4
0
Sunday 15 Jan 2017 21:14

یمن انسانی المیہ ذمہ دار کون؟

یمن انسانی المیہ ذمہ دار کون؟
تحریر: سید اسد عباس

کوئی آنکھیں نہ کھولے، اگر کسی کے کان سنتے ہیں تو وہ ان کو ڈھک لے، اگر کسی کے پاس حق گو زبان ہے تو وہ اسے خاموش کر دے اور اگر ضمیر جاگ رہا ہے تو اسے کوئی کھلونا تھما کر سلا دیجیئے، کیونکہ میں ایک ایسے ملک کے اقدامات اور ان کے اثرات پر روشنی ڈالنے جا رہا ہوں، جس کے خلاف کوئی بات سننا، دیکھنا یا سوچنا بعض لوگوں کو انتہائی گراں گزرتا ہے۔ اس عبارت سے جو بھی تصور آپ کے ذہن میں ابھرا ہے، اسے محفوظ رکھیئے۔ آپ میں سے اکثر احباب نے یمن کا نام اچھے یا برے عنوان سے سن رکھا ہوگا۔ یمنی لوگ اچھے کیوں ہیں اور برے کیوں ہیں، یہ سوال آپ سے نہیں کروں گا، کیونکہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارا میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ادارے، ہماری وابستگیاں، ہماری پسند ناپسند، علم و لاعلمی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میرا مقصد تو فقط چند ایسے حقائق کو سامنے لانا ہے، جن کا تعلق ثابت شدہ حقیقتوں سے ہے۔ یمن جزیرہ عرب کے جنوبی حصے میں واقعہ ایک چھوٹا سا نہایت غریب ملک ہے، اس کے ارد گرد تیل میں نہائی ہوئی ریاستیں ہیں، جہاں وسائل کی دیوی ہر روز معجزے دکھاتی ہے، کہیں برج خلیفہ بنتا ہے تو کہیں صحراوں میں نخلستان اگتے ہیں۔ وسائل کی اس قدر بھرمار ہے کہ دوسرے ملکوں کے ہزاروں افراد ان ممالک میں روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اسی یمن میں گذشتہ چند برس سے جاری خانہ جنگی کے سبب افلاس اور موت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے ایک کالم میں کچھ اعداد و شمار پیش کئے تھے، جو کچھ یوں تھے: عالمی اداروں منجملہ ہلال احمر، اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے اور دیگر رفاحی تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق 26 مارچ 2015ء سے آج تک ہونے والے اتحادی افواج کے حملوں کے نتیجے میں ہر پانچ یمنیوں میں سے چار کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ اس جنگ کے اثرات یمن کے 22 صوبوں میں سے 21 صوبوں تک پھیل چکے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد افراد ملک کو چھوڑ چکے ہیں۔ دو اعشاریہ اکاون ملین لوگ خانماں برباد ہیں۔ 3 ملین افراد کو غذائی کمی کا سامنا ہے، جن میں 1.3 ملین بچے بھی شامل ہیں۔ تین لاکھ بیس ہزار بچے شدید غذائی قلت سے دوچار ہیں۔ واٹر پمپس کی تباہی کے سبب انیس اعشاریہ تین ملین لوگوں کو صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ 14.1 ملین لوگوں کو بنیادی صحت کی سہولیات دستیاب نہیں رہیں۔ طبی مراکز کی تباہی اور جان بچانے والی ادویات کی عدم دستیابی کے سبب آبادی کی اکثریت کو صحت کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 600 مراکز صحت نے وسائل کی عدم دستیابی کے سبب کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ رفاحی کام کرنے والی اکثر تنظیموں کو یمن میں کام کرنے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ فنڈز کی کمی اور جنگی حالات کے سبب یہ تنظیمیں بھرپور طریقے سے کام کرنے سے قاصر ہیں۔ اقوام متحدہ نے ایک اعشاریہ چھے بلین ڈالر کی امداد کی اپیل کی، جس میں سے اب تک 43 فیصد رقم جمع کی جاسکی ہے۔

آج مورخہ پندرہ جنوری دو ہزار سترہ کو روسی خبر رساں ادارے کی ایک خبر کے مطابق اقوام متحدہ کہتی ہے کہ یمن کے تقریباً انیس ملین افراد کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے، اس عنوان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ بحیرہ احمر کے ساحل پر واقعہ التحیات کا ضلع ہے۔ اس ضلع کے باسیوں کا کاروبار زندگی سمندر سے وابستہ ہے، تاہم اب یہ لوگ سمندر میں اترنے کے قابل نہیں رہے۔ اتحادی طیاروں نے اکثر ان کی کشتیوں پر حملے کئے، جس کے سبب اب اس ضلع کے باسی اس ذریعہ آمدن سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ یمن میں ایک مستحکم حکومت کے نہ ہونے اور خانہ جنگی کے سبب یہاں کے عوام نان جویں کو ترس رہے ہیں۔ قحط سالی اپنے عروج پر ہے۔ اس خطے کی دستیاب چند ایک تصاویر کو دیکھ کر صومالیہ کے قحط کے مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ نہ جانے کہاں سو رہا ہے انسانی ضمیر اور انسان حقوق کے ادارے، کہاں ہیں جانوروں کے حقوق کے لئے نوحہ کرنے والی تنظیمیں، یہاں ابن آدم موت و حیات کی کشمکش میں ہے اور وہ سفید چیتے کی نسل بچانے کے لئے تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ان کا کام بھی برا نہیں، لیکن کیا انسانوں کا حق اس سفید چیتے اور برفانی پانڈا سے بھی کم ہے کہ ان کے لیے کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں۔ میں یہاں قطعاً بھی اسلامی اخوت اور انسانی اقدار کا حوالہ نہیں دوں گا، کیونکہ یہ حوالہ وہاں دیا جاتا ہے، جہاں اسلام کی تعلیمات اور یمن کے حقائق کسی سے پنہاں ہوں۔

اگر کوئی حقیقت بین نگاہیں رکھتا ہو تو اسے سیاسی کھیل اور انسانی المیہ کے مابین فرق بہت آسانی سے معلوم ہوسکتا ہے۔ یہ چند سطور تحریر کرنے کا مقصد ان اذہان پر دستک دینا ہے، جن میں اب بھی حق پرستی کی رمق باقی ہے، شاید کہ وہ یہ تحریر پڑھ کر حق اور باطل کو پہچان سکیں۔ بیروت یونیورسٹی کے شعبہ عالمی امور کے پروفیسر جمال وکیم کے مطابق یمن میں پیدا ہونے والے خوارک، ادویات اور وسائل کے بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی المیہ کو جان بوجھ کر شدت دی جا رہی ہے، تاکہ سیاسی مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔ ان کے مطابق یہ انسانی نسل کشی ہے۔ پروفیسر جمال وکیم کے بیان کردہ سیاسی مقصد کی جانب ایک غیر منافع بخش امدادی تنظیم کے رکن نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حوثیوں کو یمن کا اقتدار منصور الہادی کے سپرد کر دینا چاہیے، تاکہ اتحادی اس خطے پر لگائی گئی پابندیوں کو ختم کریں اور یہاں امداد کا سلسلہ شروع ہو۔ اس کے علاوہ کوئی بھی مدد انتہائی عارضی نوعیت کی ہوگی۔ یمنیوں کا غم و اندوہ، وہاں پیدا ہونے والا انسانی المیہ سب ایک جانب۔ انتہائی تکلیف دہ ہے ان کا مظلومیت کے ساتھ قتل ہونا اور مظلوم کے بجائے جارح تصور کیا جانا اور وہ جو جارح ہے اس کا تقدس ماب کہلانا۔ نہ جانے تاریخ کب تک یوں جارح کو مظلوم اور مظلوم کو باغی کے عنوان سے پکارتی رہے گی، جبکہ تاریخ کے اوراق کے رو سے انسانوں پر واضح ہے کہ تاریخ کبھی کسی جارح کو بے نقاب کئے بنا نہیں چھوڑتی۔
خبر کا کوڈ : 600389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
بہت خوب لکھا ہے۔ تقوی صاحب پاکستان میں جو لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے، کچھ اس کے بارے میں بھی ضرور لکھیں۔ بہت افسوس ناک صورتحال ہے، کئی مذہبی لوگ بھی اسی طرح اغوا کئے جا چکے ہیں، جو ابھی تک لاپتہ ہین۔
ارشاد حسین
Pakistan
آپ نے بہت عمدہ تحریر لکھی ہے اور اپنا حق ادا کیا ہے، آج کے دور میں جب انسانیت صرف ظالموں کے لئے ہے، خدا آپکو اس کا اجر ضرور دے گا۔
سید اسد عباس
Pakistan
شکریہ....خداوند کریم ہمیں مظلومین کے حامیوں میں سے قرار دے۔
Roozi
عمدہ، مدلل اور انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی تحریر ہے۔
میری نظر میں یمن ایک چھوٹا ملک نہیں بلکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی 26 ملین ہے، جو خلیج فارس کے تمام عرب ممالک سے زیادہ ہے۔ یہ ایک قدیم تاریخ و تمدن رکھنے والی قوم ہے اور ان شاء اللہ یہ سعودی اور امریکی جارحیت کے برابر کامیاب ہوگی۔
میرے خیال میں جارحیت کرنے والے کا نام کھل کر لینا چاہیے۔ یہ انسانیت سوز مظالم و جرائم کرنے والا جارح سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک ہیں اور اس سب کو امریکہ کی واضح پشت پناہی حاصل ہے۔
ہماری پیشکش