0
Sunday 8 Jan 2017 19:32

پاراچنار، اسلحہ حوالگی پر قومی رد عمل

پاراچنار، اسلحہ حوالگی پر قومی رد عمل
رپورٹ: سید محمد الحسینی

پاراچنار کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مرکزی قومی امام بارگاہ پاراچنار میں آپریشن اور اسلحہ حوالگی کے حوالے سے ایک عظیم الشان قومی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کرم ایجنسی کے مشران، عمائدین، تعلیم یافتہ اور ناخواندہ افراد، تمام سیاسی، سماجی اور مذھبی تنظیموں کے نمائندوں نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ میٹنگ کا انعقاد انجمن حسینیہ پاراچنار نے کرایا تھا۔ اور انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ہر طبقہ، ہر گروپ اور تنظیم کو دعوت دی تھی۔ اس اجتماع کو میٹنگ قرار دینا مناسب نہیں ہوگا, بلکہ اسے ایک بڑا جلسہ عام کہنا چاہئے۔ اجلاس سے سابق سیکریٹری انجمن حسینیہ کیپٹن (ر) یوسف حسین، سابق سنیٹر سید سجاد میاں، ملک سلطان حسن پیواڑ، ملک سید طاہر حسین احمد زئی، کونسلر سید محمد شیرازی، اصغر حسین عرف اصغرو، تحریک حسینی کے صدر مولانا یوسف حسین، حاجی خادم حسین ملانہ اور سیکریٹری انجمن حسینیہ حاجی فقیر حسن نے خطاب کیا۔

اپنے خطابات میں مقررین نے پاک سرزمین کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور اس پاک مٹی کا دفاع اپنا اولین فریضہ قرار دیا۔ تاہم مقررین نے مقامی انتظامیہ کی جانب سے اسلحہ حوالگی بارے جاری کردہ نوٹس کو ناانصافی پر مبنی قرار دیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ کرم ایجنسی کا موازنہ دوسری ایجنسیوں سے نہ کیا جائے، کیونکہ دیگر ایجنسیوں میں طالبان اور داعش کی اجارہ داری تھی۔ وہاں پاکستان کے قومی ترانے کی بجائے طالبان کے خود ساختہ ترانے گائے جاتے رہے ہیں۔ ان علاقوں میں کئی دھائیوں سے کسی سرکاری اہلکار کی آمد ورفت ممکن ہی نہیں رہی۔ مقامی عوام کے ساتھ ساتھ، ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اہلکاروں کو یہاں بیدردی سے قتل کیا گیا۔ خود کش دھماکوں سے بازار محفوظ رہے، نہ ہی مساجد اور دیگر مقدس مقامات۔ جبکہ کرم ایجنسی میں آج تک کسی سرکاری اہلکار کا خون تو کیا معمولی سرزنش تک نہیں ہوئی ہے۔ الٹا یہ کہ سرکاری اہلکاروں نے یہاں کے عوام کی بے حرمتی کی ہے۔

لوگوں پر فائرنگ کرکے قتل کیا ہے۔ جلسے جلوسوں پر فائرنگ کرکے عوام کو قتل کیا جاچکا ہے۔ اسکے باوجود کبھی عوام نے سرکاری اداروں کو اپنا محافظ سمجھ کر جوابی کارروائی تک سے گریز کیا ہے۔ مقررین نے کہا کہ سرکاری اہلکاران کی موجودگی میں ہماری گاڑیوں، بسوں اور ٹرکوں کو لوٹا گیا۔ اور ان پر سوار افراد کو اتار کر زندہ جلادیا گیا جنکے ویڈیو کلپس اب بھی موجود ہیں۔ مقررین نے کہا کہ اس حکومت پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے جو اپنے سرکاری پوسٹوں کا تحفظ نہیں کرسکتی۔ جو اپنے اہکاروں کا تحفظ نہیں کرسکتی۔ جو اپنے قومی پرچم کا تحفظ نہیں کرسکتی۔ اس سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ وہ طوری قوم اور اسکی سرزمین کا تحفظ کرسکیں۔ چنانچہ ہم اپنا دفاع خود ہی جانتے ہیں۔ البتہ انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ کسی علاقے کے امن وامان کے لئے حکومت کا وجود نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومتی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔ انکے ساتھ اس حوالے سے مذاکرات کے لئے ہمہ تن تیار ہیں۔

تمام مقررین کی تقریروں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے سیکریٹری انجمن حسینیہ حاجی فقیر حسن نے اپنا موقف یوں پیش کیا کہ طوری قوم کو اسلحہ سرحدوں کے تحفظ نیز اپنے دفاع کے لئے انگریز حکومت نے نیز پاکستان کے قیام کے بعد بھی اس وقت کی حکومت نے دیا ہے۔ انہوں نے مقررین میں سے بعض کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں، جبکہ ہمارے ارد گرد نیز سرحد پار طالبان، القاعدہ اور داعش کے دہشتگرد موجود ہیں، ہم کسی پر انحصار نہیں کرسکتے۔ بلکہ ہم اپنا دفاع خود ہی کرسکتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں گاؤں میں قومی سطح پر ہر قوم سے قومی کمیٹی کے لئے چار چار افراد کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔ انہوں نے تاکید کی، کہ چند افراد کو یہ حق حاصل نہیں، کہ اس نمائندہ کمیٹی کا انتخاب کرے بلکہ قومی سطح پر میٹنگز بلاکر ایسے افراد کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر عمل میں لایا جائے۔ پھر اسی کمیٹی کو حکومت سے مذاکرات کرنے، اسلحہ حوالہ کرنے یا نہ کرنے کا مکمل اختیار ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 598263
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش