0
Monday 9 Jan 2017 20:47

حلب کے ماتمی

حلب کے ماتمی
تحریر: نصرت شاہانی
nusrat235@gmail.com

انبیاء علیہم السلام کی سرزمین شام کے شہر حلب میں دہشتگردوں کی شکست پر ابھی تک ان کے ہمنوا عمداً اور بعض بے خبر سہواً داد و فریاد بلند کر رہے ہیں۔ وزیرستان میں پاک فوج کے ہاتھوں ایسے ہی امن دشمن عناصر کے خاتمے پر یہ بیچارے ماتمی، ’’خاکی‘‘ وردی والوں کے ڈر سے کھل کر تو بات نہیں کرتے تھے مگر نجی محفلوں میں اپنے غیظ و غضب کا اظہار ضرور کرتے۔ قرآن مجید نے اس طرح کے غم و غصہ کو یوں ذکر کیا ہے "قل موتوا بغیظکم ان اللہ علیم بذات الصدور" ان سے کہہ دیجئے، تم اپنے غصے میں جل مرو، یقیناً اللہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے۔ (آل عمرا ن ۱۱۹)۔ شام کے مسئلہ میں چونکہ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، لہٰذا زبان و قلم آزاد ہیں۔ واقفان حال کے بقول ان میں سے بعض کو ان کی توقع سے بھی کہیں ذیادہ "نوازا" گیا ہے اور دیگر ویسے ہی اس گناہ بے لذت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کراچی کے کثیر الاشاعت روزنامے کی 6 جنوری کی اشاعت میں’’چلو اس شہر کا ماتم کریں‘‘ کے عنوان سے حلب شہر کی آزادی کے غم میں کالم شائع کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا خود کراچی کچھ عرصہ قبل تک جس بدترین دہشتگردی کا شکار رہا، کبھی اس پر بھی اخبار اور فاضل کالم نگار نے کسی کالم میں احتجاج یا ماتم کیا؟ انسانوں کے زندہ جلائے جانے کے واقعات ہوں یا ٹارگٹ کلنگ و بھتہ خوری کی لعنت، کراچی شہر نے کون سا دکھ نہیں جھیلا۔ کتنے کالموں میں اخبار اور مضمون نویس نے اپنے وطن کے اس شہر ہزار رنگ پہ ڈھائے جانیوالے مظالم کا ماتم کیا؟؟

حلب تو 6 سال سے انسانیت دشمن داعشی درندوں کے نجس پنجوں میں جکڑا ہوا تھا جہاں انسانیت سوز مظالم توڑے گئے۔ اس وقت تو اس شہر کی مظلومیت پر ماتم کیا گیا اور نہ ہی مصیبت زدگان سے اظہار ہمدردی کیلئے ریلیاں نکالی گئیں۔ اسی شام میں دہشتگردوں کے ہاتھوں رسول اکرم ﷺ کی نواسی، کربلا کی شیر دل خاتون حضرت زینب علیہا السلام، جلیل القدر صحابہ کرام حضرت اویس قرنی، حضرت عمار یاسرؓ و دیگر بزرگان کے مزارات پر حملے کیا کم سانحے تھے جس پر ماتم کیا جاتا؟ لیکن ان ماتمیوں کو حرف مذمت تک لکھنے، کہنے کی توفیق نہ ہوئی۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے تو فرمایا تھا امت مسلمہ جسد واحد کی طرح ہے، ہر عضو کے درد کو پورا جسم محسوس کرے۔ اسلام کے لیبل سے کام کرنے والی جماعت کی کراچی میں نکالی جانیوالی ریلی میں مبینہ طور پر داعش کی حمایت میں نعرہ بازی کی گئی۔

کیا یمن کے شہروں کی تباہی و بربادی اور یمنی عوام کی مظلومیت پر ہمارے ان غمزدگان کی طرف سے صدائے ماتم بلند ہوئی؟ حالانکہ ان مظلوم یمنیوں نے بم دھماکے کئے اور نہ ہی خودکش حملے، وہ تو اپنی جمہوری جدوجہد کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ عرب اتحادی افواج نے تو ان کی رسم قل خوانی کے اجتماعات کو بھی سفاکانہ جارحیت کا نشانہ بناتے ہوئے سینکڑوں شہید و زخمی کئے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق خادمین حرمین کی قیادت میں اس اتحاد کے ڈھائے جانیوالے مظالم کے نتیجہ میں 14 ملین افراد کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ کیا یہ سنسنی خیز اعداد و شمار ماتم کئے جانے کے قابل نہیں ؟ خدارا ! ارباب میڈیا اپنی ذمہ داریوں کی طرف دھیان دیں۔ فکر، قلم، بیان اور ان کے اظہار و ابلاغ کے ذرائع خداوند متعال کی امانت ہیں۔ وقتی طور پر تو شاید کوئی فائدہ پہنچ جائے لیکن کل بروز قیامت ایک ایک حرف بولنے، لکھنے، نشر و شائع کرنے کا حساب دینا ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 598514
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش