0
Tuesday 17 Jan 2017 17:32

بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کا منظم قتل

بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کا منظم قتل
تحریر: ثاقب اکبر

بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے منظم قتل کا سلسلہ جاری ہے اور تازہ ترین واقعہ میں بھارتی فوج نے پہلگام میں مزید تین کشمیری نوجوان شہید کر دیئے ہیں۔ بھارتی فوج نے ان مظلوم کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دے کر اور مقابلہ ظاہر کرکے انھیں شہید کیا ہے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ یہ بھارت کا پرانا طرز عمل ہے کہ وہ آزادی پسند کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اور پھر جیسے چاہتا ہے انہیں بربریت کا نشانہ بناتا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان کشمیری نوجوانوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے کشمیریوں کے منظم قتل کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ ترجمان کے مطابق برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سینکڑوں کشمیری نوجوان شہید کئے جا چکے ہیں۔ بھارتی فوج کشمیریوں کے قتل عام کے لئے مہلک ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ، او آئی سی اور بہت سے ملکوں کی طرف سے معاملے کی تحقیق کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن بھارت کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی اجازت نہ دینا مایوس کن ہے۔

دنیا جو آج انسانی حقوق کے لئے بہت بلند بانگ دعوے کرتی رہتی ہے، خدا جانے وہ کب مظلوم کشمیریوں کے اس قتل عام کی طرف متوجہ ہوگی۔ گذشتہ برسوں میں ہزاروں کی تعداد میں قتل ہو جانے والے اور لاکھوں کی تعداد میں زخمی و معذور ہو جانے والے کشمیریوں کی تعداد کا اس مرحلے پر اگر نہ بھی ذکر کیا جائے تو برہان وانی کی گذشتہ برس جولائی میں شہادت کے بعد دسمبر کے آغاز تک کے اعداد و شمار بھی بھارتی فوج کی بربریت کو آشکار کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس سلسلے میں کشمیر میڈیا سروس نے 9 دسمبر 2016ء کو جو اعداد و شمار جاری کئے، اس کے مطابق 8 دسمبر تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں 115 کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ جبکہ 15000 کے قریب زخمی ہوئے۔ 7330 کو پلٹ گن کے ذریعہ زخمی کیا گیا۔ 22 نوجوانوں کو پلٹ گن سے زخمی کرکے بینائی سے محروم کر دیا گیا۔ 307 نوجوان معمولی نوعیت کی آنکھوں کی بینائی کا شکار ہوئے۔ 6500 مکانات تباہ کئے گئے۔ 37 سکولوں کی عمارتیں تباہ کی گئیں۔ 9700 افراد کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے 608 افراد کو کالے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔

کشمیر کے مسئلے میں اقوام متحدہ نے جس طرح کا کردار ادا کیا ہے، اس کے پیش نظر اب بھی اگر ہم اس کے حل کے لئے یو این او ہی سے امید لگائے بیٹھے ہیں تو پھر ہمیں کون دانشمند کہے گا۔ نیز پاکستان کی حکومتیں ہمیشہ امریکہ اور برطانیہ سے گزارش کرتی رہتی ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے میں ثالثی کا کردار ادا کریں، جبکہ ان کی طرف اور اقوام متحدہ سے بھی ہمیشہ یہ جواب آتا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ بھارت بھی کشمیر کے مسئلے کو دو طرفہ مسئلہ قرار دیتا ہے اور اس سلسلے میں وہ کسی ثالثی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں، جبکہ بھارت عملی طور پردو طرفہ بنیاد پر بھی بات کرنے کا روادار نہیں۔ تاریخ اس امر کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ بھارت نے ہمیشہ گفتگو سے ’’پرہیز‘‘ کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے اور ہر معاملے پر ٹال مٹول کی پالیسی اپنائی ہے۔ اکثر بات چیت میں بھی اس کا رویہ منفی رہا ہے اور ایک عرصے سے وہ یہ کہتا آ رہا ہے کہ پاکستان سے فقط دہشت گردی کے موضوع پر بات کی جائے گی، جس سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ پاکستان بھارت میں دہشت گردی کر رہا ہے اور بھارت اسی سلسلے میں پاکستان سے بات کرے گا۔ اگر کبھی وہ کشمیر کے مسئلے پر بات کے لئے تیار بھی ہو جائے تو اس کی کہہ مکرنیاں دیکھنے اور سننے کے لائق ہوتی ہیں۔ وہ یہ کہنے لگتا ہے کہ ہم آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کے بارے میں بات کریں گے، جو پاکستان کے قبضے میں ہیں۔ گویا مقبوضہ کشمیر کے بارے میں تو بھارت نے کوئی بات کرنا ہی نہیں۔

جہاں تک او آئی سی کا تعلق ہے تو او آئی سی جب سے معرض وجود میں آئی ہے، اس وقت سے ابتدائی دنوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس نے ہمیشہ قراردادیں منظور کی ہیں یا امت مسلمہ میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لئے کوئی اقدام کیا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے جدہ میں قائم اس کا مرکز چند خاص ملکوں کے مفادات کے لئے مصروف عمل ہے۔ ایسے میں اس سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کشمیر کے لئے کوئی قابل ذکر کردار ادا کرسکے گی۔ او آئی سی اسرائیل کے ایک وحشیانہ عمل کے خلاف معرض وجود میں آئی تھی اور پھر رفتہ رفتہ اسرائیل کے خلاف ’’پیار بھری مذمتوں کے علاوہ‘‘ اس نے کچھ نہیں کیا۔ اس ساری صورت حال کے پیش نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو کشمیر کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلا کام اس سلسلے میں اس موضوع پر سنجیدہ ہونا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو مل کر کشمیر کے حوالے سے سنجیدگی سے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ پارلیمان کی کشمیر کمیٹی ایک نمائشی مرحلے سے آگے بڑھنی چاہیے اور اسے کشمیر کے بارے میں پاکستانی عوام کا ترجمان بننا چاہیے۔ اگر پارلیمینٹ کے نمائندے پوری دنیا کے ایوانوں میں جا کر پاکستانی عوام اور کشمیری عوام کا مقدمہ مسلسل پیش کریں تو ضرور عالمی سطح پر رائے عامہ منظم کرنے کے لئے یہ ایک مفید عمل ہوگا۔

پاکستان کے سفارتخانوں میں بھی ایک کشمیر ڈیسک قائم کرنے کی ضرورت ہے، جس کی ذمہ داری ہونا چاہیے کہ وہ کشمیر کے معاملے کو متعلقہ ملک میں اٹھاتا رہے، اس سلسلے میں حکومت کے علاوہ رائے عامہ کے نمائندوں سے بھی وہ مسلسل رابطہ رکھے۔ ہر ملک کے ذرائع ابلاغ کو بھی کشمیر کے حقائق سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری بھی اس ڈیسک کے سپرد کی جانا چاہیے۔ اگر وزارت خارجہ یہ اقدام کرے تو یقینی طور پر کشمیر کے حوالے سے اس کی سنجیدگی اس سے ظاہر ہوگی اور اس میں بھی شک نہیں کہ پوری دنیا میں اس کا اثر بھی ہوگا۔ گذشتہ جولائی میں برہان مظفر وانی کی شہادت نے پاکستان کو جو موقع مہیا کیا تھا، گذشتہ پوری تاریخ میں ایسا موقع نہیں آیا تھا کہ دنیا کے سامنے کشمیر کے عوام نے خود سے اپنی آزادی کے لئے ایک منظم جدوجہد چلا کر دکھائی اور ثابت کر دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ ہرگز رہنا نہیں چاہتے۔ افسوس یہ موقع ضائع کیا جا رہا ہے۔

ہمیں یہ بھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی اس موقع پر وہ کردار ادا نہیں کیا، جو وہ کر سکتی تھیں اور جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے اس مسئلے کو اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے کسی اجتماعی حکمت عملی کے لئے مل بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہو۔ ایک آدھ اے پی سی ضرور منعقد ہوئی ہے، لیکن اہم سیاسی جماعتوں نے اس کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسی طرح رائے عامہ کو بھی منظم نہیں کیا جاسکا۔ پاکستانی عوام کو جس انداز سے باہر نکالنا چاہیے تھا، حکومت اور سیاسی جماعتوں نے یہ کام نہیں کیا۔ اگر پاکستانی عوام کو دعوت دی جاتی تو وہ یقیناً کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت میں باہر نکلتے اور پوری دنیا کو اس کا ایک مثبت پیغام جاتا۔ پاکستان کے عوام کو اعتماد میں لینا، انھیں کشمیری عوام کی جدوجہد سے آگاہ رکھنا اور کشمیر کی آزادی کے لئے انہیں متحرک کرنا حکومت اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کی موجودہ اٹھان کے موقع پر میڈیا نے بھی وہ کردار ادا نہیں کیا، جو وہ کر سکتا تھا اور جس کی اس سے توقع کی جاسکتی ہے۔ میڈیا نے ضرور اس موضوع کی طرف توجہ دی ہے، لیکن یہ توجہ بہت کم ہے۔ میڈیا اس سے کم اہم واقعات کو رنگ و روغن کے ساتھ ہر روز پیش کرتا رہتا ہے، لیکن کشمیر کے مقدمے کی جس انداز سے پیروی کی جانا چاہیے تھی، ہمارے اپنے میڈیا نے وہ نہیں کی۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کشمیر میں جب آزادی کی تحریک زیادہ سر اٹھاتی ہے تو بھارت توجہ ہٹانے کے لئے دیگر موضوعات کا سہارا لیتا ہے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد برپا ہونے والی تحریک کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت نے کنٹرول لائن اور پاک بھارت سرحد کی خلاف ورزیوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ہمارے میڈیا نے ان خلاف ورزیوں کو ضرور نمایاں کیا، لیکن اس کے پیچھے چھپی ہوئی بھارتی سازش پر کم توجہ کی۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ آخرکار کشمیر اور پاکستان کے عوام کی ایمانی طاقت ہی سے آزادی کا کرشمہ نمودار ہونا ہے۔
خبر کا کوڈ : 601075
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش