2
0
Wednesday 11 Jan 2017 23:46

حلب کی صورتحال، کینیڈا کی خاتون صحافی کی زبانی

حلب کی صورتحال، کینیڈا کی خاتون صحافی کی زبانی
تحریر: عرفان علی

شام کے شہر حلب کی صورتحال پر ایک رائے کینیڈا کی خاتون صحافی ایوا بارلیٹ کی بھی ہے، جنہوں نے 2014ء سے نومبر 2016ء تک شام کا چھ مرتبہ تفصیلی دورہ کیا۔ انہوں نے مقبوضہ فلسطین، اردن اور لبنان کے نزدیک سویدا اور طرطوس کے بھی دورے کئے تو حمص اور ترکی کی سرحد سے نزدیک شام کے صوبے حلب کی سرزمین پر بھی بچشم خود حالات دیکھے۔ یہ خاتون صحافی حقوق انسانی کے لئے بھی کوشاں رہتی ہیں۔ غزہ میں جب صہیونیوں نے جنگ چھیڑی تھی تو ان دنوں انہوں نے غزہ کے ستم رسیدہ فلسطینیوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے وہاں 2008ء میں دورے بھی کئے تھے، حقائق پر مبنی رپورٹنگ اور تجزیہ و تحلیل بھی دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں میڈیا سے انہوں نے ماہ دسمبر 2016ء میں شام کے اور خاص طور پر حلب کے حالات پر اظہار خیال فرمایا۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ مغربی ذرائع ابلاغ کارپوریٹ میڈیا بن کر زمینی حقائق کے برعکس اور محض جھوٹ پر مبنی خبریں نشر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ میڈیا کی خبروں کا کوئی معتبر ذریعہ ہی نہیں اور وہ دہشت گردوں کے علاقوں کی رپورٹس دے رہے ہیں کہ جہاں شام کے عوام مسلح گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے جاچکے تھے۔ ایوا بارلیٹ نے کہا کہ شام کے عوام سے ان کی اپنی بات چیت ہوتی تھی اور ان کے لئے ان کی شامی شناخت اہمیت رکھتی ہے، وہ شامی شناخت کو فوقیت دیتے ہیں، مسلکی شناخت ان کے لئے اتنی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، لیکن مغربی میڈیا شام کو ایک مسلکی مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ مغربی میڈیا شام کو سنی مسئلہ بتاتا ہے، لیکن حلب جو سنی اکثریتی علاقہ ہے، وہاں سنی شام کی حکومت اور فوج کے ساتھ ہیں۔

ایوا بارلیٹ نے کہا کہ جب ستمبر 2016ء میں سیز فائر کا معاہدہ ہوا تھا تو 20 مسلح گروہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ 300 سے زائد مرتبہ اس سیز فائر معاہدے کی مسلح گروہوں نے خلاف ورزی بھی کی، جبکہ خود بشار الاسد کے خلاف بنائے گئے امریکی اتحاد کی جانب سے امریکا نے شام کی افواج کی پوزیشن پر دانستہ طور پر بمباری کرکے 83 شامی فوجیوں کو قتل کر ڈالا، تاکہ وہاں داعش ان پوزیشن پر قبضہ جمالیں۔ ایوا بارلیٹ نے کہا کہ انہوں نے حمص، معلولہ، اللاذقیہ طرطوس وغیرہ کی صورتحال بھی دیکھی اور چار مرتبہ حلب کی زمینی صورتحال خود جاکر دیکھی۔ انہوں نے شام کے عوام سے بات کی، خاص طور پر حلب کے عوام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ شام کی حکومت اور افواج کی حمایت کرتے ہیں اور وہ دہشت گردوں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیویارک ٹائمز، بی بی سی، گارجین وغیرہ سمیت کارپوریٹ میڈیا میں جو کچھ بھی شامی حکومت کے خلاف بیان ہو رہا ہے، وہ حقیقت کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلب 2012ء سے دہشت گردوں نے قبضے میں لے رکھا ہے اور ان دہشت گردوں میں النصرہ بھی شامل ہے تو وہ فری سیرین آرمی بھی کہ جس نے ویسی ہی انسانیت سوز دہشت گردی کی ہے جیسی النصرہ، داعش، احرار الشام، نورالدین زنگی گروپ وغیرہ نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ گریٹر حلب جس کی آبادی 15 لاکھ نفوس سے کچھ زائد ہے، اسے دہشت گردوں نے کئی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ وہاں غذا اور ادویات کی عدم فراہمی کے ساتھ ساتھ بجلی و پانی کی عدم فراہمی کے ذریعے عوام کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنا کر رکھا گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر ان پر بمباری کی جا رہی ہے، کیونکہ دہشت گرد ان پر مارٹر شیلنگ کرتے ہیں، ساتھ ہی گیس کنستر بم، واٹر ہیٹر بم اور مغربی ممالک کے تیار کردہ راکٹ برساتے ہیں۔ گیس کنستر بم اور واٹر ہیٹر بم دہشت گردوں کے اپنے تیار کردہ تھے۔

انہوں نے کہا کہ کارپوریٹ میڈیا حلب کے اسپتالوں کی تباہی کی خبریں دیتا ہے، لیکن اس سے متعلق حقائق کو چھپاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلب کے القدس اسپتال کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ حلب کے میٹرنٹی اسپتال الدبیت پر 3 مئی کو حملہ ہوا تھا، جس میں 3 خواتین ہلاک ہوئی تھیں، لیکن اقوام متحدہ اور دیگر اداروں نے اس کی خبر نہیں دی۔ دسمبر 2013ء میں النصرہ کے دہشت گردوں نے حلب کے ال کندی اسپتال کو بموں سے لدے ٹرک کے ذریعے تباہ کر دیا تھا۔ لیکن اس کا الزام غلط طور پر روس پر ڈالا گیا، حالانکہ روس تو شام میں 2015ء میں آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کارپوریٹ میڈیا نے غلط خبر پھیلائی کہ حلب میں کوئی اسپتال یا ڈاکٹر نہیں بچا، جبکہ حلب میڈیکل ایسوسی ایشن کے افراد سے ان کی بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کی ایسوسی ایشن کے پاس 4160 رجسٹرڈ ڈاکٹرز ہیں اور ان میں 800 اسپیشلسٹ ہیں۔ جولائی 2016ء میں جب وہ حلب میں تھیں تو نیم کلومیٹر کے فاصلے پر بم دھماکہ ہوا۔ نومبر 2016ء میں بھی وہ حلب گئیں، تب بھی حملوں کا سلسلہ جاری تھا۔ 3 نومبر کو 8 افراد مارے گئے اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ 4 نومبر کو انہوں نے دیکھا کہ شام اور روس نے حلب کے شہریوں کے دہشت گردوں کے زیر قبضہ علاقوں سے نکلنے کے لئے انخلاء کراسنگ بنائی تو ان جگہوں پر بھی دہشت گردوں نے حملے کئے، تاکہ فائرنگ اور مارے جانے کے خوف سے ان کے زیر قبضہ علاقوں میں یرغمال شہری باہر نہ جاسکیں۔ شامی شہری جو اس طرح نکلنے میں کامیاب ہوگئے، انہوں نے شام کی حکومت کا شکریہ اد کیا۔

ایوا بارلیٹ نے کہا کہ کارپوریٹ میڈیا نے یہ جھوٹ پھیلایا کہ شامی حکومت حملے کر رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ دہشت گرد زیر زمین چھپ جاتے تھے اور وہاں سے نکل کر شہریوں پر شیلکنگ گرتے تھے۔ وہ شام کے شہریوں کو خوفزدہ رکھنا چاہتے تھے۔ کینیڈا کی اس خاتون صحافی نے وہاں موجود مغربی ذرائع ابلاغ کے نمائندگان سے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی شام کے عوام کی طرف سے کہتے ہیں کہ سچ بولیں، کیونکہ شام کے عوام یہی چاہتے ہیں۔ شام ایک آزاد و خود مختار ملک ہے اور اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 101 ممالک نے شام میں جو دہشت گرد بھیج رکھے ہیں، اب اس سلسلے کو ختم کیا جائے۔ امریکا بھی دہشت گردوں کی مدد کا سلسلہ ختم کرے۔ شام دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور حلب میں بھی یہ جنگ جیت رہا ہے۔ نہ تو شام میں کوئی غیر مسلح (یعنی پرامن) احتجاج ہو رہا ہے اور نہ ہی وہاں کوئی سول وار (خانہ جنگی) ہو رہی ہے۔ شام کے عوام نے بشار الاسد کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ 2014ء کے الیکشن میں شامیوں نے ووٹ ڈالے۔ حتٰی کہ لبنان میں بھی شامی پناہ گزینوں نے ووٹ ڈالے۔ لیکن مغربی ممالک میں مقیم شامیوں نے نہیں ڈالے۔ شام کے عوام بشار الاسد کو مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ وہ دہشت گردوں کو مسئلہ سمجھتے ہیں۔

کینیڈا کی اس خاتون صحافی کی باتوں کی سچائی کے لئے برطانوی روزنامہ دی انڈی پینڈنٹ کے مشہور کالم نگار پیٹرک کوک برن کی بات یاد آگئی، کیونکہ وہ بھی عراق اور شام میں ان گروہوں پر تحقیقاتی کام کرچکے ہیں اور ان کی ان موضوعات پر کتابیں بھی شایع ہوچکی ہے۔ 16 دسمبر 2016ء کو انہوں نے حلب کی صورتحال پر کالم لکھا، جس کا عنوان تھا کہ اس ہفتے حلب سے خبر سے زیادہ پروپیگنڈا آرہا ہے۔ یہ پروپیگنڈا منظم بنیادوں پر کیا جا رہا ہے اور اس کو مغربی ممالک کی سرپرستی حاصل ہے۔ انہوں نے صرف ایک ملک برطانیہ کا کردار ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
Foreign governments play a fairly open role in funding and training opposition media specialists. One journalist of partly Syrian extraction in Beirut told me how he had been offered $17,000 a month to work for just such an opposition media PR project backed by the British government.
خبر کا کوڈ : 599302
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
سلام عرفان صاحب- حلب سے خبر سے زیادہ پروپیگنڈا آرہا ہے۔ یہ پروپیگنڈا منظم بنیادوں پر کیا جا رہا ہے اور اس کو مغربی ممالک کی سرپرستی حاصل ہے۔ سچی بات ہے اس میں جماعت اسلامی کے facebook page کو بھی پروپیگنڈا میں شامل کر لیں_
جی بالکل درست فرمایا آپ نے۔
ہماری پیشکش