0
Tuesday 10 Jan 2017 15:48

داعش اور سعودی عرب

داعش اور سعودی عرب
تحریر: سید علی نجات

تکفیری دہشت گرد گروہ داعش شدت پسندانہ سلفیت کے ساتھ ساتھ روایت پسندانہ وہابیت پر بھی شدت سے گامزن ہے۔ ایسی وہابیت جس کا نتیجہ محمد بن عبدالوہاب اور محمد بن سعود کے باہمی اتحاد کے ذریعے آل سعود رژیم کے برسراقتدار آنے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ لیکن اس پیروی کے باوجود جب داعش نے جون 2014ء میں "دولت اسلامیہ" کی تشکیل کا اعلان کیا تو اس نے محمد بن عبدالوہاب اور محمد بن سعود کے مذہبی – سیاسی اتحاد کو یکسر طور پر مسترد کر دیا۔ درحقیقت داعش کی حکومت اور خلافت میں ابوبکر البغدادی سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنما بھی ہے۔ یوں داعش کی کوشش ہے کہ وہ اپنی تشکیل شدہ نام نہاد حکومت کو عصر اسلام میں موجود خلافت راشدین جیسے سیاسی نظام کے طور پر متعارف کروائے۔ ایسی خلافت جس میں خلیفہ ایک ہی وقت میں امام بھی تھا اور سیاسی اور فوجی کمان بھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ نظریات کے اس بنیادی اختلاف کے باعث داعش نے سعودی حکومت کو کافر قرار دے دیا جبکہ دوسری طرف سعودی عرب کا وہابی مفتی عبدالعزیز آل شیخ پہلے سے ہی داعش کو اسلام دشمن گروہ قرار دے چکا تھا۔

وہابیت نے سعودی عرب کی سیاسی زندگی کے معرض وجود میں آنے اور باقی رہنے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے اور آج بھی وہابیت اس ملک میں برسراقتدار سیاسی نظام کی مشروعیت اور قانونی جواز کا اہم ترین سرچشمہ قرار پایا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب نے عالم اسلام میں وہابیت اور سلفیت کی پیدائش اور پھیلاو میں ایک مرکز اور سرچشمے جیسا کردار ادا کیا ہے۔ شدت پسند مذہبی گروہوں جیسے طالبان، القاعدہ، داعش، جیش الاسلام، اسلامک فرنٹ وغیرہ کی تشکیل اور حمایت میں سعودی عرب کے کردار کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ آل سعود رژیم نے وہابی و سلفی طرز تفکر کی ترویج، شیعہ طرز تفکر کو کمزور کرنے، شیعہ افراد اور گروہوں کو اقتدار سے دور رکھنے، خطے کے ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثرورسوخ کو روکنے اور خطے میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر تکفیری وہابی اور سلفی دہشت گرد گروہوں کی مدد اور حمایت کی ہے۔

اگرچہ سعودی حکومت داعش کی مدد اور حمایت سے انکار کرتی ہے لیکن ایسے کئی ٹھوس شواہد اور موثق رپورٹس اور معلومات موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سعودی عرب داعش سمیت شام میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں کی بھی بھاری مالی اور فوجی معاونت کرتا رہا ہے۔ ان میں سے ایک جو سب سے زیادہ واضح ہے وہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن کا بیان ہے۔ انہوں نے اکتوبر 2014ء میں ہارورڈ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ خلیجی عرب ریاستیں اور ترکی داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی حمایت میں مصروف ہیں۔

سعودی عرب سے ارسال شدہ مالی و فوجی امداد دو طریقوں سے داعش تک پہنچتی ہے۔ ایک براہ راست مدد کی صورت میں جو سعودی عرب میں موجود خیرات کی تنظیموں اور بڑے بڑے سعودی تاجروں کی جانب سے داعش کو بھیجی جاتی ہے۔ یہ مالی و فوجی امداد سعودی انٹیلی جنس اداروں کی زیر نگرانی داعش کو پہنچائی جاتی ہے۔ داعش کو مالی و فوجی امداد کا دوسرا طریقہ بالواسطہ طور پر مدد فراہم کرنے پر مبنی ہے۔ اس قسم کی مالی و فوجی امداد کی مقدار پہلی قسم سے کہیں زیادہ ہے۔ شام میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں سے حاصل ہونے والے فوجی غنائم جن میں بھاری اور ہلکا اسلحہ شامل ہے اسی طریقے سے داعش کو پہنچائے جاتے ہیں۔ اس قسم کی سعودی امداد داعش کے علاوہ دیگر سلفی دہشت گرد گروہوں جیسے اسلامک فرنٹ اور جیش الفتح تک بھی پہنچائی جاتی ہے۔

ابتدا میں سعودی عرب کی جانب سے داعش کو ملنے والی فوجی اور مالی امداد بہت وسیع پیمانے پر تھی۔ اس بارے میں سعودی انٹیلی جنس ایجنسی اور سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ بندر بن سلطان کی جانب سے داعش کی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آج بھی شام میں دیگر سلفی تکفیری دہشت گرد گروہوں کے ہمراہ حکومت کے خلاف جنگ میں مشغول داعش میں شامل دہشت گرد عناصر کی بڑی تعداد سعودی شہریوں پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2014ء تک داعش میں شامل سعودی شہریوں کی تعداد 2500 کے قریب تھی جو کسی بھی بیرونی ملک سے آئے دہشت گرد عناصر میں سب سے زیادہ تھی۔

تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے شرعی اداروں میں سرگرم اراکین کی بڑی تعداد سعودی عرب کے سلفی عناصر پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ابوبکر القحطانی (عمر القحطانی) اور عثمان آل نازح العسیری کے نام قابل ذکر ہیں۔ اب تک بڑی تعداد میں ایسے سعودی شہریت کے حامل دہشت گرد تکفیری عناصر کے نام شائع ہو چکے ہیں جو شام اور عراق میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں کہ تکفیری دہشت گرد گروہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اپنے ہلاک شدہ افراد کی لاشیں جلا دیتے ہیں تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔ جیسا کہ عراق کے شہر فلوجہ کے شمال مشرق میں واقع قصبے الکرمہ میں حال ہی میں ایک اجتماعی قبر کا انکشاف ہوا جس میں داعش سے وابستہ دہشت گرد دفن تھے اور ان میں سات سعودی شہریت کے حامل دہشت گرد بھی شامل تھے۔

سعودی عرب کی جانب سے داعش کی حمایت کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ عراق میں برسراقتدار شیعہ حکومت کو کمزور کرنا اور اس ملک میں بحران ایجاد کرنا ہے تاکہ اس طرح ایک طرف عراقی حکومت کی افادیت پر سوالات اٹھائے جا سکیں اور دوسری طرف عراق میں مضبوط جمہوریت کے قیام اور سیاسی استحکام کے فروغ میں روڑے اٹکائے جا سکیں۔ سعودی حکام کا گمان ہے کہ عراق کی سنی آبادی اقتدار سے محروم کر دی گئی ہے اور گوشہ گیری کا شکار ہے لہذا ان کی مدد اور حمایت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی گذشتہ طاقت واپس لوٹا سکیں۔ سعودی عرب کی جانب سے عراق میں سرگرم تکفیری دہشت گرد گروہ کی مالی و فوجی امداد اور میڈیا کے ذریعے ان کی حمایت کا یہی مقصد ہے۔

سعودی حکومت کی جانب سے داعش کی حمایت کی دوسری بڑی وجہ شام میں برسراقتدار صدر بشار اسد کی حکومت کو سرنگون کرنا ہے۔ آل سعود رژیم شام کی اسلامی مزاحمتی بلاک میں شمولیت اور ایران سے اس کے اسٹریٹجک تعلقات کو خطے میں اپنے رقیب یعنی ایران کی کامیابی تصور کرتا ہے لہذا 2012ء سے ہی سعودی عرب نے شام میں سرگرم سلفی جہادی گروہوں کی حمایت کا آغاز کر دیا تھا۔ سعودی عرب شام میں سرگرم وہابی طرز تفکر کے حامل گروہوں جیسے جیش الاسلام، احرار الشام اور اسلامک فرنٹ کی زیادہ مدد کر رہا تھا لیکن ان گروہوں کی مسلسل ناکامیوں اور شکست کے بعد سعودی عرب کا رجحان داعش کی جانب ہو گیا جو نیا ابھر کر سامنے آیا تھا۔

تکفیری دہشت گرد گروہ داعش 2014ء اور 2015ء میں عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جب داعش نے شام میں تیزی سے پیشقدمی کرنا شروع کی تو سعودی حکام نے صدر بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کیلئے دن گننا شروع کر دیئے۔ لیکن جب داعش نے اپنی اسٹریٹجی تبدیل کرتے ہوئے شام حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے رقیب دہشت گرد گروہوں سے بھی جنگ کا آغاز کر دیا تو سعودی عرب کے تمام منصوبوں پر پانی پھرنے لگا۔ اس وقت سے سعودی حکومت داعش کو اپنا دشمن جاننے لگی لہذا داعش سے خطرے کا احساس کرتے ہوئے اور سعودی عرب میں داعش کی جانب سے ممکنہ دہشت گردانہ اقدامات کی روک تھام اور عالمی رائے عامہ میں سعودی عرب کا تاثر بہتر بنانے کی غرض سے داعش کو دی جانے والی امداد میں خاطرخواہ حد تک کمی کر دی۔

سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کی سربراہی میں داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت کا بھی یہی مقصد تھا۔ لیکن چونکہ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی اس اتحاد کی پہلی ترجیح نہ تھی لہذا ریاض نے اس اتحاد میں کوئی موثر کردار بھی ادا نہیں کیا ہے۔ سعودی عرب بارہا اپنے اتحادی ممالک سے شام میں مشترکہ فوج کے ذریعے فوجی مداخلت کا مطالبہ بھی کر چکا ہے۔ شام میں صدر بشار اسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کا منصوبہ روس اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالفت کے سبب ناکامی کا شکار ہو چکا ہے۔ اس وقت داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر خود سعودی عرب میں بھی موجود ہیں اور وہاں دہشت گردانہ کاروائیاں کر رہے ہیں جس کے باعث سعودی عرب نے دہشت گردی کے خاتمے کو اپنی داخلہ پالیسیوں کی پہلی ترجیح قرار دے رکھا ہے۔

سعودی عرب میں داعش کی جانب سے متعدد دہشت گردانہ اقدامات انجام دیئے جانے کے بعد سعودی مفتیوں نے غیرمعمولی انداز میں داعش کے خلاف فتوے جاری کرنا شروع کر دیئے۔ مثال کے طور پر مکہ کے امام جمعہ صالح بن حمید نے 14 اکتوبر 2015ء کو اپنے خطبے میں سعودی جوانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "داعش میں شمولیت یا اس گروہ کی مالی امداد اور ہر قسم کا تعاون مسلمانوں کے قتل میں معاونت کے برابر ہے"۔ اس سے قبل سعودی عرب کے معروف مفتی عبدالعزیز آل شیخ نے بھی کئی سال داعش کے دہشت گردانہ اقدامات کی حمایت کے بعد اپنے موقف میں اچانک تبدیلی لاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ داعش ایک دہشت گرد گروہ ہے اور سعودی جوان اس گروہ میں شمولیت سے باز رہیں۔ سعودی چینل العربیہ بھی داعش کی تشکیل کے بعد مسلسل اس تکفیری دہشت گرد گروہ کی حمایت میں مصروف تھا اور جب بھی اس گروہ سے متعلق کوئی خبر نشر کرتا تھا تو اسے "دولت اسلامیہ" اور "دولت اسلامی عراق و شام" جیسے مثبت عناوین سے پیش کرتا تھا لیکن حال ہی میں سعودی حکام کی پالیسی تبدیل ہونے کے بعد یہ چینل داعش کو ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر متعارف کروانا شروع ہو گیا۔

داعش کی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تکفیری گروہ شام اور عراق میں اپنا نیٹ ورک تشکیل دینے کے بعد افریقہ میں لیبیا نیٹ ورک، افغانستان اور پاکستان میں خراسان نیٹ ورک اور سعودی عرب میں بھی چوتھا نیٹ ورک تشکیل دینے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ داعش سعودی عرب کی سرحد کے قریب عراقی علاقوں میں اپنا اصلی کمان سنٹر قائم کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا لیکن وہ اس مقصد میں ناکام رہا۔ اسی وجہ سے داعش نے اپنی سرگرمیاں یمن منتقل کر دیں تاکہ وہاں سے جزیرہ نما سعودی عرب کا نیٹ ورک کنٹرول کیا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گرد گروہ داعش سعودی عرب کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ نظریاتی پہلو سے بھی سعودی عرب کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ البتہ جب تک داعش صرف شام اور عراق تک محدود ہے سعودی عرب کو اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سعودی عرب اس گروہ کو طولانی مدت میں اپنا دشمن تصور نہ کرے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش عراق، شام اور یمن میں اپنا نیٹ ورک پھیلانے کے بعد سعودی عرب میں بھی دہشت گردانہ اقدامات سے باز نہیں رہے گا۔ اب تک داعش سعودی عرب کے مختلف حصوں میں کئی دہشت گردانہ اقدامات انجام دے چکا ہے۔ اسی طرح داعش سعودی عرب کی کئی شیعہ مساجد میں دہشت گردانہ کاروائیوں اور بم حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کر چکا ہے اور اپنے دہشت گردانہ عناصر کو ایسی کاروائیاں جاری رکھنے کا دستور بھی دے چکا ہے۔ 3 نومبر 2016ء کو داعش کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی سے منسوب ایک آڈیو پیغام نشر کیا گیا جو عراق میں جاری موصل آپریشن کے آغاز کے بعد داعش کا پہلا ردعمل جانا جاتا ہے۔ اس پیغام میں داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سعودی حکومت کے خلاف کاروائیوں کا آغاز کر دیں۔ داعش نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب میں اس کے بیشمار حامی موجود ہیں۔ لہذا یہ کہنا درست ہو گا کہ عراق، شام اور یمن میں داعش کے اثرورسوخ میں اضافہ مستقبل میں سعودی عرب کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 598812
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش