حلقوں نے سراہا۔ اسکا کریڈیٹ عوام نے اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف کو دیا تھا، لیکن اب ریٹائرمنٹ کے بعد بحیثیت عسکری مشیر سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کا یہ اقدام نا صرف پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سبب بنے گا، بلکہ اندرونی طور پر بھی پاکستان ایک ایسے بحران کا شکار ہو جائے گا، جس سے نکلنا شاید ممکن نہ ہو سکے۔

دوسری جانب پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عالم اسلام میں پاکستان کو انتہائی اہم حیثیت حاصل ہے، جسے برقرار رکھتے ہوئے اسے سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہیئے۔ پاکستان کو ملکی و عالمی سطح پر بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان کو کسی مخصوص بلاک کا حصہ بننے سے پرہیز کرنا ہوگا۔ اگر پاکستان کسی ایک بلاک میں چلا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان خود اپنے وجود کی نفی کرنے جا رہا ہے، حکومت کو عزت نفس اور ملکی وقار کے خلاف کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے اور پاکستان کو ملت اسلامیہ کے اتحاد اور مسائل و بحرانوں کے حل کیلئے غیر جانبدار رہتے ہوئے کوششیں کرنا چاہیئں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سابق آرمی چیف ناصرف خود بلکہ اپنے ساتھ دیگر سابق فوجی افسران کے ساتھ سعودی فوجی اتحاد کا حصہ بنتے ہیں تو اس بھی افواج پاکستان کا فیصلہ ہی تسلیم کیا جائے گا، جس سے افواج پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوگی، جبکہ پہلے ہی پاک فوج کو کرائے کی فوج کہہ کر دنیا بھر میں بدنام کیا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا فوجی و عسکری قیادت کو قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے آزاد و خودمختار خارجہ پالیسی بناکر اس کے تحت فیصلے کرنے چاہیئے اور یہ ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہوگا کہ ہم کسی اور کی جنگ کا حصہ بنیں، کسی کی خاطر اس کی جنگ لڑیں اور ملک و قوم کیلئے مزید مسائل و بحران پیدا کریں۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب شام اور عراق میں داعش و دیگر امریکی پیداوار تکفیری دہشتگرد گروہوں کو شکست کھانے کے بعد وہاں سے فرار کرنا پڑ رہا ہے، تو امریکا کی کوشش ہے کہ انہیں واپس اپنے اتحادی مغربی و عرب ممالک میں جانے کے بجائے افغانستان منتقل کیا جا سکے، تاکہ داعش و دیگر دہشتگرد گروہوں کو استعمال کرکے ایک طرف تو خاص طور پر جنوبی ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کیا جا سکے، جبکہ دوسری جانب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو بھی نقصان پہنچا سکے۔ لہٰذا اس حساس صورتحال میں افواج پاکستان کے سابق آرمی چیف سمیت تمام ریٹائرڈ اعلیٰ افسران کو اپنی خدمات کسی غیر ملک کو دینے کے بجائے داعش کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کیلئے فراہم کرنی چاہیئے۔ اب جبکہ یہ اطلاعات میڈیا کی زینت بن رہی ہیں کہ ہم کسی بھی ملک کے خلاف یا عالمی امن کیلئے نقصاندہ کسی بھی عالمی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے، اور تمام ممالک کے ساتھ تعلقات ’’متوازن پالیسی‘‘ کے تحت ہی قائم رکھے جائیں گے، انتہائی خود آئیند اور قومی مفاد کا آئینہ دار ہے۔
خبر کا کوڈ : 597577
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش