0
Saturday 21 Jan 2017 00:57

تنازعات، الزامات اور ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ(1)

تنازعات، الزامات اور ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ(1)
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

اپنے پہلے خطاب میں امریکی صدر نے بنیاد پرست دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر عسکریت پسندی کے خطرے کو ختم کیا جائے گا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم پرانے اتحادیوں کو مضبوط اور نئے اتحاد کی تشکیل دے کر بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کے خلاف دنیا کو متحد کریں گے۔ امریکی صدر نے واضح طور پر کہا کہ ہم زمین سے بنیاد پرست دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگاتے ہوئے بند پڑی فیکٹریوں کو کھولنے کا اعلان بھی کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے معیشت اور روزگار کی بہتری کے لئے 2 نعرے، امریکی مصنوعات خریدو اور امریکیوں کو نوکری دو، کے نعرے بھی لگائے۔ امریکی صدر نے اپنے خطاب میں صدارتی مہم کے دوران اپنے وعدے کو دہراتے ہوئے کہا کہ وہ تمام عوام کو روزگار فراہم کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مداحوں کے جذبے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ امریکہ متحد ہوگیا تو اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا اور نہ ہی امریکیوں کو کسی قیمت پر جھکنے دیا جائے گا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آخری سانس تک مقابلہ کیا جائے گا اور وہ عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی خطاب میں امریکی اداروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا تحفظ تو کیا، مگر امریکیوں کا نہیں کیا، اب نئی سوچ امریکہ پر حکمرانی کرے گی، ہماری نظریں اب صرف مستقبل پر ہیں۔ امریکی صدر کے مطابق دوسروں کے دفاع پر امریکہ کے اربوں ڈالرخرچ نہیں کرسکتے، ہم ایک قوم ہیں، ہمارا ایک خواب ہے، ایک گھر ہے اور ایک ہی مقصد ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ منشیات سے ہونے والا قتل عام آج کے بعد نہیں ہوگا، اپنی سرزمین کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے۔ اپنے پہلے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ آج کے دن عوام امریکہ کے اصل حکمران بن گئے، تبدیلی کا عمل اسی لمحے سے شروع ہوگیا، آج اقتدار واشنگٹن سے عوام کو منتقل ہوگیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ قوم سے کئے گئے تمام وعدے نبھائے جائیں گے، ہمیں بے انتہا چیلنجز کا سامنا ہے، مگر امریکہ کی تعمیر نو کے لئے دن رات ایک کر دیں گے۔ خطاب سے پہلے صدارتی اقتدار منتقل کرنے کی تقریب امریکہ کے مقامی وقت شام 5 بجے شروع ہوئی، جس میں سبکدوش ہونے والے صدر براک اوباما نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار منتقل کیا۔ حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو سلامی دی گئی اور اقتدار سنبھالنے کے بعد بحیثیت صدر انہوں نے پہلی تقریر حلف برداری تقریب کے دوران کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔ وائٹ ہاؤس میں 20 جنوری کا آغاز ہوتے ہی تقریب کی تیاریاں شروع ہوگئیں تھی، جبکہ حلف برداری تقریب کے موقع پر ممکنہ احتجاج اور دھرنوں کے پیش نظر سکیورٹی کے انتظامات بھی سخت کئے گئے تھے۔ حلف برداری تقریب سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اہل خانہ سمیت صدارتی چرچ کے حوالے سے مشہور سینٹ جوزف چرچ میں عبادات کیں۔ چرچ میں عبادات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ میلانیا کے ہمراہ وائٹ ہاؤس پہنچنے، جہاں فرسٹ لیڈی مشیل اوباما نے میلانیا کو تحفہ پیش کیا۔ اس موقع پر صدر اوباما، مشیل اوباما، ٹرمپ اور میلانیا نے گروپ فوٹو بھی بنوایا۔ تقریب میں ڈونلڈ ٹرمپ سے صدارتی انتخابات میں شکست کھانے والی ہلیری کلنٹن، ان کے شوہر سابق صدر بل کلنٹن، سابق صدر جارج ڈبلیو بش، مشیل اوباما اور دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔

ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل مظاہرے:
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برادری تقریب سے پہلے ہی وائٹ ہاؤس کے باہر دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مشتعل مظاہرین کی جانب سے توڑ پھوڑ کی گئی، جس کے بعد پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں اور پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لئے مرچوں والے اسپرے سمیت مظاہرین کی گرفتاری کا عمل شروع کیا۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری سے پہلے واشنگٹن میں ان کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پولیس نے صورتحال پر قابو پانے کے لئے متعدد مظاہرین پر کیمیکل کا چھڑکاؤ کیا۔ واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب کے باہر ہزاروں کی تعداد میں ٹرمپ مخالف مظاہرین جمع ہیں۔ واشنگٹن کے علاوہ نیویارک میں بھی سینکڑوں افراد نے ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اور سینٹرل پارک کے قریب واقع ٹرمپ ٹاور کے باہر ان کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ اس مظاہرے میں اداکار رابرٹ ڈی نیرو اور مارک روفالو بھی شامل تھے۔ مظاہرین نے نومنتخب صدر کی اعلان کردہ پالیسیوں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس سے پہلے واشنگٹن ڈی سی سی میں لنکن میموریل کی سیڑھیوں پر اپنے مداحوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے عہد کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر امریکہ کو متحد کر دیں گے اور وہ ملک میں تبدیلی لے کر آئیں گے۔ دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس تقریب میں ان کے خاندان کے افراد، اداکار جان ووئٹ اور سول مین کے گلوکار سیم مور نے شرکت کی۔ ٹرمپ نے کنسرٹ کے اختتام پر کہا کہ ہم آپ کے ملک کو متحد کریں گے۔ ہم تمام عوام کے لئے امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنائیں گے۔ ہر کسی کو، بشمول اندرونِ شہر والوں کے لئے، سبھی کے لئے۔ انہوں نے عہد کیا کہ وہ نوکریاں پھر سے لے کر آئیں گے، فوج کی تشکیلِ نو کریں گے اور سرحدوں کو محفوظ بنائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایسے کام کریں گے جو اس ملک میں کئی عشروں سے نہیں ہوئے، یہ بدل کر رہے گا، میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں۔ یہ بدل کر رہے گا۔

واضح رہے کہ امریکی میڈیا نے خبردار کیا تھا کہ واشنگٹن میں آنے والوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوگی، جو مسٹر ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر احتجاجي مظاہرے کریں گے۔ یہ مظاہرے عورتوں، تارکین وطن اور مسلمانوں سے متعلق ان کے بیانات کے خلاف ہوں گے۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی مظاہروں میں شامل ہوں گے، جو میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے خلاف ہیں اور وہ افراد بھی مظاہروں کا حصہ بنیں گے، جو صحت کی دیکھ بھال کے پروگرام أوباما کیئر کی منسوخی سے متعلق ٹرمپ کے عزائم کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ اسی لئے حلف برداری کی تقريبات میں امن و امان کی بحالی اور کسی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لئے دارالحکومت میں 28 ہزار سکیورٹی اہل کار تعینات کئے گئے تھے۔ مخصوص علاقوں میں میلوں لمبی باڑیں لگائی گئی تھیں۔ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور سکیورٹی کے طور پر ریت سے بھرے ہوئے ٹرکوں کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ مظاہرین کا کہنا تھا ان کے لگ بھگ 30 گروپ احتجاج کے لئے واشنگٹن آئیں ہیں، جس کے لئے انہوں نے اجازت نامے حاصل کئے تھے۔ مظاہرین کی تعداد کا تخمینہ پونے تین لاکھ افراد لگایا جا رہا ہے۔ ایک احتجاجي گروپ جے 20 نے نیشنل مال پر واقع تمام 12 سکیورٹی چوکیوں کے سامنے مظاہرے کئے۔ ٹرمپ کے خلاف سب سے بڑا مظاہرہ ہفتے کو ہوگا، جس میں اڑھائی لاکھ عورتیں شرکت کریں گی۔ منتظمین نے واشنگٹن کے اس مظاہرے کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی احتجاجي پروگرام ترتیب دیئے ہیں۔ پولیس کے قائمقام سربراہ پیٹر نیوشام نے کہا ہے کہ پولیس اہلکار بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے لئے تیار ہیں، لیکن حکام کا کہنا ہے یہ اقدام غیر ضروری ہوگا۔ انہوں نے واشنگٹن کے این بی سی چینل فور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا کرنا بھی پڑا تو ان کے مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کی جائے گی۔ پولیس نے مظاہرین کو اظہار کی آزادی اور پر امن اجتماع کے آئینی حق کی ضمانت دی ہے۔
خبر کا کوڈ : 602012
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش